Wednesday, January 16, 2013

علم غیب ۔ آیات قرآنیہ کے بیان میں۔ 2


13۔ یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسٰھا فیم انت من ذکرھا۔ ( پارہ 30 سورہ 79 آیت 42، 43) “ تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لئے ٹھری ہوئی ہے تم کو اس بیان سے کیا تعلق۔“
اس آیت سے مخالفین دلیل لاتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم نہ تھا کہ کب ہو گی۔ لہذا آپ کو علم غیب کلی نہ ہوا۔ جواب صحیح یہ ہے کہ رب تعالٰٰی نے حضور علیہ السلام کو بھی عطا فرمایا۔ مفسرین نے اس آیت کی چند توجیہیں کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آیت علم قیامت عطا کرنے سے پہلے کی ہے ۔ دوم یہ کہ اس سے مقصود سائلین کو جواب دینے سے روکنا ہے نہ کہآپ کے علم کی نفی۔
تیسرے یہ کہ اس آیت میں فرمایا گیا ۔ “ انت من ذکراھا“ آپ اس قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہیں آپ کو دیکھ کر ہی جان لینا چاہیئے کہ قیامت قریب ہے ۔ چوتھے یہ کہ اس میں فرمایا گیا کہ دنیا میں آپ یہ باتیں بتانے نہیں بہیجے گئے۔ 

تفسیر صاوی یہ ہی آیت۔ 
وھذا قبل اعلامہ بوقتھا فلا ینافی انہ علیہ السلام لم یخرج من الدنیا حتٰی اعلمہ اللہ بجمیع مغیبات الدنیا و الاٰخرۃ۔ 
“ یہ آیت حضور علیہ السلام کو قیامت کے وقت کی خبر دینے سے پہلے کی ہے لہذا یہ اس قول کے خلاف نہیں کہ حضور علیہ السلام دنیا سے نہ گئے یہانتک کہ اللہ نے آپ کو دنیا و آخرت کے سارے علوم دے دئیے۔“ 
روح البیان یہ ہی آیت۔ 
قد ذھب بعض المشائخ الٰی ان النبی علیہ السلام کان یعرف وقت الساعۃ باعلام اللہ وھو لا ینافی الحصر فی الاٰیۃ۔ 
بعض مشائخ ادھر گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کے وقت جانتے تھے اللہ کے بتانے سے اور یہ قول اس آیت کے حصر کے خلاف نہیں۔“ 
روح البیان میں یہ ہی آیت پارہ 9 زیر آیت “ یسئلونک کانک حفی عنھا“ میں بھی ہے
اور وہاں یہ بھی ہے کہ دنیا کی کل عمر 70 ہزار سال ہے ۔ یہ روایت صحیحہ ثابت ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم ہے۔ 
تفسیر خازان یہ ہی*آیت۔ 
وقیل معناہ فیم انکار لسوا لھم ای فیم ھذا السوال ثم قال انت یا محمد من ذکرھا ای من علامتھا لانک اٰخر الرسل فکفاھم ذلک دلیلا علٰٰی دنوھا۔ 
“ کہا گہا کہ فیما کفار کے سوال کا انکار ہے یعنی ان کا سوال کس شمار میں ہے پھر فرمایا کہ آپ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ کیونکہ آپ آخری نبی ہیں پس ان کو دلیل کافی ہے قیامت قریب ہونے پر۔“ 
تفسیر مدارک یہ ہی آیت۔ 
اوکان رسول اللہ علیہ السلام لم یزل یذکر الساعۃ و یسئل عنھا حتٰی نزلت فھو تعجب من کثرۃ ذکرھا۔ 
“ یا حضور علیہ السلام قیامت کا بہت ہی ذکر فرماتے تھے اور اس بارے میں سوال کئے جاتے تھے یہاں تک کہ آیت اتری پس یہ*آیت تعجب ہے آپ کے زیادہ ذکر قیامت فرمانے پر۔“
اب اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کس قدر ذکر قیامت فرماتے ہیں۔ 

مدارک یہ ہی*آیت۔ 
او فیم انکار لسوالھم عنھا ای فیم ھذا السوال ثم قال انت من ذکرھا وانت اٰخر الانبیاء علامۃ من علاماتھا فلا معنٰے لسوالھم عنہا۔ 
“ یا فیما کفار کے سوال کا انکار ہے یعنی یہ سوال کس شمار میں ہے پھر فرمایا کہ آپ اس قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ کیونکہ آپ آخری نبی ہیں۔ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہیں اب ان کے قیامت کے پوچھنے کے کوئی معنٰی ہی نہیں۔“
اب اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی قیامت کے متعلق پوچھنا لغو ہے آپ خود اس کی علامت ہیں وہ کیوں پوچھتے ہیں۔
 
مدارک یہ ہی آیت۔ 
قیل فیم انت من ذکرھا متصل بالسوال ای یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسٰھا و یقولون این انت من ذکرھا ثم استانف فقال الٰی ربک۔ 
“ اور کہا گیا ہے کہ “ فیما انت“ سوال سے ملا ہوا ہے یعنی کفار آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کا قیام کب ہو گا؟ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کو اس کا علم کہاں سے آیا پھر رب تعالٰی نے اپنی بات شروع کی “ الٰی ربک“ اب اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ کفار نے پوچھا کہ آپ کو یہ علم کہاں سے ہے۔ رب نے فرمایا کہ اللہ کی طرف سے تو یہ آیت علم قیامت کا ثبوت ہے۔“ 
مدارک یہ ہی آیت۔ 
انما انت منذر من یخشھا ای لم تبعث لتعلمھم بوقت الساعۃ انما انت الخ۔ 
“ یعنی اپ اس لئے نہیں بھیجے گئے کہ ان کو قیامت کے وقت کی خبر دیں۔“
اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ کفار کا یہ کہنا کہ اگر آپ قیامت کی خبر دے دیں تو آُپ نبی ہیں رونہ نہیں۔ محض بیہودہ ہے کیونکہ قیامت کی خبر دینا نبوت کے فرائض میں سے نہیں ۔ نبی کے لئے تبلیغ احکام ضروری ہے ۔ 

مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ 40 وصل ایذا رسانی کفار فقراء صحابہ را میں ہے۔ 
وبعضے علماء علم ساعتہ نیز مثل ایں معنٰی گفتہ اند۔ 
“ یعنی بعض علماء نے روح کی طرح حضور کو قیامت کا علم بھی مانا۔“
14۔ یسئلونک کانک حفی عنہا قل انما علمھا عند اللہ۔ ( پارہ 9 سورہ 7 آیت 187) 
“ تم سے ایسا پوچھتے ہیں گویا تم نے اس کو خوب تحقیق کر رکھا ہے تم فرماؤ کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔“
مخالفین اس آیت کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم نہیں۔ اس کے دو جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ آپ کو قیامت کا علم نہیں دیا۔ اس میں تو یہ ہے کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ دینے کی نفی نہیں ۔ دوم یہ کہ علم قیامت دینے سے قبل کی آٰیت ہے۔ 

تفسیر صاوی یہ ہی آیت۔ 
والذی یجب الایمان نہ ان النبی علیہ السلام لم یتقل من الدنیا حتٰی اعلمہ اللہ بجمیع المغیبات الٰتی تحصل فی الدنیا و الاٰخرۃ فھو یعلمھا کما ھی عین یقین لما ورد رفعت لی الدنیا فانا انظر فیھا کما انظر الٰی کفی ھذہ وورد انہ اطلع لہ الجنۃ وما فیھا والنار وما فیھا وغیر ذلک مما تواترت الاخبار ولکن امر بکتمان بعضھا۔ 
“ جس پر ایمان لانا ضروری ہے یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دنیا سے منتقل نہ ہوئے یہاں تک کہ رب نے آپ کو وہ تماما چیزیں بتا دیں جو دنیا و آخرت میں آیا کہ ہمارے سامنے دنیا میں پیش کی گئی۔ پس ہم اس میں اس طرح نظر کر رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ میں یہ بھی آیا ہے کہ ہم جنت اور ان کی نعمتوں اور دوزخ اور وہاں کے عذابوں پر اطلاع دی گئی علاوہ ازیں اور متواتر خبریں ہیں ۔ لیکن بعض کے چھپانے کا حکم دیا گیا۔“ 
تفسیر خازن میں اس آیت میں ہے 
کہ اس کی اصل عبارت یہ ہے ۔ “ یسئلونک عنھا کانک حفی“ یعنی یہ لوگ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ ان پر بڑے پہربان ہیں۔ اور آپ ان کو بتا ہی دیں گے حالانکہ یہ اسرار الہی میں سے ہے اغیار سے چھپانا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم ہے مگر اظہار کی اجازت نہیں۔
یسئلک الناس عن الساعۃ قل انما علمھا عند اللہ ( پارہ 22 سورہ 33 آیت 63) 
“ لوگ تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔“ 
جواب: 
تفسیر صاوی یہ ہی آیت 
انما وقت السوال والا فلم یخرج نبینا علیہ السلام حتٰی اطلعہ اللہ علٰی جمیع المغیبات ومن جملتھا الساعۃ ۔ 
“ یعنی اس قیامت پر کوئی مطلع نہیں اور یہ سوال کے وقت تھا ورنہ نبی علیہ السلام تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ آپ کو اللہ نے تمام غیبیوں پر مطلع فرمادیا۔ جن میں سے قیامت بھی ہے۔“ 
روح البیان یہ ہی آیت۔ 
ولیس من شرط النبی ان یعلم الغیب بغیر تعلیم من اللہ تعالٰی۔ 
“ اور نبی شرائط میں سے نہیں کہ اللہ کے بغیر بتائے غیب جانے۔“
اس آیت میں کسی کو علم قیامت دینے کی نفی نہیں لہذا اس سے حضور علیہ السلام کے نہ جاننے پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔“
 
تفسیر صاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔ 
المعنی لا یفید علمہ غیرہ تعالٰی فلا ینافی ان رسول اللہ علیہ السلام لم یخرج من الدنیا حتٰی اطلع علٰی ما کان وما یکون وما ھو کائن ومن جملتہ علم الساعۃ۔ 
“معنٰی یہ ہیں کہ قیامت کا علم خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ پس یہ آیت اس کے خلاف نہیں کہ نبی علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے ۔ یہاں تک کہ رب تعالٰی نے ان کو سارے اگلے پچھلے واقعات پر مطلع فرمادیا ۔ان میں سے قیامت کا علم بھی ہے۔“
مخالفین علم قیامت کی نفی کی دلیل میں شروع مشکوٰۃ کی وہ ہدایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت جبریل نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا “ اخبرنی عن الساعۃ“ مجھے قیامت کت متعلق خبر دیجیئے تو فرمایا۔ “ ماالمسئول عنھا با علم من السائل“ یعنی اس بارے میں ہم سائل سے زیادہ جاننے والے نہیں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو قیامت کا علم نہیں ۔
مگر یہ دلیل بھی محض لغو ہے دو وجہ سے ایک یہ کہ اس میں حضور علیہ السلام نے اپنے جاننے کی نفی نہیں بلکہ زیادتی علم کی نفی کی ۔ ورنہ فرماتے “ لا اعلم “ میں نہیں جانتا۔ اتنی دراز عبارت کیوں ارشاد فرمائی؟ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اے جبریل اس مسئلہ میں میرا اور تمھارا علم برابر ہے کہ مجھ کو بھی خبر ہے اور تم کو بھی ام مجمع میں یہ پوچھ کر راز ظاہر کرانا مناسب نہیں۔ دوسرے یہ کہ جواب سن کر حضرت جبریل نے عرض کیا۔ “ فاخبر عن اما راتھا“ تو قیامت کی نشانیاں ہی بتا دیجئے اس ہر حضور علیہ السلام نے چند نشانیاں بیان فرمائیں کہ اولاد نافرمان ہو گی اور کمین لوگ عزت پائیں گے وغیرہ وغیرہ جس کو قیامت کا بالکل علم ہی نہ ہو۔ ان سے نشان پوچھنا کیا معنٰی؟ نشان اور پتہ تو جاننے والے سے پوچھا جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے قیامت قائم ہونے کا دن بتا دیا۔ 

مشکوٰۃ باب الجمعہ میں ہے۔ 
لا تقوم الساعۃ الا فی یوم الجمعۃ۔ 
“ قیامت قائم نہ ہو گی مگر جمعہ کے دن۔“
کلمہ اور بیچ کی انگلی ملا کر فرمایا۔ 

بعثت انا والساعۃ کھاتین ۔ 
“ ہم اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں۔“ ( مشکوٰۃ باب خطبہ یوم الجمعہ) 
یعنی ہمارے زمانے کے بعد بس قیامت ہی ہے اور اس قدر علامات قیامت ارشاد فرمائیں ۔ کہ ایک بات بھی نہ چھوڑی ۔ آج میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ابھی قیامت نہیں آسکتی کیونکہ نہ ابھی دجال آیا نہ حضرت مسیح ومہدی نہ آفتاب مغرب سے نکلا۔ ان علامات نے قیامت کو بالکل ظاہر فرما دیا پھر قیامت کا علم نہ ہونے کے کیا معنٰی؟ پس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنہ نہ بتایا کہ فلاں سنہ میں قیامت ہوگی۔ لیکن حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک میں سنہ مقرر ہی نہ ہوئی تھی۔ سنہ ہجری عہد فاروقی میں مقرر ہوئی کہ ہجرت تو ربیع الاول میں ہوئی مگر سنہ ہجری کا آغاز محرم سے ہوتا ہے۔ بلکہ اس زمانے میں قاعدہ یہ تھا کہ سال میں جو کوئی بھی اہم واقعہ ہو اس سال منسوب کر دیا۔ سال فیل، سال فتح، سال حدیبیہ وغیرہ ۔ تو سنہ ہجری کس طرح بتایا جا سکتا تھا۔ اس دن کے علامات وغیرہ سب بتا دئے اور جو ذات اس قدر تفصیلی علامتیں بیان کرے وہ بے علم کس طرح ہو سکتی ہے؟ نیز ہم ثبوت علم غیب میں وہ حدیث پیش کر چکے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے قیامت تک کے من و عن واقعات بیان کر دئے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ قیامت کا علم نہ ہو۔ کیونکہ دنیا ختم ہوتے ہی قیامت ہے۔ اور حضور علیہ السلام کو یہ علم ہے کہ کونسا واقعہ کس کے بعد ہو گا جو آخری واقعہ ارشاد فرمایا وہ ہی دنیا کی انتہا ہے اور قیامت کی ابتداء دو ملی ہوئی چیزوں میں سے ایک کی انتہا کا علم دوسری کے ابتداء کا علم ہوتا ہے ۔ اس پر خوب غور کر لیا جاوے۔ نہایت نفیس تحقیق ہے جو حضرت صدر الافاضل مرشدی استاذی مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی نے ایک تقریر کے دوران ارشاد فرمائی
اعتراض 16: 
ان اللہ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث و یعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر۔ ( پارہ 21 سورہ 31* آیت 34) 
“ بے شک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور اتارتا ہے مینہ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مریگی بےشک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے۔“
اس آیت سے مخالفین کہتے ہیں کہ پابچ چیزوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں یہ اللہ کی صفت ہے جو کسی غیر کے لئے ثابت کرے مشرک ہے اسی کو علوم خمسہ کہتے ہیں ۔ قیامت کب ہو گی، بارش کب ہوگی، عورت کے پیٹ میں لڑکی ہے یا لڑکا اور کل کیا ہوگا اور کون کہاں مرے گا؟ اس آیت کی تائید میں شرح مشکوٰۃ کی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام سے قیامت کے متعلق دریافت کیا ۔ تو فرمایا۔
“ فی خمس لا یعلم ھن الا اللہ ثم قرء ان اللہ عندہ علم الساعۃ“ یعنی پانچ چیزیں وہ ہیں جن کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ پھر یہ ہی آیت تلاوت فرمائی ۔ ہم علوم خمسہ کے بارے میں نہایت منصفانہ تحقیق کرتے ہیں اور ناظرین * انصاف کی توقع اور اپنے رب سے تمنائے قبول رکھتے ہیں اولا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال پھراس حدیث کے متعلق محدثین کے اقوال پھر اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ 
تفسیرات احمدیہ زیر آیت مذکورہ۔ 
ولک ان تقول ان علم ھذہ الخمسۃ وان لا یعلما احدا الا اللہ لکن یجوز ان یعلما من یشاء من محییہ و اولیاء ہ بقرینۃ قولہ تعالٰی ان اللہ علیم خبیر بمعنی المخبر۔ 
“ اور تم یہ بھی کہہ سکتےہو کہ ان پانچوں باتوں کو اگر چہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جائز ہے کہ خدا پاک اپنے ولیوں اور محبوبوں میں سے جس کو چاہے سکھائے اس قول کے قرینے سے کہ اللہ جاننے والا بتانے والا ہے خبیر بمعنی مخبر۔ 
تفسیر صاوی آیت“ ماذا تکسب غدا“ کے ماتحت فرماتے ہیں۔ 
ای من حیث ذاتھا واما با علام اللہ ممعبد فلا مانع منہ کالانبیاء وبعض الاولیاء قال تعالٰی ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشاء قال تعالٰی فلا یظھر علٰٰی غیبیہ احدا الامن ارتضٰی من رسول فلا مانع من کون اللہ یطلع بعض عبادہ الصلحین علٰی بعض المغیبات فتکون معجزۃ للنبی و کرامۃ للولی ولذلک قال العلماء الحق انہ لمہ یخرج نبینا من الدنیا حتٰی اطلعہ علٰے تلک الخمس۔ 
“ یعنی ان باتوں کو کوئی اپنے آپ نہیں جانتا لیکن کسی بندے کا اللہ کے بتانے سے جاننا اس سے کوئی مانع نہیں جیسے انبیاء اور بعض اولیاء رب نے فرمایا کہ یہ لوگ خدا کے علم کو نہیں گھیر سکتے مگر جسقدر رب چاہے اور فرمایا کہ اپنے غیب پر کسی کو ظاہر نہیں فرماتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے پس اگر خدا تعالٰی اپنے بعض نیک بندوں کو بعض غیبیوں پر مطلع فرمادے تو کوئی مانع نہیں پس یہ علم نبی کا معجزہ اور ولی کی کرامت ہوگا اسی لئے علماء نے فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہیں لے گئے یہانتک کہ ان کو ان پانچوں باتوں پر رب نے مطلع فرما دیا۔ “ 
تفسیر عرائس البیان زیر آیت “ یعلم ما فی الارحام “ ہے 
سمعت ایضا من بعض الاولیاء انہ اخبر مافی الرحم من ذکر وانثی ورئیت بعینی ما اخبر۔ 
“ہم نے بعض اولیاء کو سنا کہ انہوں نے پیٹ کے بچہ لڑکی یا لڑکے کی خبر دی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہی دیکھا جس کی انہوں نے خبر دی تھی۔“ تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔ 
وما روی عن الانبیاء و الاولیاء من الاخبار عن الغیوب فیتعلم اللہ اما بطریق الوحی او بطریق الالھام والکشف وکذا اخبر بعض الولیاء عن نزول المطر واخبر عما فی الرحم من ذکر و انثی فوقع کما اخبر۔ 
“ اور جو غیب کی خبریں انبیاء و اولیاء سے مروی ہیں پس یہ اللہ کی تعلیم سے ہیں یا وحی یا الہام کے طریقے سے ۔ اور اسئ طرح بعض اولیاء نے بارش آنے کی خبر دی اور بعض نے رحم کے بچہ لڑکے یا لڑکی کی خبر دی تو وہ ہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا۔“
قیامت کے علم کی تحقیق ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں ۔ جو علوم خمسہ سے ہے۔
ان تفاسیر و عبارتوں سے معلوم ہوا کہ رب تعالٰی نے علوم خمسہ اپنے حبیب علیہ السلام کو دئیے اور اس آیت میں خبیر بمعنی مخبر ہے۔ اس کے متعلق اور بھی تفاسیر کی عبارتیں پیش کی جا سکتیں ہیں۔مگر اس پر اختصار کرتا ہوں اب رہی مشکوٰۃ شروع کتاب الایمان کی حدیث یہ پانچ چیزیں کوئی نہیں جانتا اس کی شرحیں ملاحظہ ہوں 
۔
امام قرطبی ، امام عینی، امام قسطلانی شرح بخاری میں اور ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ کتاب الایمان فصل اول میں اسی حدیث کے ما تحت فرماتے ہیں۔ 
فمن ادعی شئی منھا غیر مسند الٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان کاذبا فی دعوتہ۔ 
“ پس جو شخص ان پانچوں میں سے کسی چیز کے علم کا دعوٰٰی کرے حضور علیہ السلام کی طرف بغیر نسبت کئے ہوئے وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔“ 
لمعات میں شیخ عبدالحق علیہ الرحمتہ اسی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں۔ 
المراد یعلم بدون تعلیم اللہ تعالٰی ۔ 
“ مراد یہ ہے کہ ان پانچوں باتوں کو بغیر اللہ کے بتائے کوئی نہیں جانتا۔“ 
اشعتہ اللمعات میں شیخ عبدالحق اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔ 
مراد آنسب کہ بے تعلیم الہٰی بحساب عقل ایہنا رااند مزامور الغیب امذ کر کہ جز خدائے تعالٰے کسے آں رامذامذ مگر آنکہ دے تعالٰے از نزد خود کسے را دوحی والہام بدنامذ۔ 
“ مراد یہ ہے کہ ان امور غیب کو بغیر اللہ کے بتائے ہوئے عقل کے اندازہ سے کوئی نہیں جان سکتا۔ کیونکہ ان کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مگر وہ جس کو اللہ اپنی طرف سے بتادے، وحی یا الہام۔“ 
امام قسطلانی شرح بخاری کتاب التفسیر سورہ رعد میں فرماتے ہیں۔ 
لا یعلم متٰی تقوم الساعۃ الا اللہ و الا من ارتضٰی من رسول فانہ یطلعہ علٰی غیبیہ و الولی التابع لہ یاخذوہ عنہ۔ 
“ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی سوائے اللہ کے پسندیدہ رسول کے کیونکہ رب تعالٰی اس کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے اور ان کا اتابع ولی ان سے وہ غیب لیتا ہے۔“ 
انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ باب اشراط الساعتہ زیر حدیچ “ خمس لا یعلمھن الا اللہ“ ہے۔
اخبر الصدیق زوجتہ بنت خارضۃ انھا حاملۃ بنت فولدت بعد وفاتہ ام کلثوم بنت ابی بکر فھذا من الفراسۃ والظن ویصدق اللہ فراسۃ المؤمن۔ 

“صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی بنت خارجہ کو خبر دی کہ وہ بیٹی سے حاملہ ہیں۔ لہذا صدیق کی قفات کے بعد ام کلثوم بنت صدیق پیدا ہوئیں پس یہ فراست اور ظن ہے خدا تعالٰی مومن کی فراست کو سچا کر دیتا ہے۔“ 
سید شریف عبد العزیز مسعود تاب الابریس فرماتے ہیں۔ 
ھو علیہ السلام لا یخفی علیہ من شئی من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ و کیف یخفٰی ذلک ولاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونھا دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین و الاخرین الذی ھو سبب کل شئی و منہ کل شئی۔ 
“ حضور علیہ السلام پر ان پانچ مذکورہ میں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں اور حضور علیہ السلام پر یہ امور مخفی کیونکر ہو سکتے ہیں حالانکہ آپ کی امت کے ساتھ قطب ان کو جانتے ہیں پس غوث کا کیاپوچھنا اور پھر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا کہنا جو ہر چیز کے سبب ہیں اور جن سے ہر چیز ہے۔“ 
علامہ جلال الدین سیوطی روض النظر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں ۔ 
قولہ علیہ السلام الا ھو معناہ بانہ لا یعلھا احد بذاتہ الا ھو لکن قد یعلم بہ با علام اللہ فان ثم من یعلمھا وقد وجدنا ذلک بغیر واحد کما رءینا جماعۃ علموا امتی یموتون وعلموا ما فی الارحام۔ 
“ حضور علیہ السلام کا فرمانا “ الا ھو“ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ ان کو اپنے آپ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی اللہ کے بتانے سے جان لیتے ہیں کیونکہ یہان یہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں ہم نے متعدد کو ایسا پایا جیسے ہم نے ایک جماعت کو دیکا کہ وہ جان لیتے ہیں کہ کب مرینگے اور جانتے ہیں شکم کے بچے کو۔
یہی علامہ جلال الدین سیوطی خصائص شریف میں فرماتے ہیں۔
عرض علیہ ما ھو کائن فی امتہ حتٰی تقوم الساعۃ۔
“ حضور علیہ السلام پر تمام وہ چیزیں میش کر دی گئیں جو آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والی ہیں۔
“ 
علامہ ہجویری شرح قصیدہ بردہ صفحہ 74 میں فرماتے ہیں۔ 
لم یخرج النبی علیہ السلام من الدنیا الا بعد اب اعلمہ اللہ بھذہ الامور الخمسۃ۔ 
“ حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر اس کے بعد کہ اللہ نے آپ کو پانچوں چیزوں کا علم بتا دیا۔“ 
جمع النہایہ میں علامہ شبوائی فرماتے ہیں۔ 
قد ورد ان اللہ تعالٰی یخرج النبی علیہ السلام حتٰی اطلعہ اللہ علٰٰ کل شئی۔ 
“ یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی علیہ السلام کو دنیا سے خارج نہ کیا یہاں تک کہ ہر چیز پر مطلع کر دیا۔“
قال بعض المفسرین لا یعلم ھذا الخمس علما لدنیا ذاتیا بلا واسطۃ الا اللہ فالعلم بھذا الصفۃ مما اختص اللہ بہ واما بواسطۃ فلا یختص بہ۔ 
“ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان پانچ باتوں کو ذاتی طور پر بلا واسطہ تو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا پس اسطرح کا علم خدا سے خاص ہے لیکن علم بالواسطہ وہ خدا سے خاص نہیں۔“ 
فتوحات وہیبہ شرح اربعین نووی میں فاضل ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ 
الحق کما جمع ان اللہ لم یقض نبینا علیہ السلام حتٰی اطلعہ علٰی کم ما ابھم عنہ الا انہ امر بکتم بعض والاعلام ببعض۔ 
“ حق وہ ہی ہے جو ایک جماعت نے کہا ہے کہ اللہ نے حضور علیہ السلام کو وفات نہد ی یہانتک کہ پوشیدہ چیزو ں پر خبردار کر دیا لیکن بعض کے چھپانے اور بعض کے بتانیکا حکم دیا۔“ 
شاہ عبدالعزیز صاحب بستان محدثین صفحہ 114 میں فرماتے ہیں۔ 
نقل مہ کند کہ والد شیخ ابن حجر را فرزاند نمی زیست کبیدہ خاطر بحضور شیخ فرمود کہ از مشت تو فرزند مے خواہد آمد کہ بعلم خود دنیا را پر کند۔ 
“ نقل ہے کہ شیخ ابن حجر کے والد کا کوئی بچہ نہ جیتا تھا۔ ملول دل ہو کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے فرمایا کہ تمھاری مشت سے ایسا فرزند ہو گا کہ اپنے علم سے دنیا کو بھر دے گا۔ یہاں تک کہ علوم خمسہ کے نقلی دلائل تھے۔ اسکی عقلی دلیل یہ ہے کہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا علم تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔ جس کا حوالہ ہم تحذیر الناس سے پیش کرچکے اب دیکھنا یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو ان پانچ چیزوں کا علم دیا گیا یا نہیں۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ شکم مادر میں بچہ بننے کا ذکر فرماتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ 
ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمت فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح ۔ 
“ یعنی پھر رب تعالٰٰی ایک فرشتہ کو چار باتیں بتا کر بھیجتا ہے وہ فرشتہ لکھ جاتا ہے اسکا علم اسکی موت اس کا رزق اور یہ کہ نیک بخت ہے یا بد بخت پھر روح پھونکی جاتی ہے۔“ 
یہ ہی علوم خمسہ ہیں اور تمام موجودہ اور گذشتہ لوگوں کی یہ پانچ باتیں وہ فرشتہ کاتب تقدیر جانتا ہے۔ 
مشکوٰۃ اسی باب میں ہے۔ 
کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السٰمٰوت والارض بخمسین الف سنۃ۔ 
“ اللہ نے زمین و آسمان کی پیدایش سے بچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں۔“ 
معلوم ہوا کہ لوح محفوظ میں علوم خمسہ ہیں ۔ تو وہ ملائکہ جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں اسی طرح انبیاء و اولیاء جن کی نظر لوح محفوظ پر رہتی ہے ان کو یہ علوم خمسہ حاصل ہوئے۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ میثاق کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اولاد آدم کی روحیں سیاہ و سفید رنگ میں دکھا دی گئیں کہ سیاہ روحیں کافروں کی ہیں سفید مسلمانوں کی۔ معراج میں حضور علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح دیکھا کہ ان کے داہنے جانب سفید اور بائیں جانب سیاہ رنگ کی ارواح ہیں یعنی جنتی وہ دوذخی لوگ مومنوں کو دیک کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کو ملاحظہ فرما کر غمگین۔ اسی مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے ۔ کہ ایک دن حضور علیہ السلام اپنے دونوں ہاتھوں میں دو کتابیں لئے ہوئے مجمع صحابہ میں تشریف لائے۔ اور داہنے ہاتھ کی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ نام بمع ان کے قبائل کے ہیں۔ اور آخر میں ان ناموں کا ٹوٹل بھی لگا دیا گیا ہے۔ کہ کل کتنے۔ 
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے مرقات میں فرمایا ۔“ 
الظاہر من الاشارات انھما حسیان وقیل تمثیل۔
 اشارہ سے یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کتابیں دیکھنے میں آرہی تھیں۔ اسی مشکوٰۃ باب عذاب القبر میں ہے کہ جو مردہ نکیرین کے امتحا ن میں کامیاب یا ناکام ہو تا ہے تو نکیرین کہتے ہیں ۔“ قد کنا نعلم انک تقول ھذا“ ہم تو پہلے سے ہی جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا۔ معلوم ہوا کہ نکیرین کو امتحان میت سے پہلے ہی سعادت اورشقاوت کا علم ہوتا ہے۔ امتحان تو فقط پابندی قانون یا معترض کا منہ بند کرنے کو ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی صالح آدمی کی بیوی اس سےلڑتی ہے تو جنت سے حور پکارتی ہے کہ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے۔ پھر ھمارے پاس آنیوالا ہےاس سے جھگڑا نہ کر مشکوٰۃ کتاب النکاح فی عشرۃ النساء معلوم ہوا کہ حور کو بھی خبر ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہوگا۔ حضور علیہ السلام نے جنگ بدر میں ایک دب پہلے زمین پر نشان لگا کر فرمایا کہ یہاں فلاں کافر مرے گا اور یہاں فلاں۔ موت کی زمین کا علم ہوا۔ ( مشکوٰۃ کتاب الجہاد) 
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ علوم خمسہ کا علم اللہ نے بعض بندوں کو بھی دیا۔ پھر حضور علیہ السلام کا علم ان سب کے علموں کو محیط تو کس طرح ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام کو علوم خمسہ حاصل نہ ہوں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پانچ علوم عطائی حادث ہو کر خدا کی صفت نہیں۔ ورنہ کسی کو ان میں سے ایک بات کا بھی علم نہ ہوتا۔ صفت الہٰی میں شرکت نہ تو کلا جائز نہ بعضا۔ ان دلائل کے جواب میں ان شاء اللہ مخالف سے نہ بن سکیں گے۔
اعتراض 18: 
وما یعلم تاویلہ الا اللہ متشابہات آیات کی تاویل رب تعالٰٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو متشابہات آیات کا علم نہ تھا۔ 
جواب: 
اس آیت میں یہ کہا فرمایا گیا کہ ہم نے متشابہات کا علم کسی کو دیا بھی نہیں ۔ رب تعالٰٰی فرماتا ہے۔ 
الرحمٰن علم القراٰن ، اپنے حبیب کو رحمان نے قرآن سکھایا۔
جب رب نے سارا قرآن حضور کو سکھا دیا تو متشابہات بھی سکھا دیے۔ اسی لئے حنفی مذہب کا عقیدہ ہے کہ حضور علیہ السلام متشابہات کو جانتے ہیں۔ ورنہ ان کا نازل کرنا بیکار ہوگا۔ شافعیوں کے نزدیک علماء بھی جاتے ہیں وہ “ والرسخون فی العلم “ پر وقف کرتے ہیں شوافع کے ہاں اس آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ متشابہات کا علم اللہ تعالٰی اور مضبوط علماء کے سوا کسی کو نہیں

ی ن۪T@,� � � � `w ۔ مگر وہ جس کو اللہ اپنی طرف سے بتادے، وحی یا الہام۔“ 
امام قسطلانی شرح بخاری کتاب التفسیر سورہ رعد میں فرماتے ہیں۔ 
لا یعلم متٰی تقوم الساعۃ الا اللہ و الا من ارتضٰی من رسول فانہ یطلعہ علٰی غیبیہ و الولی التابع لہ یاخذوہ عنہ۔ 
“ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی سوائے اللہ کے پسندیدہ رسول کے کیونکہ رب تعالٰی اس کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے اور ان کا اتابع ولی ان سے وہ غیب لیتا ہے۔“ 
انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ باب اشراط الساعتہ زیر حدیچ “ خمس لا یعلمھن الا اللہ“ ہے۔
اخبر الصدیق زوجتہ بنت خارضۃ انھا حاملۃ بنت فولدت بعد وفاتہ ام کلثوم بنت ابی بکر فھذا من الفراسۃ والظن ویصدق اللہ فراسۃ المؤمن۔ 
“صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی بنت خارجہ کو خبر دی کہ وہ بیٹی سے حاملہ ہیں۔ لہذا صدیق کی قفات کے بعد ام کلثوم بنت صدیق پیدا ہوئیں پس یہ فراست اور ظن ہے خدا تعالٰی مومن کی فراست کو سچا کر دیتا ہے۔“ 
سید شریف عبد العزیز مسعود تاب الابریس فرماتے ہیں۔ 
ھو علیہ السلام لا یخفی علیہ من شئی من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ و کیف یخفٰی ذلک ولاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونھا دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین و الاخرین الذی ھو سبب کل شئی و منہ کل شئی۔ 
“ حضور علیہ السلام پر ان پانچ مذکورہ میں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں اور حضور علیہ السلام پر یہ امور مخفی کیونکر ہو سکتے ہیں حالانکہ آپ کی امت کے ساتھ قطب ان کو جانتے ہیں پس غوث کا کیاپوچھنا اور پھر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا کہنا جو ہر چیز کے سبب ہیں اور جن سے ہر چیز ہے۔“ 
علامہ جلال الدین سیوطی روض النظر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں ۔ 
قولہ علیہ السلام الا ھو معناہ بانہ لا یعلھا احد بذاتہ الا ھو لکن قد یعلم بہ با علام اللہ فان ثم من یعلمھا وقد وجدنا ذلک بغیر واحد کما رءینا جماعۃ علموا امتی یموتون وعلموا ما فی الارحام۔ 
“ حضور علیہ السلام کا فرمانا “ الا ھو“ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ ان کو اپنے آپ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی اللہ کے بتانے سے جان لیتے ہیں کیونکہ یہان یہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں ہم نے متعدد کو ایسا پایا جیسے ہم نے ایک جماعت کو دیکا کہ وہ جان لیتے ہیں کہ کب مرینگے اور جانتے ہیں شکم کے بچے کو۔
یہی علامہ جلال الدین سیوطی خصائص شریف میں فرماتے ہیں۔
عرض علیہ ما ھو کائن فی امتہ حتٰی تقوم الساعۃ۔
“ حضور علیہ السلام پر تمام وہ چیزیں میش کر دی گئیں جو آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والی ہیں۔
“ 
علامہ ہجویری شرح قصیدہ بردہ صفحہ 74 میں فرماتے ہیں۔ 
لم یخرج النبی علیہ السلام من الدنیا الا بعد اب اعلمہ اللہ بھذہ الامور الخمسۃ۔ 
“ حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر اس کے بعد کہ اللہ نے آپ کو پانچوں چیزوں کا علم بتا دیا۔“ 
جمع النہایہ میں علامہ شبوائی فرماتے ہیں۔ 
قد ورد ان اللہ تعالٰی یخرج النبی علیہ السلام حتٰی اطلعہ اللہ علٰٰ کل شئی۔ 
“ یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی علیہ السلام کو دنیا سے خارج نہ کیا یہاں تک کہ ہر چیز پر مطلع کر دیا۔“
قال بعض المفسرین لا یعلم ھذا الخمس علما لدنیا ذاتیا بلا واسطۃ الا اللہ فالعلم بھذا الصفۃ مما اختص اللہ بہ واما بواسطۃ فلا یختص بہ۔ 
“ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان پانچ باتوں کو ذاتی طور پر بلا واسطہ تو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا پس اسطرح کا علم خدا سے خاص ہے لیکن علم بالواسطہ وہ خدا سے خاص نہیں۔“ 
فتوحات وہیبہ شرح اربعین نووی میں فاضل ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ 
الحق کما جمع ان اللہ لم یقض نبینا علیہ السلام حتٰی اطلعہ علٰی کم ما ابھم عنہ الا انہ امر بکتم بعض والاعلام ببعض۔ 
“ حق وہ ہی ہے جو ایک جماعت نے کہا ہے کہ اللہ نے حضور علیہ السلام کو وفات نہد ی یہانتک کہ پوشیدہ چیزو ں پر خبردار کر دیا لیکن بعض کے چھپانے اور بعض کے بتانیکا حکم دیا۔“ 
شاہ عبدالعزیز صاحب بستان محدثین صفحہ 114 میں فرماتے ہیں۔ 
نقل مہ کند کہ والد شیخ ابن حجر را فرزاند نمی زیست کبیدہ خاطر بحضور شیخ فرمود کہ از مشت تو فرزند مے خواہد آمد کہ بعلم خود دنیا را پر کند۔ 
“ نقل ہے کہ شیخ ابن حجر کے والد کا کوئی بچہ نہ جیتا تھا۔ ملول دل ہو کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے فرمایا کہ تمھاری مشت سے ایسا فرزند ہو گا کہ اپنے علم سے دنیا کو بھر دے گا۔ یہاں تک کہ علوم خمسہ کے نقلی دلائل تھے۔ اسکی عقلی دلیل یہ ہے کہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا علم تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔ جس کا حوالہ ہم تحذیر الناس سے پیش کرچکے اب دیکھنا یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو ان پانچ چیزوں کا علم دیا گیا یا نہیں۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ شکم مادر میں بچہ بننے کا ذکر فرماتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ 
ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمت فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح ۔ 
“ یعنی پھر رب تعالٰٰی ایک فرشتہ کو چار باتیں بتا کر بھیجتا ہے وہ فرشتہ لکھ جاتا ہے اسکا علم اسکی موت اس کا رزق اور یہ کہ نیک بخت ہے یا بد بخت پھر روح پھونکی جاتی ہے۔“ 
یہ ہی علوم خمسہ ہیں اور تمام موجودہ اور گذشتہ لوگوں کی یہ پانچ باتیں وہ فرشتہ کاتب تقدیر جانتا ہے۔ 
مشکوٰۃ اسی باب میں ہے۔ 
کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السٰمٰوت والارض بخمسین الف سنۃ۔ 
“ اللہ نے زمین و آسمان کی پیدایش سے بچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں۔“ 
معلوم ہوا کہ لوح محفوظ میں علوم خمسہ ہیں ۔ تو وہ ملائکہ جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں اسی طرح انبیاء و اولیاء جن کی نظر لوح محفوظ پر رہتی ہے ان کو یہ علوم خمسہ حاصل ہوئے۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ میثاق کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اولاد آدم کی روحیں سیاہ و سفید رنگ میں دکھا دی گئیں کہ سیاہ روحیں کافروں کی ہیں سفید مسلمانوں کی۔ معراج میں حضور علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح دیکھا کہ ان کے داہنے جانب سفید اور بائیں جانب سیاہ رنگ کی ارواح ہیں یعنی جنتی وہ دوذخی لوگ مومنوں کو دیک کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کو ملاحظہ فرما کر غمگین۔ اسی مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے ۔ کہ ایک دن حضور علیہ السلام اپنے دونوں ہاتھوں میں دو کتابیں لئے ہوئے مجمع صحابہ میں تشریف لائے۔ اور داہنے ہاتھ کی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ نام بمع ان کے قبائل کے ہیں۔ اور آخر میں ان ناموں کا ٹوٹل بھی لگا دیا گیا ہے۔ کہ کل کتنے۔ 
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے مرقات میں فرمایا ۔“ 
الظاہر من الاشارات انھما حسیان وقیل تمثیل۔
 اشارہ سے یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کتابیں دیکھنے میں آرہی تھیں۔ اسی مشکوٰۃ باب عذاب القبر میں ہے کہ جو مردہ نکیرین کے امتحا ن میں کامیاب یا ناکام ہو تا ہے تو نکیرین کہتے ہیں ۔“ قد کنا نعلم انک تقول ھذا“ ہم تو پہلے سے ہی جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا۔ معلوم ہوا کہ نکیرین کو امتحان میت سے پہلے ہی سعادت اورشقاوت کا علم ہوتا ہے۔ امتحان تو فقط پابندی قانون یا معترض کا منہ بند کرنے کو ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی صالح آدمی کی بیوی اس سےلڑتی ہے تو جنت سے حور پکارتی ہے کہ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے۔ پھر ھمارے پاس آنیوالا ہےاس سے جھگڑا نہ کر مشکوٰۃ کتاب النکاح فی عشرۃ النساء معلوم ہوا کہ حور کو بھی خبر ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہوگا۔ حضور علیہ السلام نے جنگ بدر میں ایک دب پہلے زمین پر نشان لگا کر فرمایا کہ یہاں فلاں کافر مرے گا اور یہاں فلاں۔ موت کی زمین کا علم ہوا۔ ( مشکوٰۃ کتاب الجہاد) 
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ علوم خمسہ کا علم اللہ نے بعض بندوں کو بھی دیا۔ پھر حضور علیہ السلام کا علم ان سب کے علموں کو محیط تو کس طرح ممکن ہے کہ حضور علیہ السلام کو علوم خمسہ حاصل نہ ہوں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پانچ علوم عطائی حادث ہو کر خدا کی صفت نہیں۔ ورنہ کسی کو ان میں سے ایک بات کا بھی علم نہ ہوتا۔ صفت الہٰی میں شرکت نہ تو کلا جائز نہ بعضا۔ ان دلائل کے جواب میں ان شاء اللہ مخالف سے نہ بن سکیں گے۔
اعتراض 18: 
وما یعلم تاویلہ الا اللہ متشابہات آیات کی تاویل رب تعالٰٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو متشابہات آیات کا علم نہ تھا۔ 
جواب: 
اس آیت میں یہ کہا فرمایا گیا کہ ہم نے متشابہات کا علم کسی کو دیا بھی نہیں ۔ رب تعالٰٰی فرماتا ہے۔ 
الرحمٰن علم القراٰن ، اپنے حبیب کو رحمان نے قرآن سکھایا۔
جب رب نے سارا قرآن حضور کو سکھا دیا تو متشابہات بھی سکھا دیے۔ اسی لئے حنفی مذہب کا عقیدہ ہے کہ حضور علیہ السلام متشابہات کو جانتے ہیں۔ ورنہ ان کا نازل کرنا بیکار ہوگا۔ شافعیوں کے نزدیک علماء بھی جاتے ہیں وہ “ والرسخون فی العلم “ پر وقف کرتے ہیں شوافع کے ہاں اس آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ متشابہات کا علم اللہ تعالٰی اور مضبوط علماء کے سوا کسی کو نہیں

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.