Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-7]



متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 

لطائف دیو بند 

تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔





لطیفہ نمبر 31:- 
مولانا مدنی کو چاہئیے کہ اُمت پر رحم فرما کر اپنی غلطی کو محسوس کریں ورنہ مولانا کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی ۔
اگر مولانا نے رجوع الی الحق نہ کیا تو یہ طرز عمل ایسا ہی ہو گا جیسے ظالم اُمراء کے قول و فعل کو قرآن و حدیث سے ثابت کر کے ظلم و طغیان کو تقویت پہنچائی جائے ۔ 
مولانا مودودی کی رائے !
کم از کم اب وہ ( مولانا مدنی ) امت پر رحم فرما کر اپنی غلطی محسوس فرمالیں ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی ۔ اور اس پُرانی سنت کا اعادہ کریں گی کہ ظالم امراء اور فاسق اہل سیاست نے جو کچھ کیا اسے علماء کے ایک گروہ نے قرآن و حدیث سے درست ثابت کر کے ظلم و طغیان کے لئے مذہبی ڈھال فراہم کر دی ۔
( مسئلہ قومیت صفحہ 69 )


لطیفہ نمبر 32!
رسول مر کر مٹی میں مل گئے ( تقویۃ الایمان صفحہ 96 ) پر مولانا اسمٰعیل دہلوی کا فتوٰی ۔ لیکن مولانا مدنی مرکرنور ہوگئے اور ان کے ہر چہار طرف نور ہی نور ہے فاضل دیوبند مولانا محمد اسحٰق صاحب نگینوی کا دعوٰی :
اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عالم نور میں رہتے ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے ، ان کے داہنے نور ہے ، ان کے بائیں نور ہے ، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے ، وہ خود نور ہو گئے ہیں ۔
( شیخ الاسلام نمبر 15 فروری 1958ء صفحہ 12 کالم 4 )
ناظرین شیخ الاسلام نمبر کے جس مضمون سے ہم نے یہ اقتباس لیا ہے اس کا عنوان ملاحظہ فرمائیں :
‘‘حضرت مدنی کے لئے دنیا کی ہر شے دعا گو رہی ‘‘۔ 
‘‘
اور اب وہ سراسر نور ہیں ۔ ( ایضاً )
لطیفہ نمبر 33!
اب ٹیپ کا بند ملاحظہ فرمائیں :-
میں صاف کہتا ہوں کہ ان ( مولانا مدنی ) کے نزدیک کو*نسلوں اور اسمبلیوں کی شرکت کو ایک دن حرام اور دوسرے دن حلال کردینا ایک کھیل بن گیا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی تحلیل و تحریم حقیقت نفس الامری کے ادراک پر تو مبنی نہیں ۔ محض گاندھی جی کی جنبش لب کے ساتھ ان کا فتوٰی گردش کرتا رہتا ہے ۔
)مسئلہ قومیت ص 63 (

اس بات سے کون نہیں واقف ہے کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا یا تحریم و تحلیل کو ایک کھیل بنالینا یا کسی غیر مسلم کے جنبش لب کو معیار فتوٰی بنانا ، عقلاً اور نقلاً کفر بےدینی ہے ۔ مولانا مودودی کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں مولانا مدنی کے اسلام و ایمان کو تسلیم کرنا حقائق اسلامیہ کے سراسر منافی ہے ، گویا مولانا مودودی کے نزدیک مولانا مدنی کا ارتداد ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔
مگر کیا کیا جائے ، ایسی ذات جو روائے ارتداد اوڑھے ہوئے ہو ، اس کے بارے میں بعض عقل سے پیدل حضرات یہ عقیدے بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔ وہ نور ہو گئے ۔ ان کے چہار طرف نور ہی نور ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

لطیفہ نمبر 34 !
مولانا مرغوب احمد صاحب کی گزارش پر حضرت ابراہیم علیہ السلام مولانا مدنی کے پیچھے نماز پڑھنے پر راضی ہو گئے ۔
حضرت خلیل اللہ نے مولانا مدنی کی اقتداء اور پیروی کی اور خود کو عام لوگوں کی صف میں کر کے غیر رسول کو اپنا امام بنایا ۔
الحاصل مولانا مدنی امام الرسول ہیں 
اس طرح سید الانبیاء صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مولانا مدنی فضیلت کے ایک ہی پلیٹ فارم پر شیخ الاسلام نمبر ببانگ دہل اعلان ۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام گویا کسی شہر میں جامع مسجد کے قریب کسی حجرہ میں تشریف فرماہیں اور متصل ایک دوسرے کمرے میں کتب خانہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کتب خانہ سے ایک مجلہ کتاب اٹھائی ۔ جس میں دو کتابیں تھیں ۔ ایک کتاب کے ساتھ دوسری کتاب تھی ۔ وہ خطبات جمعہ کا مجموعہ تھا ۔
اس مجموعہ خطیب میں وہ خطبہ نظر انور سے گزرا جو مولانا حسین احمد مدنی مد ظلہ خطبہ جمعہ پڑھا کرتے تھے ۔ جامع مسجد میں بوجہ جمعہ مصلیوں کا مجمع بڑا ہے مصلیوں نے فقیر ( مولانا مرغوب )*سے فرمائش کی کہ تم حضرت خلیل اللہ سے سفارش کرو کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام مولانا مدنی کو جمعہ پڑھانے کا ارشاد فرمائیں ۔ فقیر نے جرآءت کرکے عرض کیا تو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے مولانا مدنی کو جمعہ پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ مولانا مدنی نے خطبہ پڑھا اور نماز جمعہ پڑھائی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مولانا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا فرمائی فقیر بھی مقتدیوں میں شامل تھا ۔ 
)شیخ الاسلام نمبر ص 164 ، کالم 4 (

کیا یہ حیرت و استعجاب کی بات نہیں کہ مولانا مدنی کے عاشق صادق جناب مولانا مرغوب احمد صاحب لاجپوری نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہنے کی جرآءت و ہمت کیسے کی کہ وہ نماز نہ پڑھائیں ۔ بلکہ خود حضرت خلیل اللہ ایک غیر نبی کی اقتداء کریں ؟ کیا غیر نبی کے پیچھے نماز پڑھنا ، نبی اور رسول کے پیچھےنماز پڑھنے سے افضل ہے ؟ کیا امامت کے مستحق مولانا مدنی ،حضرت خلیل اللہ سے زیادہ تھے ؟ کیا ایک برگزیدہ نبی کو غیر نبی بلکہ معمولی مولوی کا مقتدی بنانے کی کوشش فساد قلب نہیں ۔ میں نے مولانا مدنی کو ‘‘معمولی مولوی ‘‘ لکھا تو یہ کوئی بُرا ماننے کی بات نہیں ۔ اسلئے کہ جب مولانا عبد الشکور صاحب کے لب و لہجہ میں افضل البشر اور سید کائنات ‘‘ معمولی انسان ‘‘ ہیں تو پھر مولانا مدنی تو اس اعتبار سے معمولی مولوی کہنا بھی ضرورت سے زیادہ ہے ۔
بہر حال ‘‘ شیخ الاسلام نمبر ‘‘ کو بسروچشم قبول کرلینے والوں کو بتانا ہوگا کہ کیا مولانا مدنی کا ایک نبی کی امامت کرنا شرعاً جائز ہوسکتا ہے جب کہ صدیق اکبر جیسا افضل البشر بعد الانبیاء بھی نبی کریم کے آتے ہی مقتدی ہوجاتا تھا ۔ جس پر بخاری و مسلم جو مسلمانوں کے صحیح ترین ماخذ میں سے ہیں شاہد ہیں ۔
تو کیا مولانا مدنی خلیفہ بلا فصل حضرت صدیق اکبر سے بھی اعلٰٰی و ارفع تھے ؟
ناظرین !
کیا آپ جانتے ہیں کہ امام الرسول کسے کہا جا رہا ہے ؟ نہیں جانتے تو سنئیے شیخ الاسلام نمبر ‘‘ امام الرسول ‘‘ اسے قرار دے رہا ہے جو کسی مسئلے اور کسی معاملے میں بھی حقیقت پسندی اور ذمہ داری سے کام نہیں لیتا ۔
ملاحظہ ہو فاضل دیوبند مولانا عامر عثمانی کا ارشاد :-
مجھے بڑے رنج و افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حضرت مولانا مدنی نے کسی مسئلے اور کسی معاملے میں بھی حق پسندی اور ذمہ داری سے کام نہیں لیا ہے ۔
)تجلّی دیوبند فروری مارچ 57ء ص 67(

لطیفہ نمبر 35 !
غیر اللہ کو اپنا وکیل و شفارشی سمجھنا کفر و شرک ہے ۔
مولانا اسماعیل دہلوی کا فتوٰی !
ان کو اپنا وکیل اور سفارشی سمجھنا بھی ان کا کفر و شرک تھا ، سوچو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو کہ اس کو اللہ کا بندہ و مخلوق ہی سمجھے سو ابو جہل اور وہ شرک میں برابر ہے
تقویۃ الایمان ص 8 (

خیال فرمائیں!
مولانا دہلوی وکالت اور سفارش کرانے کو شرک اور اس کے قائل کو ابوجہل کے برابر تصوّر فرماتے ہیں تاکہ تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وکیل اور شفیع (سفارش کرنے والا) نہ سمجھا جاسکے مگرجب اسی مکتبہ فکر کے سائے میں پرورش پانے والوں کے دل ودماغ پر حُبّ شیخ کا نشہ چھانے لگتا ہے تو اس وقت اپنے شیخ کے بارے میں ہر اس بات کو کہہ ڈالتے ہیں جسے کبھی عظمت رسول گھٹانے کے لئے کفر و شرک لکھ چکے ہیں ۔ مثلاً انبیاء اولیاء کو وکیل وسفارشی سمجھنا کفرو شرک ہے ۔مگر مولانا مدنی کو سفارشی سمجھنا عین اسلام ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں
 نذر عقیدت صفحہ 11
تیرے (مولانا مدنی کے) قدموں سے لپٹ کر اپنی کامیابی کی سفارش کرانا چاہوں گا ،تیرے پیچھے پیچھے شافع محشرقاسم جام وکوثر تک پہونچنے کی تمنا کروں گا۔
چند سطر بعد !
تیری ادنٰی سی توجہ بھی ان شاء اللہ تعالٰی میری نجات کے لئے کافی ہو کر رہے گی۔
نذر عقیدت ص 15 پر
خدا تک میں رسائی چاہتا ہوں ، وسیلہ ہے مرا وہ شیخ اعظم

نذر عقیدت ص18 پر
شفیع الورٰی تک پہنچ جاؤں گا میں ، پکڑ لوں گا جب حشرمیں تیرا داماں

ابھی بس نہیں بلکہ یہاں تک کہہ بیٹھے کہ اگر وسیلہ نہ بنایا گیا تو یاد خدا ناممکن ہے ملاحظہ فرمائیے 
۔ نذر عقیدت ص27 

ہے یاد حق کا یہ باب اول کہ یاد محبوب حق ہو دل میں
وسیلہ اپنا نہ ہو جو کوئی تو خاک یاد خدا کریں گے!

ہوٹلوں اور قہوہ خانوں سے لیکر دارالعلوم دیوبند تک چلے جائیے ہر جگہ بحث و مباحثہ کا عنوان یہ ہی نظر آئے گا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا شرک ہے شرک ہے شرک ہے ۔ اسلئیے کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے دور ہیں بہت دور ہیں ۔
لیکن جب اسی اثناء حضرت شیخ یاد آتے ہیں اور اکتساب فیض کا جذبہ سینے میں چٹکیاں لینے لگتا ہے اور دل ودماغ پر اخذ فیوض کا خمار چڑھنے لگتا ہے تو قرب وبعد کی بحثیں ختم ہوجاتی ہیں ، قرب و بعد کی بندشیں توڑ دی جاتی ہیں۔دوری اور نزدیکی کی شرطیں اٹھالی جاتی ہیں اور جس بات کو وہ نبی کریم کے لئے شرک فرماتے رہے حضرت شیخ کے لئے وہ عین اسلام ہو جاتی ہے ۔
ملاحظہ ہو
نذر عقیدت ص47
کریں گے اخذ فیوض اس سے وہ پاس ہو یا نہ ہو ہمارے
ہم اس کا نقشہ جما کے دل میں اب اس سے الفت کیا کریں گے ۔
ایوان دیوبند میں یہ الفاظ آج تک گونج رہے ہیں کہ جس کا نام محمدیاعلی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں۔
(تقویۃ الایمان)
اس عبارت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ کوئی چاہے آفتاب ہدایت ہو یا نجم ہدایت ۔
وہ کسی چیز کا مالک و مختار نہیں ،وہ کسی کی فریادرسی ،مشکل کشائی نہیں کرسکتا ۔مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ حضرت شیخ کی بارگاہ میں پہونچتے ہی یہ شرکایمان ہو جاتا ہے۔
ملاحظہ ہو !
نذرعقیدت ص19
علی سے ملی تجھ کو مشکل کشائی، نہ کیوں مشکلیں پھر ہماری ہو آساں
غور فرمائیے کہ
جب حضرت شیخ کو مشکل کشا کہنے کو جی چاہا تو سیدنا علی المرتضٰے رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مشکل کشائی کا اقرار کیا۔
ناظرین!
اس موقعہ پر میں چاہوں گا کہ اس لطیفے کے ضمن میں آپ علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کو اچھی طرح جان لیں۔
دیکھئے ! ان حضرات نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑی آسانی سے فرمادیا کہ : 
‘‘ انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجئے ‘‘۔
(تقویۃ الایمان ص68)

جیسا ‘‘ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار ،سو ان معنوں میں ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے‘‘ ۔
(تقویۃ الایمان 72)

‘‘ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ‘‘۔
(تقویۃ الایمان ص16)

‘‘جو بشر کی سی تعریف ہو سو ہی کرو ، اس میں بھی اختصار کرو‘‘۔
(تقویۃ الایمان ص71)

اور سنئیے !!!

لیکن باوجود محاسن عقلیہ کے محاسن شرعیہ سے آپ (آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) بالکل بے خبر تھے ، محاسن شرعیہ کے اصل اصول یعنی ایمان باللہ کی حقیقت بھی آپ نہ جانتے تھے۔ 

مزید فرماتے ہیں ۔

اخلاقی محاسن کے تین جز، تہذیب اخلاق، تدبیر منزل، سیاست مدن ان تینوں سے آپ قطعاً و اصلاً بے خبر تھے ،جب آپ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ کتاب الہٰی کیا چیز ہے اور ایمان کیا چیز ہے تو اور محاسن سے آپ کو کیونکر آگاہی ہو سکتی ہے ۔
(مختصر سیرۃ نبویہ مؤلفہ مولانا عبد الشکور لکھنوی ص 22)

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تمھارے طرح ایک معمولی انسان ہوں
( النجم جون 37ء صفحہ 5کالم 3 مدیر مولانا عبد الشکور صاحب )

اور سنئیے :
انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں ،باقی رہا عمل ،اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہوتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔
(تحذیر النّاس مصنفہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ص5)

سنتے جائیے :-
الحاصل غور کرنا چاہئیے کہ شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ، فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے ۔
( براہین قاطعہ مصنفّہ خلیل احمد انبیٹھی ص 51)

مزید فرماتے ہیں ۔
ملک الموت سے افضل ہونے کی وجہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ علم آپ کا ( یعنی آنخضرت کا) ان امور میں ملک الموت کے برابر بھی ہو چہ جائیکہ زیادہ۔
( براہین قاطعہ 52)

یہیں تک بس نہیں بلکہ ہر وہ بات کہہ دی گئی جس سے شان رسالت میں کچھ نہ کچھ کمی پیدا ہوسکے ۔
بہر حال اس مقام پر میرا اصرار یہ نہیں ہےکہ آپ علمائے دیوبند کی ان مذکورہ عبارتوں کو سرے سے ہی غلط اور باطل قرار دے کر یہ تصور کریں کہ میں خوش ہوجاؤنگا تو سراسر یہ آپ کی خوش فہمی ہوگی ۔

میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ تکلیف فرماکر بالترتیب مذکورہ آٹھ دس حوالوں کو پھر پڑھ لیں تاکہ آپ کے سامنے علمائے دیوبند کا نقطہ نظر بے نقاب ہوجائے کہ رسول اللہ ان کے نزدیک گاؤں کے چودھری ،بڑے بھائی ، خدا کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ہیں ،اور اخلاقی محاسن سے ناآشنا ،کتاب الہٰی اور ایمان سے ناواقف اور نہ جانے کیا کیا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر حضرت شیخ ،رسول اللہ کی طرح گاؤں کے چودھری اور معمولی انسان نہ تھے بلکہ وہ تو انسان ہی نہیں تھے ۔ ملاحظہ ہو عبارت ۔

(نذر عقیدت ص5)
یہ ( ٰیعنی مولانا مدنی ) انسان ہے یا کوئی فرشتہ ؟؟ نہیں نہیں میرا ضدّی قلب اس کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوا کہ وہ انوار قدسیہ کا سرچشمہ فرشتہ ہو سکتا ہے ۔

غور فرماتے جائیے ،شیخ صاحب کو نہ تو بڑا بھائی کہہ رہے اور نہ ہی اللہ کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل اور نہ ہی معمولی انسان ،یہ پیارے القاب تو رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کےلئے مخصوص ہیں ۔ حضرت شیخ کے لئے تو ایسا سوچنا بھی گناہ ہے ۔ مزید ملاحظہ فرمائیں ۔

تو پھر آخر وہ (مولانا مدنی) کیا ہے ؟ کیا وہ انسان ہی ہے ؟ ؟ اگر ہے تو ہوگا لیکن ہاں ہاں وہ انسانوں جیسا انسان تو نہیں ہے (اور یقیناً نہیں ہے )جنھیں عام طور پر آنکھیں دیکھتیں ،کان اس کی بات سنتے اور دل انکی صحبتوں سے تاثرات کے حصے حاصل کرتے رہتے ہیں ۔
چند سطر کے بعد
زیادتی تفکر نے تحیر کو فراوانی بخشی اور بالآخر کسی فیصلے کی حد تک پہونچے ہوئے قلب مضطر ، عقیدت و محبت کی زنجیروں میں جکڑ گیا۔

میں خدا کا واسطہ دیکر دعوت فکر و نظر دےرہا ہوں کہ خدارا انصاف و دیانت کا گلا نہ گھوٹئے ، اور مجھے بتائیے کہ ان عبارات کا کیا مفہوم ہے ، صرف یہی نا ! کہ مولانامدنی انسان ہیں یا فرشتہ ؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ،مولانا مدنی کایہی معتقد جو اپنے شیخ کو معمولی انسان اور بڑا بھائی تو بڑی بات ‘‘ انسان ‘‘ کہنا گوارا نہیں کرتا ،جب بارگاہ مصطفویہ میں حاضر ہوتا ہے تو بلاتکلف بڑا بھائی ،معمولی انسان ،ہماری طرح بشر ،خدا کی شان کےآگے چمار سے زیادہ ذلیل ،مر کر مٹی میں ملنے والے ، محاسن شرعیہ سے جاہل ،گاؤں کے چودھری اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگتا ہے ۔
کبھی آپ نے ٹھنڈے دل سے سوچا یہ تضاد فکر کیوں ہے ،ذکر رسول اللہ کا تیور کچھ اور اور ذکر شیخ کا تیور کچھ ،کیا ہم ایسی ذہنیت رکھنے والوں کو اگر شاتم رسول کہیں تو غلط ہے ؟ ابھی آپ نے کیا جانا ،میرے ساتھ ذرا دو قدم اور چلئے تو آپ کو حُب شیخ میں ڈوبی ہوئی عبارات علمائے دیوبند میں الوہیت کے جلوے نظر آئیں گے ، ملاحظہ فرمائیں :-
مولانا حسین احمد صاحب
( از مولانا عبد الرزاق صاحب ملیح آبادی)

تم نے کبھی خدا کو بھی اپنی گلی کوچوں میں چلتے پھرتے دیکھا ہے ؟ کبھی خدا کو بھی اس کے عرش عظمت وجلال کے نیچے فانی انسانوں سے فروتنی کرتے دیکھا ہے ، تم کبھی تصور بھی کرسکے کہ رب العالمین اپنی کبریائیوں پر پردہ ڈال کر تمھارے گھروں میں بھی آکر رہے گا ، تم سے ہمکلام ہوگا ، تمھاری خدمتیں کرے گا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہوگا ۔ تو پھر کیا میں دیوانہ ہوں مجذوب ہوں کہ بَڑ ہانک رہا ہوں ؟ نہیں بھائیو ، یہ بات نہیں ہے ،سڑی ہوں نہ سودائی جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ ہے حق ہے حقیقت و مجاز کا فرق ہے ، محبت کا معاملہ ہے ، اور محبت میں اشاروں ،کنایوں سے ہی کام لینا پڑتا ہے ، محبت ،بے پردہ سچائی کو گوارا نہیں کرتی ،کچھ بند بند ،ڈھکی ڈھکی ، چھپی چھپی باتیں ہی محبت کو راس آتی ہے ۔

غور فرمائیے اور جواب دیجئیے کہ آخر مولانا عبد الرزاق کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ ایک طرف تو وہ فرماتے ہیں ، تم نے کبھی خدا کو اپنے گلی کوچوں میں چلتے پھرتے دیکھا ،کبھی خدا کو اس کے عرش عظمت وجلال کے نیچے فانی انسانوں سے فروتنی کرتے دیکھا ہے ۔ تم کبھی تصور بھی کرسکے کہ رب العالمین اپنی کبریائیوں پر پردہ ڈال کے تمھارے گھروں میں بھی آکر رہے گا، تم سے ہمکلام ہوگا ،تمھاری خدمتیں کرےگا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدارا بتائیے ان جملوں کا کیا مطلب ہے ؟ وہ حسین احمد جو بقول مولانا اسمٰعیل دہلوی ‘‘ ہماری طرح معمولی انسان ، خدا کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ، ہمارا بڑا بھائی ، اخلاق محاسن سے بے خبر گاؤں کا چودھری ،علم میں شیطان سے کم ،مر کر مٹی میں ملنے والا ہو ، آخر اس کے بارے میں اس طرح کے جملے لکھنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے مولانا مدنی کی ذرّہ برابر بھی توہین نہیں کی جو انھیں معمولی انسان ،بڑا بھائی ، اخلاق محاسن سے بے خبر ،مر کر مٹی میں ملنے والا اور خدا کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلئے کہ انھیں باتوں کو علمائے دیوبند نے سرکار دو جہاں صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی تحریر فرمایا ہے ۔ تو پھر میری ان باتوں سے مولانا مدنی کی توہین و تذلیل کیونکر ہوسکتی ہے اور اگر واقعی ان جملوں سے مولانا موصوف کی توہین ہوتی ہے تو ماننا پڑےگا کہ اس سے رسول اعظم کی بھی توہین ہوتی ہے ، تو پھر جن علمائے دیوبند نے رسول کے بارے میں ایسی باتیں لکھ دی ہیں ،تو پھر توبہ کرکے ان عبارتوں کو کتابوں سے خارج کیوں نہیں کیا جاتا ۔

ہاں تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ خدا کو گلی کوچوں میں پھرانے اور بندوں سے فروتنی کرتے ہوئے دکھانے سے مولانا عبد الرزاق صاحب کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟

یہی نا کہ مولانا مدنی خدا تھے یا خدا مولانا مدنی کے روپ میں گلی کوچوں میں چلتا پھرتا تھا ، وغیرہ وغیرہ ۔

دوسری طرف مولانا عبد الرزاق صاحب کا یہ بھی ارشاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہر گز نہیں ، ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہوگا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سمجھا چلئیے آئی بلا ٹل گئی ۔ اب کوئی مولانا مدنی کو خدا یا خدا کو مولانا مدنی نہیں کہے گا کیونکہ
 ‘‘ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہوگا‘‘
مگر اس جملے کو لکھنے کے فوراً بعد ہی مولانا عبد الرزاق صاحب خود اپنے تحریر کردہ اس جملے کی تردید یوں کرنے لگتے ہیں ۔
تو پھر کیا میں دیوانہ ہوں ، مجذوب ہوں کہ بڑا ہانک رہا ہوں ، نہیں بھائیو ،یہ بات نہیں ہے ،سڑی ہوں نہ سودائی جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ ہے حق ہے ، حقیقت و مجاز کا فرق ہے ، محبت کا معاملہ ہے تا آخر 
( ملاحظہ فرمالیں حوالہ )
یعنی خدا کا مولانا مدنی کے لباس میں گلی کوچوں میں پھرنا ،فانی انسانوں سے فروتنی کرنا ، کبرائیوں پر پردہ ڈال کے لوگوں کےگھروں میں رہنا ،ہمکلام ہونا ، خدمتیں صحیح ودرست ہے ۔ اسلئے کہ میں کوئی دیوانہ مجذوب تو ہوں نہیں کہ بَڑ ہانک رہا ہوں ، نہ سڑی ہوں نہ سودائی ،جو کچھ لکھ رہا ہوں ،سچ ہے حق ہے ،
ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ ، مولانا مدنی کے روپ میں بہر حال گلی کوچوں میں مارا مارا پھرتا تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اللہ تعالٰی اور مولانا مدنی میں کیا فرق ہوا ؟ اس کا جواب مولانا عبد الرزاق صاحب یہ دیتے ہیں ۔

حقیقت و مجاز کا فرق ہے ، محبت کا معاملہ ہے ، اور محبت میں اشاروں ،کنایوں سے ہی کام لینا پڑتا ہے ، محبت ،بے پردہ سچائی کو گوارا نہیں کرتی ،کچھ بند بند ،ڈھکی ڈھکی ، چھپی چھپی باتیں ہی محبت کو راس آتی ہے ۔

گویا صرف حقیقت و مجاز کا فرق ہے ،یعنی خدا حقیقی خدا ہے اور مولانا مدنی مجازی خدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے قدرتی طور پر نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ حقیقتاً خدا تو اللہ ہے مگر مجازاً خدا ، مولانا مدنی بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مولانا مدنی مجازاً خدا ہیں ؟ تو مولانا عبد الرزاق صاحب جواب دینے کے بجائے یوں ٹالتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کا معاملہ ہے ، محبت بے پردہ سچائی کو گوارہ نہیں کرتی ،کچھ بند بند ، ڈھکی ڈھکی ،چھپی چھپی باتیں ہی محبت کو راس آتی ہیں ۔

ناظرین ! یہ ہے محبت شیخ کا خمار ، بند بند ، ڈھکی ڈھکی ،چھپی چھپی باتوں کا سہارا لیکر مولانا مدنی کو خدا کہہ دیا گیا ہے ، مگر علمائے دیوبند میں سے کسی عالم نے ان عبارتوں پر کفر و شرک کا فتوٰی عائد نہیں کیا جب کہ ان کو لکھے ہوئے دس سال ہو گئے ہیں ، یہ ساری عبارتیں شیخ الاسلام نمبر کی ہیں جو 1958ء میں شائع ہوئیں ، آج 1968ء ہے ،دسواں سال رواں ہے ،مگر کسی نے اُف نہیں کیا ، کفر و شرک کا فتوٰی دینا تو بڑی بات ہے آخر کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگر آپ غور فرمائیں تو صرف اسی ایک مثال سے علمائے دیوبند کے طرز عمل اور ان کے نقطئہ نظر کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔
غور فرمائیے جب رسول کا تذکرہ آتا ہے تو کہنے لگتے ہیں :-
وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہیں ۔
(*تقویۃ الایمان ص16)*

اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجئے ۔
( تقویۃ الایمان ص68)

جو بشر کی سی تعریف ہو سو ہی کرو ، اس میں بھی اختصار کرو ۔
(تقویۃ الایمان ص72)

اور جب حضرت شیخ کی باری آتی ہے تو فرمانے لگتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ وہ انسان یا فرشتہ فیصلہ مشکل ہے ، سراپا نور ، امام الرسول بلکہ خدا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ آپ نے بالتفصیل ملاحظہ فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرات علمائے دیوبند کے نقطئہ نظر کا یہ فرق عظیم کس بات کی جاسوسی کرتا ہے ، ان کے قلم میں رسول کے لئے شدّت اور اپنے شیخ کیلئے اس قدر نرمی اور لچک کیوں ہے ؟ رسول کی ذات سے جس بات کے تعلق پر کفروشرک کے گولےدارالعلوم دیوبند سے برسنے لگتے ہیں ، وہ گولے بارگاہ شیخ میں پہونچ کر سرد کیوں پڑجاتے ہیں ،بلکہ وہ کفر وشرک ایمان کیسے ہو جاتا ہے ؟
علمائے دیوبند کی یہ دو رخی پالیسی یعنی رسول کی تضحیک و تذلیل اور اپنے شیخ کی تفضیل وتکریم کس بات پر غماز ہے ۔ میں اس کا فیصلہ انصاف پسند اور حق پرست ناظرین پر چھوڑتا ہوں ۔
جا ر ی  ہے۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.