Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-8 & Last]


متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 

لطائف دیو بند 

تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔


لطیفہ نمبر 36 !

امام مالک ابن انس مجتہد العصر والزمان سے مولانا مدنی افضل ،امام موصوف صرف مصداق حدیث تھے اور مولانا موصوف آیت ربّانی ۔

وہ حدیث جس کے مصداق امام مالک ہیں اس کا مصداق مولانا مدنی کو قرار دینا مولانا کی توہین اور میری عقیدت و محبت کے خلاف ہے ۔
مفتی بجنور مولانا عزیز الرحمٰن صاحب کا فتوٰی ۔

میں اپنی صحیح و صادق عقیدت اور محبت کی وجہ سے مجبور ہوں کہ مندرجہ ذیل حدیث کا مصداق آپ کو قرار نہ دوں ، لو شک ان یضرب الناس اکباد الابل یطلبون العلم فلا یجدون اعلم من عالم المدینہ الحدیث رواہ مالک والترمذی ۔
قریب ہے کہ لوگ اونٹوں پر سفر کر کے دور دراز سے علم حاصل کرنے کے لئے آئیں گے ، پس وہ عالم مدینہ سے بڑھ کر کسی کو عالم نہ پائیں گے ۔
نسائی اور حاکم نے حدیث مذکورہ کی تحسین کی ہے اور سفیان ابن مہدی اور عبد الرزاق نے فرمایا ہے کہ مصداق اس حدیث کا امام مالک ابن انس ہیں میں کہتا ہوں کہ ہمارے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اٰ یۃٌ مِّنَ اٰ یاتِ اللہ ہیں اور موجودہ زمانے میں اس حدیث کا مصداق ہیں ۔
 (*شیخ الاسلام نمبر 72 کالم 21)


میں اس طرح کی روایات صرف اسلئے پیش کر رہا ہوں کہ ابھی تک جو کچھ ہوا ، ہوا ، مگر اب آپ علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کو سمجھنے میں نہ چوکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھئے ! اس مقام پر ایک مقلد کو مجتہد کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے ؟ نقل کردہ اقتباس پڑھئے ، سفیان ابن مہدی اور عبد الرزاق حدیث مذکورہ کا مصداق سیدنا الامام حضرت مالک بن انس کو قرار دیتے ہیں ، مگر حضرت شیخ کے محب صادق مفتی بجنور مولانا مدنی کو نہ صرف امام مالک کے برابر کرنے کے لئے ان کو مصداق حدیث کہتے ہیں ، بلکہ مولانا موصوف کو آیات ربانیہ میں شمار کر کے حضرت سیدنا امام مالک مجتہد العصر والزمان سے آگے بڑھانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں ، خدارا آپ انصاف کریں ، آخر علمائے دیوبند اپنے شیخ کو ‘‘ خدا کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ‘‘ یا معمولی انسان یا ہماری طرح بشر کیوں نہیں کہتے ؟ ان کو کبھی انسانیت سے بالاتر کبھی امام الرسول ، کبھی الوہیت کا پیکر اور کبھی امام مالک سے افضل کیوں لکھا اور کہا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اب بھی علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کو سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

لطیفہ نمبر 37

جس طرح وہ شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جو بشریت رسول کا منکر ہو ،اسی طرح اس شخص کے بھی ایمان و اسلام کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے جو رسول کو اپنی طرح بشر سمجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر افسوس نجد سے دیوبند یا سہانپور چلے جائیے یہ الفاظ آپ کے کانوں سے ٹکراتے رہیں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رسول ہماری طرح بشر تھے ،رسول معمولی انسان تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر آپ بدقسمتی سے یہ پوچھ لیں کہ اے حضرت ! آپ ایسا کیوں فرماتے ہیں ؟تو بڑی قرآت سے تلاوت فرمائیں گے ، اِنِّمَا اَنا بَشَرٌ مِثلُکُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد یوں استدلال کریں گے کہ دیکھو دیکھو بہ چشم عبرت دیکھو خود سرور کائنات کو تسلیم ہے کہ میں تمھاری طرح بشر ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشر کے کیا معنٰی ہیں ، اور مثلیت کی کیا حقیقت ہے ، اس پر گفتگو کئے بغیر میں بھی حضرات علمائے دیوبند سے صرف ایک سوال کرنے کی جسارت کروں گا ۔ 
‘‘ بقول آپ کے رسول ہماری طرح بشر ہیں ‘‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود رسول کو یہ بات تسلیم تھی تو کیا مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے گی کہ مولانا مدنی ناکارہ ،علم و فضل سے خالی ، اور ننگ اسلاف تھے ،کیونکہ یہ باتیں خود مولانا موصوف کو بھی تسلیم تھیں ۔ مولانا خود ہی فرماتے ہیں :-
میں تو بالکل ہی ناکارہ اور خالی تھا اور آج تک خالی ہی ہوں ۔ 
)نقش حیات صفحہ 15 جلد 1(

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :-
ننگ اسلاف حسین احمد غفر لہ دارالعلوم دیوبند 
5
ربیع الثانی 1377ھ ) ماخوذ از شیخ الاسلام نمبر 167(

غور فرمائیے کہ مولانا مدنی خود کو ناکارہ علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف لکھ رہے ہیں اور ان کا ننگ اسلاف ہونا مدیر الجمیعۃ کو تسلیم ہے جبھی تو شائع کیا ، اور آج تک مولانا کے کسی مرید و معتقد نے ‘‘ننگ اسلاف ‘‘ ہونے پر غم و غصہ کا اظہار نہیں کیا ، اور جب تک مولانا مدنی زندہ تھے کسی نے یہ شکایت نہیں کی کہ حضرت جب آپ ننگ اسلاف نہیں ہیں تو جھوٹ بول کر ننگ اسلاف کیوں لکھتے ہیں ؟ اور نہ کسی مرید نے یہ سوچ کر کہ جب حضرت شیخ کو خود اقرار ہے کہ میں ننگ اسلاف اور ناکارہ ہوں ،تو لاؤ ان کی بیعت توڑدی جائے ، ان تمام حقائق کے باوجود اگر ہم مولانا مدنی کو ان کے ہی فرمودات کی روشنی میں ناکارہ علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف لکھ دیں یا کہہ دیں تو ہر چہار طرف سے آواز اٹھے گی کہ دیکھو دیکھو وہ بدعتی اور قبر پُجوارہا ہے ۔ 
اس سے کسی کو بحث نہیں کہ میں خود بدعت کو ضلالت اور قبر پرستی کو شرک سمجھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس انھیں بدعتی اور قبر پرست کہنے میں ہی سکون ملتا ہے ، نہ یہ دیکھیں گے کہ خود حضرت شیخ کو اپنا ‘‘ننگ اسلام‘‘ ہونا تسلیم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر افہام و تفہیم کا لب و لہجہ اختیار کیجئیے تو کم از کم 640 گالیاں تو ضرور سُننی پڑیں گی ۔ مثال کے طور پر مولانا مدنی ہی کو لے لیجئے شہاب ثاقب لکھنے بیٹھے تو 640 گالیاں دئیے بغیر دم نہ لیا ۔ جس کا اعتراف فاضل دیوبند مولانا عثمانی کو بھی ہے ۔ فرماتے ہیں :-
مصنّف (مولانا شاہ اجمل صاحب سنبھلی علیہ الرحمۃ ) نے شروع میں شہاب ثاقب میں سے 640 ایسے الفاظ کی فہرست دی ہے جو ان کے الفاظ میں موٹی موٹی گالیاں ہیں ، واقعی مولانا مدنی نے اس کتاب میں جس طرح کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں انہیں موٹی موٹی گالیاں نہ سہی مہذّب گالیاں کہنا ضرور حق بجانب ہے۔ 
ماہنامہ تجلّی فروری ،مارچ 1959ء دیوبند 
واہ رے شیخ پرستی ! کہیں گالیاں بھی مہذّب ہوتی ہیں ، عامر صاحب !

گالیوں کو مہذّب آپ کہہ سکتے ہیں مگر اس کے لئے جس کا دل و دماغ اسلامی ہے آپ کا یہ ارشاد ناقابل قبول ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا آئیے ذرا ان گالیوں پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال دی جائے ۔ جو فاضل دیوبند مولانا عامر عثمانی کے نزدیک ‘‘مہذّب گالیاں ‘‘ ہیں ۔

‘‘دھوکہ باز ، فریبی ، مکّار ، دجّال ، بریلوی ، افتراء ، پرواز ، دروغ گو ، بہتان تراش ، دجّال ناپاک ، روافض کے چھوٹے بھائی ، ابلیس لعین کا شاگرد ، گمراہ ، بے دین ، کج فہم ، بے عقل ، بے علم ، بے شعور ، مجدد الکتفیر ، مجدد التضلیل ، مجدد المفترین ، شیطٰنیت کا جال پھیلانے والا ، اہل ہوا و بدع وغیرہ وٍغیرہ ۔

120 صفحے کی کتاب الشہاب الثاقب میں اسی طرح کی 640 گالیاں مولانا عامر کے نزدیک مہذّب گالیاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں چلینج کرتا ہوں ، اگر انہیں الفاظ کو اس طرح لکھ کر کوئی مولانا عامر کے پاس بھیج دے کہ 
جناب عامر عثمانی صاحب 
سلام مسنون 

مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ آپ مولانا اسمٰعیل دہلوی اور مولانا مودودی سے عقیدت رکھتے ہیں ، اس لئے کہ یہ دونوں حضرات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘د ھوکہ باز ، فریبی ، مکّار ، دجّال ، دیوبندی ، افتراء ، پرواز ، دروغ گو ، بہتان تراش ، دجّال ناپاک ، روافض کے چھوٹے بھائی ، ابلیس لعین کا شاگرد ، گمراہ ، بے دین ، کج فہم ، بے عقل ، بے علم ، بے شعور ، مجدد الکتفیر ، مجدد التضلیل ، مجدد المفترین ، شیطٰنیت کا جال پھیلانے والا ، اہل ہوا و بدع ہیں ۔ 
امیّد قوی ہے کہ آپ بُرا نہیں مانیں گے ، بلکہ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے ۔ 
فقط آپ کا ۔۔۔۔۔۔۔فلاں 

تو عامر صاحب کا جام صبر و ضبط چھلک اٹھے گا ، اور بدقسمت ‘‘فلاں ‘‘کو اس طرح لیتھیڑیں گے کہ ‘‘ تجلّی دیوبند ‘‘ کے آٹھ دس صفحات رنگ اٹھیں گے ، اس قسم کے خط کو پڑھنے کے بعد مولانا عامر کچھ کہیں یا نہ کہیں ۔ مگر نامہ نگار کے ان الفاظ کو ‘‘ بدترین ‘‘ گالی یقیناً قرار دیں گے ، مگر جب یہی گالیاں مولانا مدنی کے قلم سے نکلتی ہیں تو مہذّب کہی جاتی ہیں ۔
ناظرین ! پھر سنبھلئے اور غور کیجئے ! گالیاں بہر حال گالیاں ہیں چاہے میری زبان و قلم سے نکلیں یا مولانا مدنی کی زبان و قلم سے ، خواہ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو دی جائیں یا مولانا اسمٰعیل دہلوی یا مولانا ابو الاعلٰے مودودی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گالیوں کو مہذّب قرار دینا غیرمہذّب ہونے کی دلیل ہے ، مگر قربان جائیے فاضلان دیوبند پر، وہ گالیاں جو مولانا احمد رضا کو دی جائیں وہ تو مہذّب ہیں اور جو مولانا حسین احمد کو دی جائیں وہ بدترین ہیں ۔ 
گفتگو بہت طویل ہو گئی ، ہاں تو میں کہہ رہا تھا ، کہ جس طرح آنخضرت کو اپنے جیسا بشر کہنے کے لئے حضرت کا ارشاد ! انما انا بشر مثلکم کو پیش کیا جاتا ہے ، اسی طرح ہمیں یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا کہ ہم لوگ بھی مولانا مدنی کے ارشاد مبارک کو پیش کرتے ہوئے اُن کو ناکارہ ،علم و فضل سے خالی اور ننگ اسلاف کہہ سکیں ۔
ناظرین !
ذرا ٹھرئیے اور ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ مولانا مدنی جب اپنے کو ناکارہ اور ننگ اسلاف کہتے ہیں تو کوئی ان کو ناکارہ اور ننگ اسلاف نہیں کہتا بلکہ تواضح پر محمول کرتا ہے ۔
لیکن جب نبی کریم اپنے آپ کو انما انا بشر مثلکم فرماتے ہیں تو ہر شخص ان کو ‘‘اپنے جیسا بشر ‘‘ کہنے لگتا ہے ، کوئی بھی اللہ کا بندہ تواضح پر محمول کرتے ہوئے یہ نہیں کہتا کہ سرکار دو جہاں صل اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر ہماری طرح نہیں ، حضرت نے مثلکم تواضعاً فرمایا ہے۔
دیکھا آپ نے علمائے دیوبند کا نقطئہ نظر ۔ 
مولانا مدنی اپنے آپ کو ناکارہ اور ننگ اسلاف کہیں تو تواضح ہوجائے اور رسول مقبول بشر مثلکم فرمائیں تو تواضح نہیں بلکہ ہماری ہی طرح بشر ہو جائیں ۔ 
واہ رے علمائے دیوبند کی دو رخی پالیسی ۔ 
فاعتبروا یا اولی الابصار ۔

لطیفہ نمبر 38 
ابھی تک آپ نے جو ملاحظہ فرمایا اس کا تعلق ایمانیات سے تھا اسلئے یہ کہنا غلط ہے کہ علمائے دیوبند اور علمائے بریلی کے درمیان جو نزاع ہے وہ محض فروعی اور غیر ضروری ہے ، اب جب کہ آپ نے بخوبی جان لیا کہ اکابر دیوبند خود اپنے ہی فتاوٰی کی روشنی میں کافر و مُرتد اور ملحد و زندیق ہیں تو علمائے بریلی کے فتوؤں کو تحریر کرنے کی چنداں ضرورت نہ رہی ۔ 
چونکہ یہ لطیفہ کتاب کا آخری لطیفہ ہے اس لئے میری خواہش ہے کہ بعض فروعی مسائل پر بھی روشنی ڈال دی جائے تا کہ بہ آسانی سمجھا جا سکے کہ جن باتوں کا سہارا لیکر ہمیں بدعتی جیسے پھوہڑ اور گندہ لفظ سے مشہور کیا جا رہا ہے ،وہ کہاں تک صداقت و دیانت پر مبنی ہے ۔ 
اس سلسلے میں سارے اقوال میں میں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے پیش کروں گا ، کیونکہ ان کے بارے میں مولانا تھانوی فرماتے ہیں !
من منوز از جمال حاجیم من مکمل از کمال حاجیم 
)ارواح ثلاثہ ص387، حکایت نمبر 423(
مولانا گنگوہی فرماتے ہیں !

تین سال کامل حضرت امداد کا چہرہ میرے قلب میں رہا ہے اور میں نے ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا ۔ 
)ارواح ثلاثہ ص290، حکایت نمبر 307(

علاوہ ازیں حضرت حاجی صاحب قبلہ کی کتاب ،، فیصلہ ہفت مسئلہ ،، کے صفحہ 2پر موصوف کا تعارف ان لفظوں میں کرایا گیا ہے ۔

از افادات منبع الفیوض والبرکات ،امام العارفین فی زمانہ مقداد المحققین فی اوانہ سیدنا مولانا الحافظ الحاج الشاہ محمد امداد اللہ مہاجر مکی تھانوی رحمہ اللہ تعالٰی ۔

اس لئے بہتر بھی یہی ہے کہ ان کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں فروعی مسائل کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تاکہ علمائے دیوبند کے لئے وہ فیصلے قابل قبول ہوں ، لہذا عرس کے بارے میں حاجی صاحب کا نظریہ ملاحظہ ہو ، حضرت حاجی صاحب ،،فیصلہ ہفت مسئلہ ،، صفحہ 7 مطبع مجیدی کانپور پر تحریر فرماتے ہیں ۔
مقصود ایجاد رسم عرس یہ تھا کہ سب سلسلے کے لوگ ایک تاریخ میں جمع ہو جاویں ، باہم ملاقات بھی ہو جاوے ، اور صاحب قبر کی روح کو قرآن و طعام کا ثواب بھی پہونچایا جاوے، یہ مصلحت تعیّن وقت میں ۔ 
اسی صفحے پر آگے چل کے فرماتے ہیں !
حق یہ ہے کہ زیارت مقابر انفراداً و اجتماعاً دونوں طرح جائز اور ایصال ثواب ، قرآت و طعام بھی جائز اور تعین تاریخ بہ مصلحت جائز ۔
صفحہ 7 پر فاتحہ مروج کے بارے میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں !
یہ ہئیت مروج ایصال کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں اور گیارھویں حضرت غوث پاک قدس سرہ اور دسواں ،بیسواں ،چہلم ،شش ماہی ، سالیانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبد الحق رودولوی رحمۃ اللہ علیہ اور سہ منی حضرت شاہ بوعلی قلندر رحمۃ اللہ علیہ و حلوائے شب برآت اور دیگر طریق ایصال ثواب کے اسی قاعدے پر مبنی ہیں ۔ 
اور مشرب فقیر کا اس مسئلہ میں یہ ہے کہ فقیر پابند اس ہئیت کا نہیں ہے مگر کرنے والوں پر انکار نہیں کرتا اور یہی عملدر آمد اس مسئلے میں رکھنا چائیے (گویا جملہ مذکورہ امور بدعت نہیں )۔

صفحہ 4 پر محفل میلاد میں حضور کی تشریف آوری کے بارے میں فرماتے ہیں !
یہ اعتقاد کہ مجلس مولد میں حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہوتے ہیں ،اس اعتقاد کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے ، کیونکہ یہ امر ممکن ہے عقلاً و نقلاً بلکہ بعض مقامات پر اس کا وقوع بھی ہوتا ہے ۔
صفحہ 5 پر میلاد و قیام کے بارے میں فرماتے ہیں !
مجرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد میں شریک ہوتا ہوں ،بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذّت پاتا ہوں ۔ 

الحاصل عرس تعیّن وقت کے ساتھ جائز ،زیارت مقابر انفراداً و اجتماعاً جائز ، ایصال ثواب قرآت ،طعام جائز ، وقت کا تعیّن بھی جائز ، نیز گیارھویں ،دسواں ، بیسواں ، چہلم ، شش ماہی ، سالیانہ ، توشہ حضرت عبد الحق اور حلوائے شب برآت وغیرہم جائز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور حضور کی تشریف آوری میلاد ہیں عقلاً و نقلاً صحیح و درست ہے ، بلکہ بعض مرتبہ واقع ۔۔ اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت حاجی صاحب ہر سال حصول برکات کیلئے محفل مولود منعقد کرتے قیام کرتے اور لطف و لذت حاصل کیا کرتے تھے ، اس لئے ان مذکورہ بالا امور کو بدعت کہنے کا واحد مطلب یہ ہے کہ مولانا نانوتوی ،گنگوہی ، اور تھانوی اُس کے مرید و معتقد ہیں جو خود بدعتی تھا۔
یہ تھے لطائف دیوبند !!!

نوٹ ! علمائے دیوبند کے اس قسم کے مزید لطائف و ظرائف اور افکار و خیالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا بھی ضرور مطالعہ کریں ۔ خون کے آنسو ، زلزلہ ، تحقیقات ، انکشافات ، دیوبند کا نیا دین ، المصباح الجدید ، تبلیغی جماعت ، حق و باطل کی پہچان ( ناشر) ضیاء الدین پبلیکشنز کھارادر کراچی نمبر2

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.