Friday, January 25, 2013

علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ (1325ھ)


حرمین شریفین کے علمائے کرام نے علمائے دیوبند سے اِختلافی و اِعتقادی نوعیت کے چھبیس (26) مختلف سوالات پوچھے تو 1325ھ میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری (1269۔ 1346ھ) نے اِن سوالات کا تحریری جواب دیا، جو ’’المھند علی المفند‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اِن جوابات کی تصدیق چوبیس (24) نام وَر علمائے دیوبند نے اپنے قلم سے کی، جن میں مولانا محمود الحسن دیوبندی (م 1339ھ)، مولانا احمد حسن امروہوی (م 1330ھ)، مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن (م 1347ھ)، مولانا اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) اور مولانا عاشق اِلٰہی میرٹھی بھی شامل ہیں۔ اِن چوبیس (24) علماء نے صراحت کی ہے کہ جو کچھ ’’المھند علی المفند‘‘ میں تحریر کیا گیا ہے وہی ان کا اور ان کے مشائخ کا عقیدہ ہے۔
کتاب مذکورہ میں اِکیسواں سوال میلاد شریف منانے کے متعلق ہے۔ اس کی عبارت ہے :
أتقولون أن ذکر ولادته صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح شرعًا من البدعات السيئة المحرمة أم غير ذلک؟
’’کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح سیئہ، حرام (معاذ اﷲ) ہے یا اور کچھ؟‘‘
علمائے دیوبند نے اِس کا متفقہ جواب یوں دیا :
حاشا أن يقول أحد من المسلمين فضلاً أن نقول نحن أن ذکر ولادته الشريفة علية الصلاة والسلام، بل وذکر غبار نعاله وبول حماره صلي الله عليه وآله وسلم مستقبح من البدعات السئية المحرمة. فالأحوال التي لها أدني تعلق برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرها من أحب المندوبات وأعلي المستحبات عندنا سواء، کان ذکر ولادته الشريفة أو ذکر بوله وبزاره وقيامه وقعوده ونومه ونبهته، کما هو مصرح في رسالتنا المسماة بالبراهين القاطعة في مواضع شتي منها.
’’حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعتِ سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلی درجہ کا مستحب ہے، خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے۔‘‘
سهارن پوري، المهند علي المفند : 60، 61
اِس سارے لٹریچر کی موجودگی میں اِسلامی تاریخ سے لاعلمی اور جہالت ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اِنگلستان، امریکہ، یورپ اور عرب دنیا میں نام نہاد دانش وَر اور مقررین اپنی تقریروں کے ذریعے نئی نسل کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہیں کہ اِنعقادِ میلاد کی کوئی حیثیت نہیں، یہ ایک بدعت ہے جس کا وجود صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہے، اس کے علاوہ اور کہیں نہیں۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو اسلامی تاریخ کی تمام نام وَر علمی شخصیات جن کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں بدعتی قرار پاتی ہیں۔ اس میں ان کے متبعین کو بھی بدعتی کا لقب ملے گا۔ پھر پوری اِسلامی تاریخ میں بدعت کے فتویٰ سے کوئی نہیں بچے گا اور پورے اسلام پر بدعت کی اِس اِلزام تراشی کی زَد سے کوئی محفوظ نہیں ہوگا

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.