Friday, February 15, 2013

Fatiha per Aitraz Ke Jawabat


فاتحہ پر اعتراضات کے جوابات

اس مسئلہ پر مخالفین کے حسب ذیل اعتراضات مشہور ہیں۔
اعتراض (1):ـ بہت سے فقہاء نے تیسرے اور ساتویں روز میت کے لیے کھانا پکانا منع کیا ہے (دیکھو شامی عالمگیری) بلکہ بزاءزیہ نے تو لکھا ہے۔ وبعد الا سنبوع یعنی ہفتہ کے بعد بھی پکانا منع ہے اس میں برسی ششماہی چہلم سب شامل ہیں۔ نیز قاضی ثناءاللہ صاحب پانی پتی نے وصیت فرمائی تھی۔ "کہ بعد مردن من رسوم دنیاوی وہم وبستم و چہلم و ششماہی و برسینی ہیچ نہ کنند کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ ازمہ روز ماتم کردن جائز نہ داشتہ۔" نیز حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میت کا کھانا دل کو مردہ کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
جواب:- فقہاء نے میت کے ایصال ثواب سے منع نہ کیا بلکہ حکم دیا جیسا کہ ہم پہلے باب میں عرض کر چکے ہیں۔ جس کو فقہاء منع کرتے ہیں وہ چیز ہی اور ہے وہ ہے میت کے نام پر برادری کی روٹی لینا۔ یعنی قوم کے طعنہ سے بچنے کے لیے جو میت کے تیجے، دسیوں وغیرہ میں برادری کی دعوت عام کی جاتی ہے وہ ناجائز ہے اس لیے کہ یہ نام و نمود کے لیے ہے اور مور نام و نمود کا وقت نہیں ہے اگر فقراء کو بغرض ایصال ثواب فاتحہ کرکے کھانا کھلایا تو سب کے نزدیک جائز ہے۔ شامی جلدی اول کتاب الجنائز باب الدفن میں ہے۔
ویکرہ اتخاذ الصیافۃ من اھل المیت لانہ شرع فی السترور لا فی الشرور۔
یعنی میت والوں سے دعوت لینا مکروہ ہے کیونکہ یہ تو خوشی کے موقعہ پر ہوتی ہے نہ کہ غم پر۔
دعوت لینے کے وہ ہی معنٰی کہ برادری مجبور کرے کہ روٹی کر۔ پھر فرماتے ہیں۔
وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیحنززعنھا لانھم لا یریدون بھا وجہ اللہ۔
یہ سارے کام محض دکھاوے کے ہوتے ہیں لٰہذا ان سے بچے کیونکہ اس سے اللہ کی رضا نہیں چاہتے۔
صاف معلوم ہوا کہ فخریہ طور پر برادری کی دعوت منع ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔
وان اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا۔
اگر اہل میت نے فقراء کے لیے کھانا پکایا تو اچھا ہے۔
یہ فاتحہ کا جواز ہے۔
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی کا اپنے تیجہ دسویں سے منع فرمانا بالکل درست ہے ۔ وہ فرماتے ہیں۔ رسوم دنیا کیا ہے عورتوں کا تیجہ وغیرہ کو جمع ہوکر پیٹنا نوحہ کرنا وہ واقعی حرام ہے۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ تین دن سے زیادہ تعزیت جائز نہیں۔ اس جگہ ایصال ثواب اور فاتحہ کا ذکر نہیں۔ جس کا مقصد یہ ہوا کہ تیجہ وغیرہ میں ماتم نہ کریں۔ تمہارا یہ کہنا کہ میت کا کھانا دل کو مردہ کرتا ہے ہم نے یہ حدیث کہیں نہ دیکھی۔ اگر یہ حدیث ہو تو ان احادیث کا کیا مطلب ہوگا جن میں مردوں کی طرف سے خیرات کرنے کی رغبت دی گئی ہے۔ نیز تم بھی کہتے ہو کہ بغیر تاریخ مقرر کئے ہوئے مُردے کے نام پر خیرات جائز ہے۔ اس خیرات کو کون کھائے گا؟ جو آدمی کھالے اس کا دل مُردہ ہو جائے گا تو کیا اس کو ملائکہ کھائیں گے۔
مسئلہ:۔ میت کے فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلایا جاوے۔ اعلٰیحضرت قدس سرہ نے اس پر مستقل رسالہ لکھا "جلی الصوت النہی الدعوات عن الموت۔ بلکہ دیکھنے والے تو کہتے ہیں۔ کہ خود اعلیٰحضرت قدس سرہ کسی اہل میت کے ہاں تعزیت کے لیے تشریف لے جاتے تو وہاں پان حقہ وغیرہ بھی نہ استعمال فرماتے تھے۔ اور خود وصایا شریف میں وصیت موجود ہے کہ ہماری فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلایا جاوے۔ نیز اگر میت کی فاتحہ میت کے ترکہ سے کی ہے تو خیال رہے کہ غائب وارث یا نابالغ کے حصہ سے فاتحہ نہ کی جاوے یعنی اولاً مال میت تقسیم ہو جاوے پھر کوئی بالغ وارث اپنے حصہ سے یہ امور خیر کرے۔ ورنہ یہ کھانا کسی کو بھی جائز نہ ہوگا کہ بغیر مالک کی اجازت یا بچہ کا مال کھانا جائز نہیں۔ یہ ضرور خیال رہے۔

اعتراض (2):- فاتحہ کے لیے تاریخ مقرر کرنا ناجائز ہے۔ گیارہویں تاریخ یا تیسرا، دسواں، بیسواں، چہلم اور برسی وغیرہ یہ دن کی تعین محض لغو ہے۔ قرآن فرماتا ہے۔ وھم عن اللغو معرضون مسلمان لغو کاموں سے بچے ہیں، بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو ایصال ثواب کرو۔ تیسرے دن کا انتظار کیسا؟ نیز تیجہ کے لیے چنے مقرر کرنا وہ بھی بھنے ہوئے یہ محض لغو اور بیہودہ ہے اس لیے تیجہ وغیرہ کرنا منع ہے۔
جواب:- مقرر کرنیکا جواب تو ہم قیام میلاد کی بحث میں دے چکے ہیں۔ کسی جائز کام کے لیے دن تاریخ مقرر کرنیکا محض یہ مقصد ہوتا ہے کہ مقرر دن پر سب لوگ جمع ہو جائیں گے اور مل کر یہ کام کریں گے۔ اگر کوئی وقت مرر ہی نہ ہو تو بخوبی یہ کام نہیں ہوتے۔ اسی لئے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے وعظ کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ روزانہ وعظ فرمایا کیجئے۔ فرمایا تم کو تنگی میں ڈالنا مجھ کو پسند نہیں۔ (دیکھو مشکوٰۃ کتاب العلم) بخاری نے تو باری مقرر کرنے کا باب باندھا۔ یہ محض آسانی کے لیے ہوتا ہے آج بھی مدارس کے امتحان جلسے، تعطیلات کے مہینہ اور تاریخکیں مقرر ہوتی ہیں کہ لوگ ہر سال بغیر ہلائے ان تاریخوں پر پہنچ جاویں۔ صرف یہ ہی مقصد ان کا بھی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ ہی تاریخیں مقرر کیوں کیں۔ تو سنیئے! گیارہویں کے مقرر ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ سلاطین اسلامیہ کے تمام محکموں میں چاند کی دسویں تاریخ کو تنخواہ تقسیم ہوتی تھی اور ملازمین کا خیال یہ تھا کہ ہماری تنخواہ کا پہلا پیسہ حضور غوث پاک کی فاتحہ پر خرچ ہو۔ لیہذا جو وہ شام کو دفتر سے گھر آتے تو کچھ شیرینی لیتے آتے بعد نماز مغرب فاتحہ دیتے یہ شب گیارہویں شریف ہوتی تھی۔ یہ رواج ایسا پڑا کہ مسلمانوں میں اس فاتحہ کا نام گیارہویں شریف ہوگیا۔ اب جس تاریخ کو بھی حضور غوث پاک کی فاتحہ کریں یا کچھ ان کے نام پر خرچ کریں۔ اس کا نام گیارہویں ہی ہوتا ہے۔ یو۔پی اور کاٹھیا واڑ میں ماہ ربیع الآخر میں سارے ماہ فاتحہ ہوتی ہے مگر نام گیارہویں ہی ہوتا ہے۔
نیز بزرگوں کے بڑے بڑے واقعات دسویں تاریخ کو ہوئے جس کے بعد گیارہویں رات آتی ہے۔ آدم علیہ السلام کا زمین پر آنا۔ ان کی توبہ قبول ہونا۔ نوح علیہ السلام کی کشتی کا پار لگنا اسمٰعیل علیہ السلام کا ذبح سے نجات پانا۔ یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے باہر آنا۔ یعقوب علیہ السلام کا فرزند سے ملنا۔ موسٰی علیہ السلام کا فرعون سے نجات پانا۔ ایوب علیہ السلام کا شفاء پانا۔ امام حسین کا شہید ہونا اور سیدالشہہداء کا درجہ پانا سب دسویں تاریخ کو واقع ہوئے، اس کے بعد جو پہلی رات آئی۔ وہ گیارہویں تھی۔ لٰہذا یہ رات متبرک ہے۔ اسی لیے گیارہویں کی فاتحہ اکثر شب گیارہویں یں ہوتی ہے کیونکہ متبرک راتوں میں صدقہ و خیرات وغیرہ کرنا چاہئیے۔
اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے بلکہ خود میرا بھی تجربہ ہے کہ اگر گیارہویں تاریخ کو کچھ مقرر پیسوں پر فاتحہ پابندی کی جاوے تو گھر میں بہت برکت رہتی ہے۔ میں بحمدہ تعالٰی اس کا بہت سختی سے پابند ہوں اور اس کی بہت برکت دیکھتا ہوں۔ کتاب یازدہ مجلس میں لکھا ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور علیہ السلام کی بارہویں یعنی بارہ تاریخ کے میلاد کے بہت پابند تھے۔ ایک بار خواب میں سرکار نے فرمایا کہ عبدالقادر تم نے بارہویں سے ہم کو یاد کیا۔ ہم تم کو گیارہویں دیتے ہیں۔ یعنی لوگ گیارہویں سے تم کو یاد کریں گے۔ اسی لیے ربیع الاول میں عموماً میلاد مصطفٰی علیہ السلام کی محفل ہوتی ہے۔ تو ربیع الثانی میں حضور غوث پاک کی گیاریوں چونکہ یہ سرکاری عطیہ تھا۔ اس لیے تمام دنیا میں پھیل گیا۔ لوگ تو شرک و بدعت کہہ کر گھٹانے کی کوشش کرتے رہے مگر اس کی ترقی ہوتی گئی۔
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالٰی تیرا
تیجہ کے لیے تیسرا دن آرام کرنے میں بھی مصلحت ہے۔ پہلے دن تو لوگ میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول رہتے ہیں دوسرے دن آرام کرنے کے لیے خالی چھوڑا گیا۔ تیسرے دن عام طور پر جمع ہوکر فاتحہ قل وغیرہ پڑھتے ہیں۔ یہ تیسرا دن تعزیت کا آخری دن ہے کہ اس کے بعد تعزیت کرنا منع ہے الاللغائب عالمگیری کتاب الجنائز باب الدفن میں ہے۔
ووفتھا من حین یموت الی ثلثۃ ایام ویکرہ بعدھا الا ان یکون المعزی اوالمعزے الیہ غائبا۔
اور ماتم پرسی کا وقت مرنے کے وقت سے تین دن تک ہے اس کے بعد مکروہ ہے۔ مگر یہ کہ تعزیت دینے والا یا لینے والا غائب ہو۔
آج تک تو لوگ تعزیت کے لیے آتے رہے اب نہ آئیں گے تو کچھ ایصال ثواب کرکے جاویں۔ نیز باہر کے پردیسی خویش واقربا بھی اس فاتحہ میں شرکت کر لیتے ہیں کہ تین دن میں مسافر بھی اپنے گھر پہنچ سکتا ہے۔
چہلم برسی وغیرہ کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا منشاء ہے کہ سال بھر تک میت کو وقتاً فوقتاً ثواب پہنچاتے رہیں۔ کیونکہ بعد مرنے کے اول اول مردے کا دل اپنے دوست اور احباب سے لگا رہتا ہے پھر آہستہ آہستہ بالکل ادھر سے بے تعلق ہو جاتا ہے۔ لڑکی کا نکاح کرکے سسرال بھیجتے ہیں۔ تو اولاً جلد از جلد اس کو بلانا چلانا ہدیہ وغیرہ بھیجنا جاری رہتا ہے۔ پھر جس قدر زیادہ مدت گزری یہ کام بھی کم ہوتے گئے۔ کیونکہ شروع میں وہاں و لجمعی اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی اصل حدیث سے بھی ملتی ہے بعد دفن کچھ دیر قبر پر کھڑا ہوکر ایصال ثواب اور تلقین سے میت کی مدد کرنی چاہئیے۔ حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وسیت فرمائی تھی کہ بعد دفن تھوڑی دیر میری قبر پر کھڑا رہنا تاکہ تمہاری وجہ سے میرا دل لگ جاوے اور نکیرین کو جواب دے لوں چنانچہ مشکوٰۃ باب الدفن میں ان کے یہ الفاظ منقول ہیں۔ ثم اقیموا احول قبری حتی استانس بکم اجیب ماذا راجع رسل ربی۔
اسی لیے جلداز جلد اس کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی پارہ عم والقمر اذا نشق کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اول حالتے کہ بجر وجدا اشدن روح از بدن خواہد شد فی الجملہ اثر حیات سابقہ والفت تعلق بدن و دیگر معروفاں ازابنا جنس خود باقی است واں وقت گویا برزخ است کہ چیزے ازاں طرف دچیزے ازیں طرف مدد زندھاں، بمردگاں دریں حالت زود ترمی رسد و مردگان منتظر لحوق مدد ازیں طرف مے باشند صدقات وادعیہ و فاتحہ دریں وقت بسیار پکارا دمی آید و ازیں است کہ طوائف بنی آدم تایک سال وعلی الخصوص یک چلہ بعد موت دریں نوع امداد کوشش تمام می نمایند مردے کی پہلی حالت جوکہ فقط جسم سے روح نکالنے کا وقت ہے اس میں کچھ نہ کچھ زندگی کا اثر اور بدن اور اہل قرابت سے تعلق باقی ہوتا ہے۔ یہ وقت گویا برزخ ہے کچھ ادھر ادھر تعلق اور کچھ اس طرف اس حالت میں زندوں کی مدد مردوں کو بہت جلد پہنچتی ہے اور مُردے اس مدد پہنچنے کے منتظر ہوتے ہیں اس زمانہ میں صدقہ دعائیں فاتحہ اس کے بہت ہی کام آتی ہیں۔ اس وجہ سے تمام لوگ ایک سال تک خاص کر موت کے چالیس روز تک اس قسم کی مدد پہنچانے میں بہت کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہی حال زندوں کا بھی ہوتا ہے کہ اول اول بہت غم پھر جس قدر وقت گزرتا گیا رنج کم ہوتا گیا۔ تو منشاء یہ ہوتا ہے کہ سال بھر تک ہر آدھے پر صدقہ کریں سال پر برسی اس کے نصف پر ششماہی اس کے نصف پر سہ ماہی کی فاتحہ اس کے بعد نصف یعنی 45 دن فاتحہ ہونی چاہئیے تھی۔ مگر چونکہ چالیس کا عدد روحانی اور جسمانی ترقی کا ہے اس لیے چہلم مقرر کیا گیا۔ پھر اس کا آدھا بیسواں پھر اس کا آدھا دسواں۔
چالیس میں کیا ترقی ہے ملاحظہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کا ضمیر چالیس سال تک ایک حالت میں رہا۔ پھر چالیس سال میں وہ خشک ہوا۔ ماں کے پیٹ میں بچہ چالیس روز تک نطفہ پھر چالیس روز تک جما ہوا خون، پھر چالیس روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے (دیکھو مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر) پیدا ہونے کے بعد چالیس روز تک ماں کو نفاس آ سکتا ہے۔ پھر چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر عقل پختہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اکثر انبیائے کرام کو چالیس سال کی عمر میں تبلیغ نبوت دی گئی۔ صوفیائے وظیفوں کے لیے چلے یعنی چالیس چالیس روز مشقیں کرتے ہیں تو ان کو روحانی ترقی ہوتی ہے۔ موسٰی علیہ السلام کو بھی حکم ہوا کہ کوہ طور پر آکر چالیس روز اعتکاف کرو تب رات دی گئی۔ واذوا اعدنا موسی اربعین لیلتہ۔ انوار ساطعہ کی روایت سیدنا انس سے بیان کی۔ بحث چہلم کہ ان الانبیاء لا یترکون فی قبورھم اربعین لیلتہ ولکن ھم یضلون بین یدی اللہ حتی ینفخ فی الصور اس حدیث کے معنٰی زرقانی شرح مواہب نے یوں بیان کیے کہ انبیاء کرام کی روح کا تعلق اس جسم مدفون سے چالیس روز تک بہت زیادہ رہتا ہے۔ بعد ازاں وہ روح قرب الٰہی میں عبادت کرتی ہے اور جسم کی شکل میں ہوکر جہاں چاہتی ہے جاتی ہے عوام میں تو یہ بھی مشہور ہے کہ چالیس دن تک میت کی روح کو گھر سے علاقہ رہتا ہے۔ ممکن ہے اس کی اصل کچھ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ چالیس کے عدد میں تغیر وتبدل ہے لٰہذا مناسب ہوا کہ چالیس دن پر فاتحہ کی جاوے اور اس کی ممانعت ہے نہیں۔
تیجہ کے متعلق مختلف رواج ہیں۔ کاٹھیاواڑ میں علی العموم تیسرے دن صرف قران پاک ہی پڑھتے ہیں۔ پنجاب میں عام طور پر تیسرے دن دودھ اور کچھ پھل پر فاتحہ کرتے ہیں۔ یوپی میں تیسرے دن قران خوانی بھی کرتے ہیں اور بھنے ہوئے چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھ کر ایصال ثواب کرتے ہیں۔ ہم پہلے باب میں مولوی محمد قاسم صاحب کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں کہ میت کو ایک لاکھ کلمہ طیبہ پڑھوانے کے لیے ساڑھے بارہ سیرچنے منتخب کئے گئے ہیں کیونکہ اتنے چنے ایک لاکھ ہو جاتے ہیں یہ محض شمار کے لیے ہے اگر اتنی تسبیحیں یا اس قدر گھٹلیاں یا کنکریاں جمع کی جائیں تو اس میں دقت ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنے یہاں موت پر لاکھ کنکریاں جمع کرتا پھرے اس لیے چنے اختیار کر لیے کہ اس میں کلمہ کا شمار بھی ہے اور بعد میں صدقہ بھی بھنے ہوئے اس لیے تجویز ہوئے کہ کچے چنے لوگ پھینک دیں گے یا گھوڑوں کا دانہ بنا دیں گے۔ اس میں بے حرمتی ہے بھنے ہوئے چنے صرف کھانے ہی کے کام آجاویں گے۔

اعتراض (3):- فاتحہ وغیرہ میں ہنود سے مشابہت ہے کہ وہ بھی مردوں کی تیرھویں کرتے ہیں اور حدیث میں ہے کہ من تشبہ بقوم فھومنھم جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ ان میں سے ہے لٰہذا یہ فاتحہ منع ہے۔
جواب:۔ کفار سے ہر مشابہت منع نہیں بلکہ بری باتوں میں مشابہت منع ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو کہ کفار کی دینی یا قومی علامت بن چکا ہے جس کو دیکھ کر لوگ اس کو کافر قوم کا آدمی سمجھیں جیسے کہ دھوتی، چوٹی، زنار، ہیٹ وغیرہ ورنہ ہم بھی آب زمزم مکہ معظمہ سے لاتے ہیں ہندو بھی گنگا سے گنگا جل لاتے ہیں۔ ہم بھی منہ سے کھاتے ہیں اور پاؤں سے چلتے ہیں کفار بھی۔ حضور علیہ السلام نے عاشورہ کے روزہ کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ اس میں مشابہت یہود تھی۔ پھر فرمایا کہ اچھا ہم دو روزے رکھیں گے۔ کچھ فرق کر دیا مگر اس کو بند نہ کیا۔ اسی طرح ہمارے یہاں کلمہ قرآن پڑھا جاتا ہے۔ مشرکین کے یہاں یہ نہیں ہوتا۔ پھر مشابہت کہاں رہی؟ اس کی بحث شامی باب مکروہات الصلوٰۃ میں دیکھو ہاں جو کام مشابہت کفار کی نیت سے کیے جاویں وہ منع ہیں۔ فاتحہ کی پوری بحث انوار ساطعہ میں دیکھو۔

اعتراض (4):- اگر فاتحہ میں بدنی و مالی عبادت کا اجتماع ہے تو چاہئیے نجس چیز خیرات کرتے وقت بھی فاتحہ پڑھ لیا کرو لٰہذا اویلہ (گوبر) وغیرہ پر بھی فاتحہ پڑھ کر کسی کو دیا کرو۔ جب چوہڑا پاخانہ اٹھائے تو تم فاتحہ پڑھ کر اسے گھر سے باہر جانے دو۔ (دیوبندی تہذیب۔)
جواب:- نجس چیز پر اور نجس جگہ تلاوت قرآن حرام ہے لٰہذا ان کی خیرات پر تلاوت نہیں کر سکتے ڈکار پر الحمدللہ پڑھتے ہیں۔ نہ کہ ریح نکلنے پر کہ وہ نجس و ناقص عضو ہے۔ اسی طرح چھینک پر الحمدللہ کہتے ہیں نہ کہ نکسیر پر

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.