Sunday, February 03, 2013

Deoband Aur Qabar Parasti

قبرومزار پرستی کی تعلیم
اکابرین دیوبند کے پیرو مرشد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی صاحب لکھتے ہیں:
’’اولیاء اور مشائخ کی قبروں کی زیارت سے مشرف ہوا کرے اور فرصت کے وقت ان کی قبروں پر آ کر روحانیت سے ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی حقیقت کو مرشد کی صورت میں خیال کرکے فیض حاصل کر لے اور کبھی کبھی عام مسلمانوں کی قبروں پر جا کر اپنی موت یاد کیا کرے اور ان پر ایصالِ ثواب کرے اور مرشد کے حکم اور ادب کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور ادب کی جگہ سمجھے کیونکہ مرشدین خدا اور رسول کے نائب ہیں ۔‘‘
 (کلیاتِ امدادیہ : ص72)


حاجی صاحب کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ:
۱) اپنے پیر و مرشد کے حکم اور ادب کو اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور ادب کی جگہ ہی سمجھنا چاہیے۔
۲) عام مسلمانوں کی قبروں کا حکم تو یہ ہے کہ ان پر کبھی کبھی جا کر ایصالِ ثواب کیا جائے اور ان زیارتِ قبور سے موت کو یاد کیا جائے۔
۲) مگر اولیاء و مشائخ کی قبروں کی زیارت جب فرصت ملے کرنی چاہیئے اور ان کی قبروں پر آ کر عام مسلمانوں کی قبروں سا سلوک نہیں ہونا چاہیے کہ ایصال ثواب کیا جائے یا موت کو یاد کیا جائے بلکہ بزرگوں کی قبروں پر آنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ روحانی طور پر ان کی طرف توجہ کی جائے اور ان سے فیض حاصل کیا جائے ۔ اس چیز سے ان بزرگوںکی قبروں سے وہی فائدہ حاصل ہو گا جو ان کی زندگی میں ہوتا تھا۔اگر یقین نہ ہو تو ملاحظہ فرمائیے:

حاجی امداد اﷲصاحب اپنے پیر و مرشد میاں جی نور محمدصاحب کے آخری وقت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’حضرت نے تشفی دی اور فرمایاکہ فقیر مرتا نہیں ہے۔صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے فقیر کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہو گا جوزندگی ظاہری میں میری ذات سے ہوتا تھا۔‘‘ 
(امداد المشتاق:ص118 )

 ’’حضرت نے تشفی دی اور فرمایاکہ فقیر مرتا نہیں ہے۔صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے فقیر کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہو گا جوزندگی ظاہری میں میری ذات سے ہوتا تھا۔‘‘ 

( تاریخ مشائخ چشت: ص234)

اشرف علی تھانوی صاحب اس روایت کوحاجی صاحب سے بیان کرنے کے بعدان کا تجربہ یوں نقل کرتے ہیں:
’’فرمایا حضرت(یعنی حاجی امداد اﷲ)صاحب نے کہ مَیں نے حضرت کی قبر مقدس سے وہی فائدہ اٹھایا،جو حالت حیات میں اٹھایا تھا۔‘‘

امداد المشتاق:ص118


ان دیوبندی اکابرین کے بیانات سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک:
۱) کسی بزرگ کی وفات کے بعداس کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے جو اس کی زندگی میں اس کی ذات سے ہوتا تھا۔
۲) حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی صاحب نے اپنے پیر و مرشد کی قبر سے اسی طرح فائدے حاصل کیئے جس طرح ان کی ذات سے زندگی میں حاصل تھے۔

ایک دیوبندی خان صاحب بیان کرتے ہیں:

’’ شاہ ولی اﷲ صاحب بطن مادر میں تھے تو ان کے والد ماجد شاہ عبد الرحیم صاحب ایک دن (خواجہ)قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوئے اور مراقب ہوئے اور ادراک بہت تیز تھا۔خواجہ صاحب نے فرمایاکہ تمھاری زوجہ حاملہ ہے اس کے پیٹ میں قطب الاقطاب ہے۔اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا۔اقرار و تسلیم فرمایااور آ کر بھول گئے۔ ایک روز شاہ صاحب کی زوجہ نماز میں مصروف تھیں ۔ جب انہوں نے دعا مانگی تو ان کے ہاتھ میں دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ نمودار ہو گئے۔ وہ ڈر گئیں اور گھبرا کر شاہ صاحب سے فرمایاکہ یہ کیا بات ہے۔فرمایا ڈرو نہیں تمھارے پیٹ میں ولی اﷲ ہے۔‘‘
(ارواحِ ثلاثہ:ص21 )


دیوبندی حضرات کے روایت کردہ اس واقعہ سے معلوم ہوا:
۱ مزاروں پر جا کر مراقبہ کرنے سے جو فیوض و برکات حاصل ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صاحبِ قبرسے ،بیٹا ہو گا کہ بیٹی ،نیک ہو گا کہ بد، جیسی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔
۲ اتنی اہم معلومات حاصل ہونے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اگر کسی عورت کے پیٹ میں کوئی اﷲ کا ولی پرورش پا رہا ہو تو جب اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنی ولایت کے اظہار کے لیئے اپنی ماں کے ہاتھوں میں نمودار ہوں گے تو خوف محسوس نہیں ہو گا،سبحان اللہ۔


No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.