Tuesday, February 05, 2013

Deobandi Akbireen Ke Haya Soz Waqiat Aur Malfoozat

اکابرین ِدیوبندکے حیا سوز واقعات و ملفوظات
دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی اپنے ایک حیدرآبادی ماموں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ اس حفاظت شریعت کا ایک واقعہ ان ہی ماموں صاحب کا اور یاد آیا۔۔۔۔ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہو کر بازار میں ہو کر نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا ۔۔۔۔‘‘
ملفوظاتِ حکیم الامت:ج 9 ص 212



 تھانوی صاحب نے ایک حافظ جی کا قصہ سناتے ہوئے فرمایا:

’’شاگردوں نے کہا حافظ جی نکاح میں بڑا مزہ ہے۔ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سُسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزا ہے ہمیں تو کچھ بھی مزا نہ آیا ۔لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزا نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزا آتا ہے۔۔۔۔مارنے کے یہ معنی ہیں اسکے موافق عمل کیا تب حافظ جی کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے۔‘‘
ملفوظاتِ حکیم الامت:ج  1 ص 347


عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی اپنے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی نادر تعلیم و تربیت کا نمونہ روایت کرتے ہیں:

’’ایکبار بھرے مجمع میں حضرت (رشید احمد گنگوہی) کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اﷲ ری تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چیں بہ جبیں نہ ہوئے بلکہ بیساختہ فرمایا جیسے گیہوں(گندم) کا دانہ۔‘‘
تزکرۃ الرشید:ج 2 ص  100



خواجہ عزیز الحسن صاحب نے ایک دفعہ نہایت شرماتے ہوئے اپنے پیر و مرشد اشرف علی تھانوی صاحب سے فرمایا:

’’ میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔ اس اظہارِ محبت پر حضرت والا(تھانوی صاحب) غایت درجہ مسرور ہو کر بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے (کہ) ’’یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا ۔ثواب ملے گا ۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔‘‘
اشرف السوانح :ج 2  ص64 



 یہی دیوبندی حکیم الامت ایک اور جگہ اپنے حضرت مولانا محمد یعقوب کے حوالے سے گوبر فشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عوام کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدہے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتا ہی نہیں۔‘‘
ملفوظاتِ حکیم الامت:ج 3 ص 292 



رشید احمد گنگوہی صاحب نے ارشاد فرمایا:

’’ میں نے ایکبار خواب دیکھا تھا کہ مولوی محمد قاسم(نانوتوی) صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میرا ان کے ساتھ نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن و شوہر میں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے فائدہ پہنچاہے۔‘‘
تزکرۃ الرشید:ج 2 ص 289  



ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کر ے کہ یہ تو خواب کا واقعہ ہے ۔حالانکہ گنگوہی صاحب کا اس خواب کواستدلالی صورت میں بر سرِ عام بیان کرنا ہمیں بھی اتنی اجازت تو دیتا ہے کہ ہم بھی اس نیک خواب کو دوسروں کے سامنے پیش کر سکیں۔نیزضروری ہے کہ ہم اس خواب کی کچھ عملی تعبیراور نمونہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیں تاکہ آلِ دیوبند کے لیئے سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

دیوبندیوںکی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ ‘‘میں لکھا ہے:

’’ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا ۔ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے۔ اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے۔ کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ یہاں ذرا لیٹ جائو۔ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے۔ مگر حضرت (گنگوہی) نے پھر فرمایا تو مولانا (نانوتوی)بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔ حضرت (گنگوہی)بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا (نانوتوی)کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیاجیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کی تسکین کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) ہر چند فرماتے کہ میاں کیا کر رہے ہو یہ لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت (گنگوہی) نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہنے دو۔‘‘
ارواحِ ثلاثہ: ص 232-233


عشق معشوقی کا یہ کھیل بھرے مجمع کے سامنے کھیلا گیا تھا،جس پر نانوتوی صاحب بار بار شرما جاتے تھے اور لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی گنگوہی صاحب کو دلاتے تھے۔ مگر عشق تو اندھا ہوتا ہے اور گنگوہی صاحب نے اس مقولے کو صحیح ثابت کرنے کی ٹھان لی تھی۔یہ سب چونکہ لوگوں کے سامنے کی کاروائی ہے اس لیئے ہم نے بھی بیان کر دی ہے۔ اب خلوت و تنہائی میں کیا کیا ہوتا تھا؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔لہٰذا ہم نے صرف اسی بات کو بیان کیا ہے جو سب کے سامنے ہوئی اور جس کے بیان کی اجازت خود گنگوہی صاحب نے دے رکھی ہے کہ لوگ کہیں گے تو کہنے دو۔

خلیل احمد سہارنپوری صاحب نے جب رشید احمد گنگوہی صاحب سے ایک شخص ضامن علی جلال آبادی کے متعلق پوچھا تو گنگوہی صاحب نے مسکرا کر ارشاد فرمایا:

’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید میں غرق تھے۔‘‘
 تذکرۃ الرشید :ج 2  ص 242


یہ ضامن علی جلال آبادی کس توحید میں غرق تھے؟ اس کے متعلق رشید احمد گنگوہی صاحب خود آگے چل کر فرماتے ہیں:

’’ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور میں بہت رنڈیاں مرید تھیں ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاںصاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا’’ میاں صاحب ہم نے اس سے بہیترا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہگار ہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھائوں میں زیارت کے قابل نہیں۔‘‘میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لاناچنانچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب وہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا’’ بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی شرماتی ہوں۔میاں صاحب بولے’’ بی تم شرماتی کیوں ہوکرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے۔‘‘ رنڈی یہ سن کر آگ ہو گئی اور خفا ہو کر کہا لا حول ولا قوۃ اگر چہ مَیں روسیاہ و گنہگارہوں مگر ایسے پیر کے منہ پرپیشاب بھی نہیں کرتی۔‘‘ میاں صاحب تو شرمندہ ہو کر سرنگوںرہ گئے اور وہ اٹھکر چلدی۔‘‘

 تذکرۃ الرشید : ج 2  ص 242


اس طویل عبارت اور قصے سے معلوم ہوا کہ اس خبیث پیر کا عقیدہ یہ تھا کہ زنا کرنے والا اور کرانے والا وہی یعنی خدا ہے،معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔مگر دیوبندیوں کے امام ربانی گنگوہی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ اس کا ہے جو توحید میں غرق تھا۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.