Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-5]



متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ
 
لطائف دیو بند 

تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔

لطیفہ نمبر 21 :- 
جب علمائے دیوبند سے فخر عالم کا معاملہ ہوا تو اُن کو اُردو آگئ ۔ 
معاملہ سے پہلے گویا فخر عالم نا آشنائے اردو تھے ۔ ثابت ہوا کہ علمائے دیوبند فخر عالم کے اساتذہ ہیں ( معاذ اللہ (

ایک صالح ، فخر عالم علیہ السّلام کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے تو آپ کو اردو میں کلام کرتے دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو یہ کلام کہاں سے آگئی آپ تو عربی ہیں ؟ 
فرمایا کہ جب علمائے مدرسہ دیوبند سے ہمارا معاملہ ہوا ہم کو یہ زبان آگئی ۔ سبحان اللہ اس سے رُتبہ مدرسہ کا معلوم ہوا ۔
براہین قاطعہ مصنفہ مولانا خلیل احمد انبیٹھی ص 30 (

لطیفہ نمبر 22:-
تین سال تک حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کا چہرہ میرے قلب میں رہا ۔ میں نے ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا ۔ جب تک قلب میں وہ حاضر و ناضر تھے ۔ علمائے دیوبند کے نقطہء نظر سے مولانا گنگوہی کا شرک آمیز بیان !

خاں صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت گنگوہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جوش میں تھے اور تصور شیخ کا مسئلہ در پیش تھا ۔ فرمایا ، کہہ دوں عرض کیا گیا کہ فرمائیے ۔ پھر فرمایا کہہ دوں عرض کیا گیا کہ فرمائیے پھر فرمایا کہہ دوں ۔ عرض کیا گیا فرمائیے ۔ تو فرمایا کہ تین سال کامل حضرت امداد کا چہرہ میرے قلب میں رہا ہے اور میں نے ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا ۔
ارواح ثلٰثہ حکایات 290 ، 307 (

غور فرمائیے 
تین سال کامل مولانا گنگوہی اپنے پیر و مرشد حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کے چہرہ کو قلب میں بسائے ہوئے تھے ، حاضر و ناظر جان کر ان سے سوالات بھی کرتے رہے 
جبھی تو مولانا گنگوہی کا یہ کہنا درست ہوگا کہ ‘‘ میں نے ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا ‘‘ ۔
 با وجود ان حقائق کے دیوبند کا کوئی ایسا جیالا فرزند نہیں ہے جو مولانا گنگوہی پر انگشت اعتراض اٹھائے اور گریبان تھام کر پوچھے کہ توحید کا درس دینے والا شرک سے رسم و رواہ کیوں پیدا کر رہا ہے - ؟؟؟؟

لطیفہ نمبر 23:-
تقویۃ الایمان کو شورش پھیلانے کے لئے میں تصنیف کیا ۔ اسی لئے تیز اور تشدد آمیز الفاظ لائے گئے ۔ اور میں نے دیانت علمی کے خلاف شرک خفی کو شرک جلی لکھا ۔ میں جانتا تھا کہ اس سے شورش ضرور پھیلے گی ۔ 
مولانا اسمٰعیل دہلوی کا اعتراف !

میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں ۔ اور بعض جگہ تشدد بھی ہو گیا ہے مثلاً ان امور کو جو شرک خفی ہیں شرک جلی لکھ دیا گیا ہے ۔ ان وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ شورش ضرور پھیلے گی ۔
)باغی ہندوستان صفحہ 115 (

وہ کتاب جو شورش پھیلانے کیلئے لکھی گئی جس میں شرک خفی کو شرک جلی لکھ کر دیانت علمی کو مجروح کیا گیا ہو ۔ بالقصد تیز الفاظ بھرے گئے ہوں اور تشدد بے جا کا وہ خاصا نمونہ ہو ۔ ایسی کتاب کے بارے میں بعض دینی بصیرت سے محروم حضرات صرف اس لئے حسن ظن رکھتے ہیں کہ ان کے ‘‘مولانا صاحب ‘‘کی تصنیف ہے ۔ یہ میں نے کیا کہہ دیا ‘‘حسن ظن‘‘ ہی نہیں بلکہ ایسی غیر علمی کتاب کو عین اسلام قرار دیتے ہیں ۔
ملاحظہ ہو :-
کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے اور ردّ شرک و بدعت میں لاجواب ہے ۔ استدلال اس کے بالکل کتاب اللہ اور احادیث سے ہیں ۔ اس کا رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرنا عین اسلام ہے ۔ 
)فتاوٰی رشیدیہ کامل کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ص 41 (

مولانا دہلوی تو یہ فرماتے ہیں کہ میں نے شرک خفی کو شرک جلی لکھا ۔ یعنی خلاف واقعہ باتیں تحریر کیں ۔ تیز اور تشدد آمیز الفاظ بھرے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس غیر علمی اور خلاف دیانت و صداقت طرز عمل کو عین اسلام اور مطابق کتاب و سنت مولانا گنگوہی قرار دے رہے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ مولانا گنگوہی کے نزدیک ہر وہ بات عین اسلام اور مطابق کتاب و سنّت ہے جو خلاف واقعہ ہو ۔ 
مثلاً جو شرک خفی ہے وہ شرک جلی کبھی نہیں ہو سکتا ۔ اور جو ‘‘ خفی ‘‘ کو ‘‘ جلی ‘‘ کہے وہ یقیناً حقائق علمیہ سے محروم ہے ۔
 اب اگر خفی کو جلی تحریر کرنا عین اسلام ہو سکتا ہے تو مباح کو مکروہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکروہ کو حرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حرام کو کفر اور کفر کو شرک بھی لکھنا غالباً مولانا گنگوہی کے نزدیک عین اسلام اور مطابق کتاب و سنّت ہو گا ۔

*لطیفہ نمبر 24 !
مولانا نانوتوی انسان نہ تھے بلکہ انسانیت سے بالا تر تھے ارواح ثلٰثہ کا چیلنج !
مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ پچیس (25) برس حضرت مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلاوضو نہیں گیا ۔ میں نےانسانیت سے بالا درجہ اُن کا دیکھا * ۔
ارواح ثلاثہ ص 240 (

تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو ، مولانا نبی کریم کے بارے میں فرماتے ہیں :-
جو بشر کی سی تعریف ہو سو ہی کرو ۔ اس میں بھی اختصار کرو ۔
تقویۃ الایمان ص72 (
بہر حال زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ جب علمائے دیوبند اپنے مولویوں کی تعریف کی طرف متوّجہ ہوتے ہیں تو اس مقام سے شروع کرتے ہیں :-
میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا 
)
ارواح ثلاثہ (
اور جب سید الانبیاء کا تذکرہ مقصود ہوتا ہے تو زبان و قلم سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں !
جو بشر کی سی تعریف ہو سو وہی کرو ، اس میں بھی اختصار کرو ۔
( تقویۃ الایمان ص72 (

ایسا کیوں ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نقطئہ نظر میں اتنا اختلاف کیوں ۔ فیصلہ بذمئہ ناظرین ہے !

لطیفہ نمبر 25 !
رسول اللہ تو عام بشر کی طرح تھے ۔ بلکہ مولانا عبد الشکور کی بولی میں وہ ایک معمولی انسان تھے !
) النجم جون 37ء ص5 کالم 3 (
مگر الشیخ الہند اور شیخ الاسلام ‘‘ نور اور اس کی ضیاء و چمک‘‘ تھے ۔ 
شیخ الہند نمبر کا دعوٰے :
شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک نور تھے تو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اس نور کی ضیاء اور چمک تھے ۔ 
)شیخ الاسلام نمبر 14 (

جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.