Wednesday, January 30, 2013

Monday, January 28, 2013

Haqiqat e Najdiyat Aur Najdi Aqaid

حقیقت نجدیت
غیر مقلّدین وہابی گروپ جس کو آج کل اہل حدیث کہا جاتا ہے اسی نام سے وہ کام کررہے ہیں غیر مقلّدین اس لئے کہا جاتا ہے کہ اہل حدیث وہابی ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام احمد ،امام مالک علیہم الرضوان کی تقلید یعنی پیرو ی کو حرام کہتے ہیں۔
وہابی گروپ اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ محمد بن عبدالوہاب نجدی کو اپنا پیشوا اور بانی کہتے ہیں اپنے وقت کا مردود جس کی کفریہ عبارات آگے بیان کی جائےں گی اس کا نام ابنِ تیمیہ ہے غیر مقلّدین اس کو اپنا امام مانتے ہیں ۔
اہلحدیث غیر مقلّدین وہابی گروپ کاتاریخی پس منظر اور ان کے پوشیدہ راز انہی کی مستند کتابوں کے ثبوت سے بیان کی جائیں گے۔
غیر مقلّدین تاریخ کے آئینے میں ::
کسی بھی شخصیت یا تحریک کی کردار کشی مورخانہ دیانت کے خلاف ہے ۔ہر انسان اللہ کا بندہ ،حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں ہے ،ان تین رشتوں کا خیال رکھنا چاہیئے اس لئے راقم کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جس زمانے کی اللہ نے قسم یاد فرمائی اس کی تاریخ دیانت دار انہ ،غیر جانبدار انہ ،عادلانہ اور مومنانہ انداز میں قلم بندکی جانی چاہئے تاکہ پڑھنے والا تاریخ کے صحیح پس منظر کی روشنی میں صحیح فیصلہ کرسکے اورکھرا کھوٹا الگ کرسکے ........
اس وقت ہم اہل حدیث (غیر مقلدین )کے بارے میں تاریخ کی روشنی میں کچھ عرض کریں گے ........
قرون اولیٰ میں ”اہل حدیث “یا ”صاحب الحدیث “ان تابعین کو کہتے تھے جن کو احادیث زبانی یاد ہوتیں اور احادیث سے مسائل نکالنے کی قدرت رکھتے تھے ....پوری اسلامی تاریخ میں اہل حدیث کے نام سے کسی فرقہ کا وجو د نہیں ملتا ....اگر مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث لقب اختیار کرنے کی گنجائش ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ”علیکم بسنّتی “نہ فرما تے بلکہ ”علیکم بحدیثی فرماتے ........
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک سے اہل سنت ،لقب اختیار کرنے کی تو تائید ہوتی ہے ”اہل حدیث “ کی تائید نہیںہوتی ....جیسا کہ عرض کیا گیا ہے پہلے علم حدیث کے ماہرین کو اہل حدیث کہتے تھے مگر ہر کس و ناکس کو کہنے لگے ،صاحب طر زاد یبوں ،مصنفوں کو اہل قلم کہتے ہیں ....کیسی عجیب اور نامعقول بات ہوگی اگر ہر جاہل و غبی خود کو اہل قلم کہلوانے لگے ؟
پاک ہند میں لفظ ”اہل حدیث “کی ایک سیاسی تاریخ ہے ۔جو نہایت ہی تعجب خیز اورحیران کن ہے ۔برصغیر میں اس فرقے کو پہلے وہابی کہتے تھے جو اصل میں غیر مقلد ہیں چونکہ انہوں نے انقلاب 1857ءسے پہلے انگریزوں کا ساتھ دیا اور برصغیر میں برطانوی اقتدار قائم کرنے اور تسلط جمانے میں انگریزوں کی مدد کی ....انگریزوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد تو اہل سنت پر ظلم و ستم ڈھائے لیکن ان حضرات کو امن و امان کی ضمانت دی ....
سرسید احمد خان ( ۔1315ھ/1868)کے بیان سے جس کی تائید ہوتی ہے :....
انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں اس فرقے کے لئے جو وہابی کہلایا ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہا بیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار ہے بلکہ ناممکن ہے سلطان کی عملداری میں وہابیوں کا رہنا مشکل ہے اور مکہ معظمہ میں تو اگر کوئی جھوٹ موٹ بھی وہاں کہہ دے تو اسی وقت جیل خانے یا حوالات میں بھیجا جاتا ہے ....پس وہابی جس آزادی مذہب سے انگلش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں رہتے ہیں دوسری جگہ ان کو میسر نہیں ۔ہندوستان ان کے لئے دارالا من ہے ....202 یہ اس شخص کے تاثرات ہیں جو ہندوستانی سیاست بلکہ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتا تھا ....ہندوستان میں ان حضرات کو امن ملتا اور سلطنت عثمانیہ میں نہیں (جو مسلمانوں کی عظیم سلطنت تھی ایشیاء،یورپ ،افریقہ تک پھیلی ہوئی )امن اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ ان حضرات کا تعلق انگریزوں سے رہا تھا ....آل سعود کی تاریخ پر جن کی گہری نظر ہے ان کو معلوم ہے کہ انہیں حضرات نے سلطنت اسلامیہ کے سقوط اور آل سعود کے اقتدار میں اہم کردار ادا کیا ....یہ کوئی الزام نہیں تاریخی حقیقت ہے جو ہمارے معصوم جوانوں کا شکار رہی ہے ....
خود اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی (جنہوں نے انگریز ی اقتدار کے بعد برصغیر کے غیر مقلدوں کی وکالت کی )کی اس تحریر سے سرسید احمد خان کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے ،وہ کہتاہے :....
اس گروہ اہل حدیث کے خیر خواہ وفاداری رعایا برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی اور روشن دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش
گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے کو اسلامی سلطنتوں کے ماتحت رہنے سے بہتر سمجھتے ہیں ....203
آخر کیا بات ہے کہ اسلام کے دعویدار ایک فرقے کو خود مسلمانوں کی سلطنت میں وہ امن نہیں مل رہا ہے جو اسلام کے دشمنوں کی سلطنت میں مل رہا ہے ۔ہر ذی عقل اس کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اسکے لئے تفصیل کی ضرورت نہیں ........
ملکہ وکٹوریہ کے جشن جوبلی پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو سپاس نامہ پیش کیا اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے ....آپ نے فرمایا :........
اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارک باد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہین ....204
یہی آدمی ایک اور جگہ تحریرکرتاہے :....
جو ”اہل حدیث “کہلاتے ہیں وہ ہمیشہ سے سرکار انگریز کے نمک حلال اور خیر خواہ رہے ہیں اور یہ بات باربار ثابت ہوچکی ہے اور سرکار ی خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے .... 205
یہو د ونصاری کو مسلمانوں کے جذبئہ جہاد سے ہمیشہ ڈر لگتا رہتا ہے ....1857ءکے فوراًبعد انگریزوں کے مفاد میں اس جذبے کو سرد کرنے کی ضرورت تھی چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جہاد کے خلاف 1292ھ /1876ءمیں ایک رسالہ ”الا قتصادفی مسائل الجہاد “تحریر فرما یا جس پر بقول مسعود عالم ندوی حکومت برطانیہ نے مصنف کو انعام سے نوازا ....206
آپ نے باربار لفظ ”اہل حدیث “سنا جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اس فرقے کو پہلے ”وہابی “ کہتے تھے انگریزوں کی اعانت اور عقائد میں سلف صالحین سے اختلاف کی بنا ءپر برصغیر کے لوگ جنگ آزادی 1857ءکے بعد ان سے نفرت کرنے لگے اسلئے وہابی نام بدلو ا کر ”اہل حدیثنام رکھنے کی درخواست کی گئی ....یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :....
بنا بریں اس فرقے کے لوگ اپنے حق میں اس لفظ (وہابی )کے استعمال پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور کمال ادب وانکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں وہ سرکاری طور پر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال سے ممانعت کا حکم نا فذ کرے اور ان کو ”اہل حدیث “کے نا م سے مخاطب کیا جائے ....207
حکومت برطانیہ کے نام مولوی محمد حسین بٹالوی کی انگریزی درخواست کا اردو ترجمہ جس میں حکومت برطانیہ سے”وہابیکی جگہ ”اہل حدیث “نام منظور کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔
Sir Henry O Boneys Leftinent Governer Bahadur Ne WAHABI Ko "Ahl e Hadees" Name  Dya
(Tarjuman e Wahabi P#62)
ترجمہ درخواست برائے الاٹمنٹ نا م اہل حدیث و منسوحی لفظ وھابی:
اشاعۃ السّنہ آفس لاہور
ازجانب ابو سعید محمد حسین لاہوری ،ایڈیٹر اشاعۃ السّنہ و وکیل اہل حدیث ہند بخدمت جناب سیکریٹری گورنمنٹ !
میں آپ کی خدمت میں سطورِ ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کادر خواست گار ہوں ، 1886ءمیں میں نے ایک مضمون اپنے ماہواری رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کیا تھا جسمیں اس بات کا اظہار تھا کہ لفظ وہابی ،جس کو عمو ماً باغی ونمک حرام کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے ،لہذا اس لفظ کا استعمال ، مسلمانانِ ہندوستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکار انگریز کے نمک حلال و خیر خواہ رہے ہیں ،اور یہ بات سرکار کی وفاداری و نمک حلالی )بارہا ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے ،مناسب نہیں (خط کشیدہ جملے خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔)
بناءبریں اس فرقہ کے لوگ اپنے حق میں اس لفظ کے استعمال پر سخت اعتراض کرتے ہیں ۔
اور کمال ادب و انکساری کے ساتھ ،گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ (ہماری وفاداری ،جاں نثاری اورنمک حلالی کے پیش نظر )سرکاری طورپر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال سے ممانعت کا حکم نافذ کرے ،اور ان کو اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے اس مضمون کی ایک کاپی بذریعہ عرضدا شت میں (محمد حسین بٹالوی )نے پنجاب گورنمنٹ اس مضمون کی طرف توجہ فرما دے ،اور گورنمنٹ ہند کو بھی اس پر متوجہ فرمادے اور فرقہ کے حق میں استعمال لفظ وہابی سرکاری خط و کتابت میں موقوف کیا جا وے اور اہل حدیث کے نام سے مخاطب کی جاوے ۔اس درخواست کی تائید کےلئے اور اس امر کی تصدیق کےلئے کہ یہ درخواست کل ممبران اہل حدیث پنجاب وہندوستان کی طرف سے ہے (پنجاب وہندوستان کے تمام غیر مقلد علماءیہ درخواست پیش کرنے میں برابر کے شریک ہیں )اور ایڈیٹر اشاعت السنہ ان سب کی طرف سے وکیل ہے ۔میں (محمد حسین بٹالوی )نے چند قطعات محضر نامہ گورنمنٹ پنجاب میں پیش کئے ،جن پر فرقہ اہل حدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے وستخط ثبت ہیں ۔اور ان میں اس درخواست کی بڑے زور سے تائید پائی جاتی ہے ۔
چنانچہ آنر یبل سرچار لس ایچی سن صاحب بہادر ،جو اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے ،گورنمنٹ ہند کو اس درخواست کی طرف توجہ دلاکر اس درخواست کو باجازت گورنمنٹ ہند منظور فرمایا ، اور اس استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراءنام اہل حدیث کا حکم پنجاب میں نافذ فرمایا جائے ۔
میں ہوں آپ کا نہایت ہی فرمانبردار خادم
ابو سعید محمد حسین ایڈیٹر”اشاعت السنہ
(اشاعۃ السنہ ص24تا26شمارہ 2،جلد نمبر 11)

یہ درخواست گورنر پنجاب سر چارلس ایچی سن کو دی گئی اور انہو ں نے تائیدی نوٹ کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا کو بھیجی اوروہاں سے منظور ی آگئی اور 1888ءمیں حکومت مدراس ،حکومت بنگا ل ،حکومت یوپی ،حکومت سی پی ،حکومت بمبئی وغیرہ نے مولوی محمد حسین کواسکی اطلاع دی ........
سرسید احمد خان نے بھی اسکا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :....
جناب مولوی محمد حسین نے گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ اس فرقے کو درحقیقت اہل حدیث ہے ....گورنمنٹ اس کو ”وہابی “کے نام سے مخاطب نہ کرے ....مولوی محمد حسین کی کوشش سے گورنمنٹ نے منظور کرلیا ہے کہ آئندہ گورنمنٹ کی تحریرات میں اس فرقے کو ”وہابی “کے نام سے تعبیر نہ کیا جاوے بلکہ ”اہل حدیث “کے نام سے موسوم کیا جاوے ....208

اب آپ کو تاریخ کی روشنی میں فرقہ اہلِ حدیث (جو اصل میں غیر مقلد ہے )کی حقیقت معلوم ہوگئی .... یہ فرقہ اہل سنت کا سخت مخالف ہے اور اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہے ....فلسطین کے مشہور عالم اور جامعہ ازہر مصر کے استاد علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی (م ۔1350ھ /1932ء) جو نابلس کے قاضی اورمحکمہ انصاف کے وزیر بھی رہ چکے ہیں )فرماتے ہیں :....
وہ مدعی اجتہاد ہیں مگر زمین میں درپے فساد ہیں ،اہل سنت کے مذاہب میں کسی مذہب پر بھی گامزن نہیں ہوتے ۔
شیطان ان میں سے نئی نئی جماعتیں تیار کرتارہتا ہے جو اہل اسلام کے ساتھ بر سر پیکار ہیں ....209

اس قتباس میں محکمہ انصاف کے اس وزیر اور جج نے تین باتیں فرمائی ہیں :....
غیر مقلّدین اہل حدیث وہابیوں کے پوشیدہ راز :
عقیدہ :غیر مقلّدین اہل حدیث وہابیوں کے نزدیک کا فر کا ذبح کیا ہو اجانور حلا ل ہے ۔اسکا کھانا جائز ہے ۔
 (بحوالہ :دلیل الطالب ص 413،مصنف :نواب صدیق حسن خاں اہل حدیث )
(بحوالہ :عرف الجادی ص 247مصنف :نورالحسن خاں اہل حدیث )

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک رسول اللہ ﷺکے مزار مبارک کی زیارت کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ۔
(بحوالہ :کتاب :عرف الجاری صفحہ نمبر 257)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک لفظ اللہ کے ساتھ ذکر کرنا بد عت ہے ۔
(بحوالہ :کتاب : البنیاں المر صوص ص173)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک بدن سے کتنا ہی خون نکلے اس سے وضونہیں ٹوٹتا ۔
(بحوالہ :کتاب :دستور المتقی )

عقیدہ :اہل حدیث وہابیوں کا امام ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تین سو سے زیادہ مسئلوں میں غلطی کی ہے ۔(بحوالہ :کتاب :فتاوٰی حدیثیہ ص 87)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک خطبہ میں خلفائے راشدین کا ذکر کرنا بد عت ہے ۔
(بحوالہ : کتاب :ہدیۃ المہدی ص110)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک متعہ جائز ہے ۔
(بحوالہ :کتاب :ہدیۃالمہدی ص 118)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اقوال حجت نہیں ہیں ۔
(بحوالہ :کتاب ہدیۃ المہدی ص 211)

عقیدہ :اما م الوہابیہ محمد بن عبدالوہاب نجدی اپنی کتاب اوضح البر اہین صفحہ نمبر 10پر لکھتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا مزار گرا دینے کے لائق ہے اگر میں اسکے گرادینے پر قادر ہوگیا تو گرا دونگا ۔(معاذ اللہ )

عقیدہ :بانی وہابی مذہب محمد بن عبدالوہاب نجدی کا یہ عقیدہ تھا کہ جملہ اہلِ عالم و تما م مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل قضال کرنا ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے ۔
(ماخوذ حسین احمد مدنی ،الشہاب الثاقب ص 43)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک فجر کی نماز کے واسطے علاوہ تکبیر کے دو اذانیں دینی چاہئے ۔
(بحوالہ :اسرار اللنعت پارہ دہم ص 119)
عقیدہ :اہل حدیث امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام مالک ،امام احمد رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھلے عام گالیاں دیتے ہیں۔

عقیدہ :اہل حدیث اپنے سوا تمام مسلمانوں کو گمراہ اور بے دین سمجھتے ہیں۔

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک جمعہ کی دو اذانیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ
بد عت ہے ۔

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک چوتھے دن کی قربانی جائز ہے ۔

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک تراویح 12رکعت ہیں 20رکعت پڑھنے والے گمراہ ہیں ۔

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک فقہ بد عت ہے ۔

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک حالتِ حیض میں عورت پر طلاق نہیں پڑتی ہے ۔
(بحوالہ :روضہ ندیہ ص 211)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک تین طلاقیں تین نہیں بلکہ ایک طلاق ہے ۔
عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک ایک ہی بکری کی قربانی بہت سے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے اگرچہ سو آدمی ہی ایک مکان میں کیوں نہ ہو۔
(بحوالہ :بد ور الاہلہ ص 341)

عقیدہ :اہل حدیث مذہب میں منی پاک ہے ۔
(بحوالہ :بدور الا ہلہ ص15دیگر کتب بالا )

عقیدہ :اہل حدیث مذہب میں مرد ایک وقت میں جتنی عورتوں سے چاہے نکاح کرسکتا ہے اسکی حد نہیں کہ چار ہی ہو ۔
(بحوالہ :ظفر اللہ رضی ص141،ص142نواب صاحب )

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک زوال ہونے سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے ۔
(بحوالہ : کتاب :بدور الا ہلہ ص71)

عقیدہ :اہل حدیث کے نزدیک اگر کوئی قصداً (جان بوجھ کر )نماز چھوڑدے اور پھر اسکی قضا کرے تو قضا سے کچھ فائدہ نہیں وہ نماز اسکی مقبول نہیں اور نہ اس نماز کی قضا کرنا اس کے ذمہ واجب ہے وہ ہمیشہ گنہگار رہیگا ۔
(بحوالہ :دلیل الطالب ص250)

ان نام نہاد اہل حدیث وہابی مذہب کے عقائد و نظریات ہیں یہ قوم کو حدیث حدیث کی پٹی پڑھا کر ور گلاتے ہیں ان کے چنداہم اصول ہیں وہ اصول ملاحظہ فرمائیں ۔
وہابی اہل حدیث مذہب کے چند اہم اصول ::
اصول نمبر1 :ان کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اگلے زمانے کے بزرگوں کی کوئی بات ہرگز سنی جائے چاہے وہ ساری دنیا کے مانے ہوئے بزرگ کیوں نہ ہوں ۔
اصول نمبر2 :غیر مقلدین اہل حدیث مذہب کا دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر لکھنے والے بڑے بڑے مفسرین اور قرآن و حدیث سے مسائل نکالنے والے بڑے بڑے مجتہد ین میں سے کسی کی کوئی تفسیر اور کسی مجتہد کی کوئی بات ہر گز نہ مانی جائے ۔
اصول نمبر3 :تیسرا اہم اصول یہ ہے کہ ہر مسئلے میں آسان صورت اختیار کی جائے (چاہے وہ دین کے منافی ہو )اور اگر اسکے خلاف کوئی حدیث پیش کرے تو اسے ضعیف کا اسٹیمپ لگا کر ماننے سے انکار کردیا جائے جو حدیثیں اپنے مطلب کی ہیں کہ ان کو اپنا لیا جائے اسلئے کہ انسان کی خاصیت ہے کہ وہ آسانی کو پسند کرتا ہے ۔تو حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی سب ہمارے (نام نہاد اہل حدیث وہابی )
مذہب کی آسانی دیکھ اپنا پرانا مذہب چھوڑ دیں گے اور غیر مقلّد ہوکر ہمارانیا مذہب قبول کرلیں گے ۔
اس کے چند نمونے یہ ہیں ۔
1)
تراویح لوگ زیادہ نہیں پڑھ سکتے تھک جاتے ہیں لہٰذا آٹھ پڑھا کر فارغ کردیا جائے ۔
2)
قربانی تین دن کی قصائی اور کام کاج کی مارا ماری کی وجہ سے چوتھے دن کی جائے یہ آسان ہے ۔
3)
طلاق دے کر آدمی بے چارہ بہ حواس پڑھتا ہے لہٰذا ایسی مشین تیار کی جائے کہ طلاقیں تین ڈالو باہر ایک نکالو تو ایک طلا ق نکلے ۔
4)
بزرگوں کے معاملات قرآن کی تفسیر یں ترقی یافتہ دور میں کون پڑھے بس اپنی من مانی کیئے جاو

¿ قرآن تمہارے سامنے ہے ۔
غیر مقلّدین اہل حدیث کا امام ابنِ تیمیہ کون تھا ؟
ابنِ تیمیہ کون تھا ؟
ابنِ تیمیہ 661ھ میں پیدا ہوا اور 728 ھ میں مرا ابنِ تیمیہ وہ شخص تھا جس کو غیر مقلد ین اہل حدیث وہابی حضرات اپنا امام تسلیم کرتے ہیں مگر وہ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے اس نے بہت سے مسائل میں علماءحق کی مخالفت کی ہے یہاں تک کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ کے سفر کو گناہ قرار دیا ہے اسکا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مرتبہ نہیں ۔ اور یہ بھی اسکا عقیدہ ہے کہ خدا ئے تعالیٰ کی ذات میں تغیّر و تبدل ہوتا ہے ۔
1)....
اس امت کے امام شیخ احمد صاوی مالکی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر صاوی جلد اول کے صفحہ نمبر 96پر تحریر فرماتے ہیں کہ ابنِ تیمیہ حنبلی کہلاتا تھا حالانکہ اس مذہب کے اماموں نے بھی اس کا رد کیا ہے یہاں تک علماءنے فرمایا کہ وہ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ۔
2)....
علامہ شہاب الدین بن حجر مکّی شافعی علیہ الرحمہ اپنی فتاوٰی حدیثیہ کے صفحہ نمبر 116پر ابنِ تیمیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابنِ تیمیہ کہتا ہے کہ جہنم فنا ہوجائے گی اور یہ بھی کہتا ہے کہ انبیاءکرام علیہم اسلام معصوم نہیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مرتبہ نہیں ہے ان کو وسیلہ نہ بنایا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے ایسے کفر میں نماز کی قصر جائز نہیں جو شخص ایسا کریگا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہیگا ۔
3)....
آٹھویں صدی ہجری کے عظیم اند لسی مورخ ابو عبداللہ بن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں ابنِ تیمیہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں ۔
گو ابنِ تیمیہ کو بہت سے فنون میں قدرت تکلم تھی لیکن دماغ میں کسی قدر فتور آگیا تھا ۔
(
رحلّہ ابنِ بطوطہ مطبع دار بیروت ص 95و مطبع خیریہ ص 68)(ترجمہ :رئیس احمد جعفری ندوی ص 126مطبوعہ ادارہ درس اسلام )
دماغ میں خرابی اورفتور کی وجہ سے جب اپنی تیمیہ نے بہت سے مسائل میں اجماعِ امّت کی مخالفت کی یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی اللہ عنہ کو بھی اعتراض کا نشانہ بنایا تو اہلسنّت و جماعت حنفی ، شافعی مالکی اور حنبلی ہر مذہب کے علماءنے ابنِ تیمیہ کا رد کیا اور اسے گمراہ گر قرار دیا ۔لیکن غیر مقلّدین نام نہاد وہابی اہل حدیث کہ جن کہ دلوں میں کھوٹ اور کجی پائی جاتی ہے انھوں نے دماغی خلل رکھنے والے ابنِ تیمیہ کی پیروی کرلی اور اسے اپنا امام پیشوا بنا لیا ۔
اہل حدیث مذہب والوں نے نیک اور قد آور شخصیات ائمہ اربعہ کو امام نہ مانا اور ان کی تقلید یعنی پیروی کو حرام لکھا تو ان کو سزا ملی کہ ابنِ تیمیہ جیسا زلیل ان لوگوں کا امام بنا اور انہوں نے اسے تسلیم بھی کیا ۔
غیر مقلّدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے ؟
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ہے حالانکہ یا د رہے اللہ تعالیٰ کا نام وہابی نہیں ہے بلکہ وہاب ہے ۔غیر مقلّدین اہل حدیث کو محمد بن عبدالوہاب نجدی کی پیر وی ہی کے سبب وہابی کہا جا تا ہے لیکن اس نا م کو پسند کرتے ہوئے مشہور غیر مقلّدین مولوی محمد حسین بٹالوی نے انگریز گورنمنٹ سے بڑی کوششو ں کے بعد نام جگہ اہل حدیث منظور کرایا ۔
سعودیہ عرب والے قا بض نجدیوں کا کیا عقیدہ ہے
سعودیہ عرب کے قابض نجدیوں کا انہی وہابی عقائد رکھنے والوں سے گہرا تعلق ہے سعودی بھی محمد بن عبدالوہاب نجدی کی پیدا وار ہیں اور اسے اپنا پیشوا مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر مقلّدین اہل حدیث پر وہ مکمل مہربان ہیں کروڑوں ،اربوں ریال ان کو امداد ملتی ہے جگہ جگہ مسجدیں ان کی کہا ں سے آئیں سارا سعودیہ کا چند ہ ہے اب غیر مقلّدین اہل حدیث بڑے فخر کیساتھ اپنا تعلق وہا بیت اور محمد بن عبدالوہاب نجدی سے جوڑتے ہیں اور ریالوں کی جھنکار سے فائد ہ اٹھا تے ہیں ۔
الد عوہ والا رشاد ،لشکرِ طیبہ ،جمعیت اہل حدیث ،تحریک اہل حدیث ،اہل حدیث یوتھ فورس ،سلفی تحریک (جتنے بھی سلفی لگاتے ہیں یہ تلفی ہیں سلفی نہیں ہیں سلفی کا مطلب سلف و صالحین کے پیروکار مراد ہے مگر یہ کسی کے پیر و کار نہیں )غرباءاہل حدیث یہ ساری تنظمیں اہل حدیث وہابی گروپ سے تعلق رکھتی ہے ۔
٭٭٭٭٭

Sunday, January 27, 2013

سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہاد کی حقیقت

سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہاد کی حقیقت
ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے نتیجے میں ہندوستانیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ان کے خلاف بے چینی اور بغاوت کا ماحول پیدا ہوتا رہا‘ جو 1857ء میں ایک منظم پیمانے پر میرٹھ کی چھائونی سے شروع ہوکر ہندوستان کے دیگر خطوں میںبھی پہنچ گیا۔ اس سلسلے میں ہندو قوموں کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں اور علمائے کرام کی کوششیں بھی مسلسل آزادی کے حصول تک جاری رہیں۔ متعصب تاریخ نگاروں نے جب ان حالات اور ماحول کا نقشہ اپنے طور پر پیش کیا تو حقائق کے ماتھے پر سیاہی پوت کر تعصب اور تنگ نظری سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے کردر کو بالکلیہ ختم کردینے کا ناپاک جرم کیا۔ اس پہلو کا دوسرا رخ یہ سامنے آیا کہ سواداعظم اہلسنت سے خارج علماء جنگ آزادی کا سارا کردار اپنے نام کرنے لگے اور علمائے اہلسنت کے مقتدر مجاہدین آزادی کو انگریز نوازوں کی فہرست میں شمار کروانے لگے یا پھر اپنی جماعت کا فرد بنا کر علمائے اہلسنت کے عظیم کارناموں کے نشانات پر مٹی ڈالنے کی ننگی جرات ہی کر بیٹھے۔ اب ان حالات میں ضروری ہے کہ اصل واقعات سے قوم کو روشناس کرایا جائے اور بازار سیاست کے دلالوں کے سامنے حقیقی صورتحال پیش کردی جائے تاکہ آج جو غدار وطن کا بدنما داغ اقتدار کے زور پر ہماری پریشانیوں پر مڑھا جارہا ہے‘ اس کا بے بنیاد ہونا معلوم ہوجائے۔
سید احمد اور شاہ اسماعیل کے تعلق سے پورا دیوبندی مکتب فکر مسلسل تحریر و تقریر کے ذریعہ یہ ذہن دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی اور جہادی سرگرمیوں میں سارا رول ان ہی کا ہے اور انہوں نے ہی مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے وعظ کے ذریعہ منظم کرنے کے بعد جنگیں کیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے‘ جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے۔ بلکہ یہ دونوں اور ان کے دیگر حامی و متبعین انگریزوں کے وظیفہ خوار اور مکمل ہم نوا تھے۔ اس سلسلے میں خود افراد خانہ کی بیشمار شہادتیں موجود ہیں‘ جن میں سے چند ایک ہدیہ قارئین ہیں۔
سیاسی مصلحت کی بناء پر سید احمد صاحب نے اعلان کیا کہ سرکار انگریز سے ہمارا مقابلہ نہیں اور نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے۔ ہم صرف سکھوں سے اپنے بھائیوں کا انتقام لیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ حکام انگلشیہ بالکل باخبر نہ ہوئے اور نہ ان کی تیاری میں مانع آئے
 (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260(
’’سید صاحب کے پاس مجاہدین جمع ہونے لگے‘ سید صاحب نے مولانا شہید کے مشورے سے شیخ غلام علی رئیس الہ آبادی کی معرفت لیفٹیننٹ گورنر ممالک مغربی شمالی کی خدمت میں اطلاع دی کہ ہم لوگ سکھوں سے جہاد کرنے کی تیاری کرتے ہیں‘ سرکار کو تو اس میں کچھ اعتراض نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے صاف لکھ دیا کہ ہماری عملداری میں امن میں خلل نہ پڑے تو نہیں‘ آپ سے کچھ سروکار نہیں‘ نہ ہم ایسی تیاری میں مانع ہیں۔ یہ تمام بین ثبوت صاف اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جہاد صرف سکھوں سے مخصوص تھا‘ سرکار انگریزوں سے مسلمانوں کو ہرگز مخاصمت نہ تھی‘‘
 (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 523(
اس تعلق سے مولانا جعفر تھانیسری کی تحریر اس طرح ہے
’’
سید صاحب کا انگریزی سرکار سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت آزاد عمل داری کو اپنی ہی عمل داری سمجھتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ سرکار انگریز اس وقت سید صاحب کے خلاف ہوتی تو ہندوستان سے سید صاحب کو کچھ بھی مدد نہ ملتی‘ مگر سرکار انگریزی اس وقت دل سے چاہتی تھی کہ سکھوں کا زور کم ہو‘‘
 (حیات سید احمد شہید‘ ص 293(
سرسید بھی اس واقعات کی طرف عنان قلم موڑتے ہوئے بالکل ملتی جلتی باتیں لکھتے ہیں‘ جن سے سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہادی کارناموں کا سراغ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔
سید احمد صاحب نے پشاور پر پھر سکھوں کا قبضہ ہونے کے بعد اپنے ان رفیقوں سے جو جہاد میں جان دینے پر آمادہ تھے‘ یہ کہا کہ تم جہاد کے لئے بیعت شروع کرلو‘ چنانچہ کئی سو آدمی نے اسی وقت بیعت کی اور یہ بات تحقیقی ہے کہ جو شخص شیر سنگھ کے مقابلے میں لڑائی سے بچ رہے تھے‘ ان میں صرف چند آدمی اپنے پیشوا سید احمد صاحب کی شہادت کے بعد مولوی عنایت علی اور ولایت علی ساکن پٹنہ ان کے سردار ہوئے‘ لیکن انہوں نے جہاد کے فرائض انجام دینے میں کچھ کوشش نہیں کی اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگریز کا تسلط ہوا تو مولوی عنایت علی اور ولایت علی مع اپنے اکثر رفیقوں کے 1847ء میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیئے گئے‘ پس اس سے ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ خاص پٹنہ یا بنگالہ کے اور ضلعوں شے بلکہ عموما ہندوستان سے روپے اور آدمی اس وہابیت کے پہلے تین زمانوں میں ضرور سرحد کو بھیجے گئے تھے۔ لیکن میری رائے میں یہ بات بہت کھلی ہوئی ہے کہ ان میں سے کوئی آدمی انگریز گورنمنٹ پر حملہ کرنے کے واسطے ہرگز نہیں گیا تھا اور نہ ان سے یہ کام لیا گیا اور نہ تین زمانوں میں سے کسی کو اس کا کچھ خیال ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نیت بغاوت کی جانب مائل ہے‘‘
 (مقالات سرسید حصہ نہم 145-146(
مزید شواہد کے لئے اور آگے کی عبارت بھی ملاحظہ کریں۔
’’
جب مولوی عنایت علی اور ولایت علی 1847ء کو ہندوستان لوٹ آئے تو اس وقت سید احمد صاحب کے چند پیروکار سرحد پر باقی رہ گئے تھے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان دو شخصوں نے پٹنہ اور اس کے قرب و جوار کے آدمیوں کو اس کی ترغیب دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کی کہ وہ جہاد میں شریک ہوں اور یہ اس کام کے واسطے روپیہ جمع کریں۔ چنانچہ وہ برابر بڑی سرگرمی سے کوشش کرتے رہے اور جس بات کا اب تک ان کو دل سے خیال تھا‘ اس کا اظہار انہوں نے 1851ء میں اس طرح صحیح ہے‘ کیا کہ وہ پھر ہندوستان سے سرحد کی جانب چلے گئے‘ مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے خیال کیا کہ یہ لوگ دوبارہ سرحد کو انگریزوںپر حملہ کی نیت سے گئے تھے اور انہوں نے بجائے سکھوں کے انگریزوں پر جہاد کیا تھا۔ حالانکہ جب ان لوگوں کو انگریزوں سے کسی طرح کی شکایت نہ تھی تو پھر ان کا ارادہ کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتا‘‘ (ایضاً ص 147)
اس پر تھوڑی اور روشنی ڈالتے ہوئے سرسید اک رواں قلم سرخ لکیر کھینچتا ہوا نظر آتا ہے جس سے سید احمد رائے بریلوی کا کردار پوری طرح لہولہان نظر آتا ہے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ وہابی اپنے مذہب میں بڑے پکے‘ نہایت سچے ہوتے ہیں اور اپنے اصول سے کسی حال میں منحرف نہیں ہوتے اور جن شخصوں کی نسبت میں یہ لکھ رہا ہوں‘ وہ اپنے بال بچوں اور مال و اسباب کو گورنمنٹ انگریزی کی حفاظت میں چھوڑ گئے تھے اور ان کے مذہب میں اپنے بال بچوں کے محافظوں پر حملہ کرنا نہایت ممنوع ہے‘ اس لحاظ سے اگر وہ انگریزوں سے لڑتے اور لڑائی میں مارے جاتے تو وہ بہشت کی خوشبوئوں اور شہادت کے درجہ سے محروم ہوجاتے‘ بلکہ اپنے مذہب میں گناہ گار خیال کئے جاتے (ایضا ص 148(
مذکورہ اقتباسات کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کے پیشوا سید احمد رائے بریلوی کو انگریز نوازوں کی پہلی فہرست اور بانیوں میں شمار کرنا تاریخی سچائی ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں کہ انہیں انگریزوں کا کھلا ہوا معاون اور ناصر گردانا جائے‘ جبکہ ان شکستہ حالات ‘ فریاد کناں ماحول میں علمائے اہلسنت اپنے وطن کی آزادی کے لئے پوری طرح انگریزی افواج کے خلاف صف آراء اور تحریر و تقریر کے ذریعہ عام ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کررہے تھے‘ جس کے نتیجے میں قیدوبند کی صعوبتوں کے ساتھ جان و مال کے اتلاف کا شکار بنتے رہے۔
انگریز نوازی کے ایسے واقعات سے خود سید احمد کے ماننے والوں ہی کی کتابیں شور محشر جیسا ماحول پیش کرتی ہیں اور بعد کے متبعین کی جھوٹی کہانی کا کھلا مذاق اڑاتی ہیں۔ سوانح احمدی‘ مخزن احمدی‘ نقش حیات‘ الدرالمنثور وغیرہ کی عبارتیں بھی سید صاحب کے جہاد کو انگریز مخالف برسر پیکار طاقتوں کے خلاف بتاتی ہیں مگر اس جماعت کے شرپسندوں نے تاریخ نگاری کی روایت پر فرنگی ظلم کرتے ہوئے تاریخ سازی کی نئی طرح ایجاد کرکے یہ بتادیا کہ جھوٹی شہیدی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اب جھوٹی تاریخ کا سبق بھی عام کریں گے۔ حالانکہ سید احمد کے عہد کے قریبی مورخین وہی باتیں لکھتے رہے جو علمائے اہلسنت بتاتے رہے ہیں۔ مگر بعد کے مورخین نے اپنی جماعت کے اکابرین کا دامن الجھتا دیکھ کر دروغ گوئی سے تاریخ کے صفحات پاٹ دیئے۔
سید احمد کے جہادی پہلو کے سلسلے میں مندرجہ ذیل اقتباس بھی کافی واضح ہے۔
’’
سرکار انگریز گو منکر اسلام ہے‘ مگر مسلمانوں پر کوئی ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرائض مذہبی اور عبادات لازمی سے روکتی ہے‘ ہم ان کے ملک میں اعلانیہ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع و مزاحم نہیں ہوتی‘ بلکہ اگر ہم پرکوئی ظلم و زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے‘ پھر ہم سرکار انگریز پر کس سبب سے جہاد کریں اور اصول مذہب کے خلاف بلاوجہ طرفین کا خوف گرادیں‘‘
(حیات سید احمد شہید‘ ص 171(
فرانس کے مشہور مستشرق گارسن وتاسی کی کتاب تاریخ ادب اردو کی تلخیص طبقات الشعرائے ہند‘ ص 295‘ مطبوعہ 1848‘ میں سید صاحب کے تعلق سے موجود ہے کہ
’’
بیس برس کا عرصہ ہوا کہ وہ سکھوں کے خلاف جہاد کرتا ہوا مارا گیا‘‘
یہی بات دوسرے لفظوں میں نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے ترجمان وہابیہ میں بھی لکھی ہے کہ
’’
حضرت شہید کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہ تھا‘‘
)ترجمان وہابیہ‘ ص 12-88(
یہی حال شاہ اسماعیل کا بھی تاریخ کے صفحات پر نظر آتا ہے۔ خود وہابی نظریات کے حامل قلم کاروں اور ان کے عہد کے قریبی تذکرہ نگاروں نے ان کی انگریزی سے قربت اور وفاداری کے لڈو ہر خاص و عام کو بانٹے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1857ء کے وقت وہابی‘ دیوبندی جماعت کا وجود ہی نہیں تھا۔ لہذا یہ کہناکہ اکابر دیوبند نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا بگل بجایا‘ شدید ترین ناانصافی اور زیادتی ہے۔ اس کے برعکس علامہ فضل حق خیرآبادی‘ مفتی صدر الدین آزردہ‘ مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی‘ مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی‘ مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی‘ مولانا وہاج الدین مراد آبادی‘ مولانا لیاقت علی الہ آبادی اور دوسرے علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور عام مسلمانان ہند کو بیدار کیا۔ مگر علمائے سو کا یہ طبقہ پوری چاپلوسی کے ساتھ انگریزی حمایت میں قولاً و عملاً سرگرم رہا‘ جس کی گواہی خود افراد خانہ نے ہی دے دی ہے۔ کلکتہ کے جلسہ عام میں جب ایک شخص نے شاہ اسماعیل سے پوچھا کہ انگریزوں کے خلاف آپ جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے تو شاہ صاحب نے فرمایا:
’’
ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں‘ ایک تو ان کی رعیت ہیں‘ دوسرے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست درازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے‘ بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں‘‘
 (حیات طیبہ‘ طبع قدیم ص 364(
مرزا حیرت دہلوی کی یہ بھی تحریر ملاحظہ ہو:
’’
مولوی اسماعیل نے اعلان کررکھا تھا کہ انگریزی سرکار پر نہ جہاد مذہبی طور پر واجب ہے نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے‘‘
 (حیات طیبہ ص  201(
اس تعلق سے سرسید نے بھی انتہائی واضح الفاظ استعمال کرکے انگریز نوازی کا سرا پول کھول دیا۔
’’
اس زمانے میں مجاہدین کے پیشوا سید احمد صاحب تھے۔ مگر وہ واعظ نہ تھے ۔واعظ مولوی محمد اسماعیل صاحب تھے‘ جن کی نصیحتوں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا ولولہ خیز اثر پیدا ہوتا تھا جیسا کہ بزرگ کی کرامت کا اثر ہوتا ہے۔ مگر اس واعظ نے اپنے زمانہ میں کبھی کوئی لفظ اپنی زبان سے ایسا نہ نکالا جس سے ان کے ہم مشربوں کی طبیعت ذرا بھی برافروختہ ہو‘ بلکہ ایک مرتبہ کلکتہ میں سکھوں پر جہاد کرنے کا وعظ فرما رہے تھے۔ اثنائے وعظ میں کسی شخص نے ان سے دریافت کیا کہ تم انگریزوں پر جہاد کرنے کا وعظ کیوں نہیں کہتے‘ وہ بھی تو کافر ہیں؟ اس کے جواب میں مولوی اسماعیل دہلوی نے کہا کہ انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کچھ اذیت نہیں ہوتی اور چونکہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں۔ اس لئے ہم پر اپنے مذہب کی رو سے یہ بات ہے کہ انگریزوں پر جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں‘‘
 (مقالات سرسید حصہ نہم ص 141,42(
یہ تمام شواہد سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کو انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں‘ مگر جماعت وہابیہ کو یہ سچائی کسی طور پر ہضم ہوتی نظر نہیں آتی اور وہ اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے علمائے اہلسنت کی پاک باز‘ محب وطن اور انگریز دشمن شخصیات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تاکہ ان کا مکروہ کردار عام لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔