Saturday, January 26, 2013

ایک خبیث دیو بندیہ کے اعتراضات اور اسکے جوابات از "خادم اہلسنت "

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک خبیث دیو بندیہ کے اعتراضات اور اسکے جوابات از "خادم اہلسنت " :
Maria Barina
paper ......... marks 100
time ......... un limited

important note:-

* attempt all question (no choice) ....... 
* attempt question in sequence
* extra sheet is allow and ask my assistant ..... facebook...... as much as u want :-)
* this paper should be attempted by any type of razakhani (attati , azhrari , tahiri , golra sharifi , molra sharifi , ashrafi , saife , and soo on)
* medium of answer .... english / urdu / roman urdu / roman hindi

***********************************************

Q-1 : what is the difference b/w eid miladun nabi and crismic define brifly 
note : describe core issues 
الجواب:
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور  کرسمس کا فرق:
وھابی نجدی کا انداز یہودیت کے جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کرسمس کا فرق نہیں معلوم اور خود کو مسلمان سمجھتے ہیں ، جیساکہ تمام اہل ایمان ہی جانتے ہیں کہ "جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم " آقا  صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا جشن مناتے ہیں کہ اللہ عزوجل قرآن میں ارشاد فرماتا  ہے :

 فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO
تو اگر اللّٰہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ٹَوْ ٹے والوں میں ہو جاتے ‘‘
البقره، 2 : 64
یہاں فضل و رحمت سے یا توفیق توبہ مراد ہے یا تاخیر عذاب (مدارک وغیرہ) ایک قول یہ ہے کہ فضل الہی اور رحمت حق سے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک مراد ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی دولت نہ ملتی اور آپ کی ہدایت نصیب نہ ہوتی تو تمہارا انجام ہلاک و خسران ہوتا۔

درج ذیل آیہ کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے :
 وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO
اور اگر تم پر اللّٰہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے o‘‘
النساء، 4 : 83

اس مقام پر اللہ رب العزت کا رُوئے خطاب عام مومنین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف ہے۔ اس نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور بعثت کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس میرے حبیب تشریف نہ لاتے تو تم میں سے اکثر لوگ شیطان کے پیروکار ہو چکے ہوتے اور کفر و شرک اور گمراہی و تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہوتی۔ پس میرے محبوب پیغمبر کا تمہاری طرف مبعوث ہونا تم پر اللہ کا فضل بن گیا کہ اس کی آمد کے صدقے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی اور تم شیطان کی پیروی اور گمراہی سے بچ گئے۔
یہ محض اﷲ کا کرم ہے کہ اس نے راہِ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا اور بنی نوع انسان شیطانی حملوں سے بچ گئی۔ اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد سرانجام دیے جانے والے اُمور کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے :
 لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
بے شک اللّٰہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہےاور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے
آل عمران، 3 : 164

 کرسمس:
25 دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس کا تہوار مناتی ہے ۔ اس تہوار کی غرض و ٍ غایت بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ مختصر یہ کہ نصاریٰ کے نزدیک اس دن اللہ کے بیٹے (نعوذ باللہ من ذالک) کی پیدائش ہوئی ۔ یہ عقیدہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ خود قرآن کریم ً میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور نہایت غضب کا اظہار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرنقص سے پاک ذات ہے ۔ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے (لم یلد ولم یولد - اخلاص :3) ۔
بحمدللہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر "انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔
میں عرض کرچکا ہوں کہ کرسمس منانے کا بنیادی مقصد کس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت اپنی کتاب میں اس عقیدہ فاسدہ کی مذمت اور تردید فرماچکا ہے ۔ میں یہاں صرف سورہ مریم کی آیات 88 تا 92 پیش کروں گا جس میں اللہ رب العزت اس عقیدے پر اپنے غضب کا اظہار فرما رہا ہے ۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ( 88 ) 
اور کافر بولے رحمٰن نے اولاد اختیار کی
سورہ  مریم  ، آیت 88

لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ( 89 ) 
بیشک تم حد کی بھاری بات لائے
سورہ  مریم  ، آیت 89

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ( 90 ) 
قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گر جائیں ڈھ کر
سورہ  مریم  ، آیت 90

أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ( 91 ) 
اس پر کہ انہوں نے رحمٰن کے لئے اولاد بتائی
سورہ  مریم  ، آیت91

وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ( 92 ) 
اور رحمٰن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے
سورہ  مریم  ، آیت92

ان آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کیلئے بیٹے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وہ ایسی سخت بات کرتے ہیں کہ جس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اللہ رب العزت یکتا ہے اور اس کا کسی امر میں کوئی شریک نہیں۔
نتیجہ:
دو چیزیں ہیں ایک ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جان کر ان کی ولادت منانا اور دوسرا ہے اللہ کے نبی کی پیدائش سمجھتے ہوئے ان کے میلاد کو منانا۔
اللہ کے نبی کی ولادت کی خوشی منانے میں کوئی خاص مضائقہ نہیں البتہ عقیدہ شرکیہ نہ رکھا جائے۔اور میرا نہیں خیال کہ کوئی مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق شرکیہ عقیدہ رکھتا ہو۔

------------------------------------------------------
Q-2 : define all

a) farz
b) wajib
c) sunnat
d) mustahab o masnoon
e) mubha
f) biddat e husna
g) biddat

الجواب:
(a)
فرض:۔وہ ہے جو شریعت کی یقینی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری اور بلا کسی عذر کے اس کو چھوڑنے والا فاسق اور جہنمی اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جیسے نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ۔
    پھر فرض کی دو قسمیں ہیں ایک فرض عین' دوسرے فرض کفایہ۔ فرض عین وہ ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر ضروری ہے جیسے نماز پنجگانہ وغیرہ۔ اور فرض کفایہ وہ ہے جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ادا کرلینے سے سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گنا ہگار ہونگے جیسے نماز جنازہ وغیرہ
(b)
واجب:۔وہ ہے جو شریعت کی ظنی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری ہے اور اس کو بلا کسی تاویل اور بغیر کسی عذر کے چھوڑ دینے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہے لیکن اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں بلکہ گمراہ اور بد مذہب ہے۔
(c)
سنت: اسکی دو قسمیں ہیں:  1۔ سنت موکدہ 2- سنت غیر موکدہ   
سنت موکدہ:۔وہ ہے جس کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ہمیشہ کیا ہو۔ البتہ بیان جواز کے لئے کبھی چھوڑ بھی دیا ہو اس کو ادا کرنے میں بہت بڑا ثواب اور اس کو کبھی اتفاقیہ طور پر چھوڑ دینے سے اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا عتاب اور اس کو چھوڑ دینے کی عادت ڈالنے والے پر جہنم کا عذاب ہو گا۔ جیسے نماز فجر کی دو رکعت سنت' اور نماز ظہر کی چار رکعت فرض سے پہلے اور دو رکعت فرض کے بعد سنتیں۔ اور نماز مغرب کی دو رکعت سنت اور نماز عشاء کی دو رکعت سنت' یہ نماز پنجگانہ کی بارہ رکعت سنتیں یہ سب سنت موکدہ ہیں۔
سنت غیر موکدہ:۔وہ ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی کبھی اس کو چھوڑ بھی دیا ہو۔ اس کو ادا کرنے والا ثواب پائے گا اوراس کو چھوڑ دینے والا عذاب کا مستحق نہیں۔ جیسے عصر کے پہلے کی چار رکعت سنت اور عشاء سے پہلے کی چار رکعت سنت کہ یہ سب سنت غیر موکدہ ہیں۔ سنت غیر موکدہ کو سنت زائدہ بھی کہتے ہیں۔
(d)
مستحب:۔ہر وہ کام ہے جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہو اور اس کو چھوڑ دینا شریعت کی نظر میں برا بھی نہ ہو۔ خواہ اس کام کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے کیا ہو یا اس کی ترغیب دی ہو۔ یا علماء صالحین نے اسے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا ہو۔ یہ سب مستحب ہیں۔ مستحب کو کرنا ثواب اور اس کو چھوڑ دینے پر نہ کوئی عذاب ہے نہ کوئی عتاب۔ جیسے وضو کرنے میں قبلہ رو ہو کر بیٹھنا' نماز میں بحالت قیام سجدہ گاہ پر نظر رکھنا' خطبہ میں خلفاء راشدین وغیرہ کا ذکر' میلاد شریف' پیران کبار کے وظائف وغیرہ'مستحب کو مندوب بھی کہتے ہیں۔
(e)
مباح:۔وہ ہے جس کا کرنا اور چھوڑ دینا دونوں برابر ہو۔ جس کے کرنے میں نہ کوئی ثواب ہو اور چھوڑدینے میں نہ کوئی عذاب ہو۔ جیسے لذیذ غذاؤں کا کھانا اور نفیس کپڑوں کا پہننا وغیرہ۔
(f)
بدعت حسنہ:
ارشاد ِاَقدس حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:
من سنّ في الإسلام سنۃ حسنۃ کان لہ أجرھا وأجر من عمل بھا إلی یوم القیامۃ لا ینقص من أجورھم شیأ۔

    ''جو اسلام میں اچھی راہ پیدا کرے اس کا اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب اسے ملتا ہے اور ان عاملوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو۔''
''صحیح مسلم''، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ... إلخ، الحدیث: ۱۰۱۷، ص۵۰۸.
و''المعجم الکبیر''، الحدیث: ۲۳۷۲، ج۲، ص۳۲۹.

خود حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اذنِ عام ہے۔ سیدی علامہ عبد الغنی نابلسی قُدِّسَ سِرُّہ، الْقُدْسِيُّ ''حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ ''میں فرماتے ہیں:

    ''أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((من سنّ سنۃ حسنۃ)) فسمی المبتدع للحسن مستناً فأدخلہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم في السُّنّۃ وضابطۃ السُّنّۃ ما قرّرہ وفعَلہ النبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وداوَمَ علیہ ومن جملۃ قولہ فعلُہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ لأنّہ تقریر وإذن في ابتداع السنۃ الحسنۃ إلی یوم الدین وإنّہ مأذون لہ بالشرع فیھاومأجور علیہ مع العاملین لھا بدوامھا۔
''یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے:  ((من سنّ في الإسلام سنۃ حسنۃ)) فرما کر بدعتِ حسنہ کو سنّت میں داخل فرما لیا اور اس کے ایجاد کرنے والے کو سُنّی قرار دیا کہ سنّت کا ضابطہ یہ ہے کہ جس بات کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقرر رکھا یا جو کام حضور نے مداومت واِظہار کے ساتھ کیا اور حضور کا وہ ارشاد بھی حضور کا فعل ہے کہ اس میں قیامت تک بدعتِ حسنہ نکالنے کا اذن اور اسے برقرار رکھنا اور بتا دینا ہے کہ اسے شرعاً اس کی اجازت ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کے ساتھ اجر وثواب ہے۔''
''الحدیقۃ الندیۃ''، ثم اعلم أیہا المکلف أنّ فعل البدعۃ السیئۃ... إلخ، ج۱، ص۱۴۷.

مرقاۃ شریف میں ہے:
احداث مالاینازع الکتاب والسنۃ کما سنقررہ بعدلیس بمذموم
ایسا فعل ایجاد کرنا جو کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو برا نہیں، جیسا کہ ہم آگے ثابت کریں گے ۔
 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ    مطبوعہ امدادیہ ملتان        ۱/ ۲۱۵)

پھر ایک صفحہ کے بعد بدعت کا واجب وحرام ومندوب ومکروہ ومباح ہونا مفصلاً ذکر فرمایا۔
عالمگیری میں ہے:
لاباس بکتابۃ اَسَامی السور وعدد الآی وھوان کان احد اثا فھو بدعۃ حسنۃ وکم من شیئ کان احداثا وھو بدعۃ حسنۃ ۔
مصحف شریف میں سورتوں کے نام، اور آیتوں کی تعداد لکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور وہ اگر چہ نئی ایجاد اور بدعت ہے مگر بدعت حسنہ ہے اوربہت سی چیزیں ایسی ہیں جو نو ایجاد تو ہیں مگر بدعتِ حسنہ ہیں۔
 (۱؎ عالمگیری ( فتاوٰی ہندیہ)    باب آداب المسجد    مطبوعہ پشاور        ۵/ ۳۲۳)

جو صاحب بدعت'' یہاں بدعت سے مراد حرام بدعت ہے، ورنہ بدعت واجب بھی ہوتی ہے، جیسے گمراہ فرقوں کا رد کرنے کے لئے دلائل قائم کرنا علم نحو سیکھنا جس سے کتاب وسنت سمجھ سکیں، مستحب بھی جیسے سرائے اور مدرسہ جیسی چیزیں تعمیر کرنا، اور ہر وہ نیک کام جو زمانہ اول میں نہ رہا ہو ، مکروہ بھی جیسے مسجدوں کو آراستہ ومنقش کرنا۔ مباح بھی جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور کپڑوں میں وسعت وفراخی کی راہ اختیار کرنا، جیسا کہ علاّمہ مناوی کی شرح جامع صغیری میں علاّمہ نووی کی کتاب تہذیب سے منقول ہے ، اور اسی طرح علامہ برکوی کی کتاب'' الطریق المحمدیہ '' میں مذکور ہے
 اچھی بات بدعت حسنہ اور جمع قرآن 
عن زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : أرسل اِلیّ أبو بکر مقتل أہل الیمامۃ فاذا عمر بن الخطاب عندہ قال أبو بکر: اِن عمر أتانی فقال : اِن القتل قد استحر یوم الیمامۃ بقراء القرآن و اِنی أخشی أن استحر القتل بالقراء بالمواطن فیذہب کثیر من القرآن، و اِنی أری أن تامر بجمع القرآن ، قلت لعمر: کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال عمر: ہذا و اللہ خیر! فلم یزل عمر یراجعنی حتی شرح اللہ صدری لذلک، و رأیت فی ذلک الذی رأی عمر، قال زید : قال أبو بکر: اِنک رجل شاب عاقل لانتہمک و قد کنت تکتب الوحی لرسول اللہ فتتبع القرآن فأجمعہ فواللہ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علی مما أمرنی بہ من جمع القرآن ، قلت: کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال : ہو واللہ خیر، فلم یزل أبو بکر یراجعنی حتی شرح اللہ صدری للذی شرح لہ صدر أبی بکر و عمر فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف و صدور الرجال حتی وجدت آخر سورۃ التوبۃمع أبی خزیمۃ الأنصاری لم أجدہا مع أحد غیر ہ’’ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ‘‘ حتی خاتمۃ برآء ۃ ، فکانت الصحف عند أبی بکر حتی توفاہ اللہ ثم عند عمر حیاتہ ثم عند حفصۃ بنت عمر ۔ 


حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یمامہ والوں سے جنگ کے ایام میں مجھے امیر المؤمنین سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلایا ۔اس وقت سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انکے ساتھ تھے ۔فرمایا: حضرت عمر میرے پاس آئے اور کہا: جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ مختلف مقامات پر قاریوں کے شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا ۔ لہذا میری رائے ہے کہ آپ قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم صادر فرمادیں ۔میں نے ان سے کہا :میں وہ کام کیسے کروں جسکو خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟حضرت عمر نے اس پر کہا:خدا کی قسم ! کام توپھر بھی اچھا ہے ۔چنانچہ حضرت عمر مجھ سے اس بارے میں بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کیلئے میرا سینہ کھولدیا اور میں حضرت عمر کی رائے سے متفق ہو گیا ۔حضرت زیدبن ثابت کا بیان ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا:تم نو جوان آدمی ہو اور صاحب عقل و دانش بھی نیز تمہاری قرآن فہمی کے بارے میں مجھے پورا اعتماد ہے ۔ اور تم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ۔لہذا مکمل کوشش کے ساتھ قرآن کریم جمع کر دو۔خدا کی قسم ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر نے کا حکم دیا جاتا تو اسے اس کام سے زیادہ بھاری نہ سمجھتا ۔میں عرض کرنے لگا: آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔آپنے فرمایا:خدا کی قسم ! پھر بھی یہ کام تو اچھا ہے ، پھر برابر حضرت صدیق اکبر مجھ سے بحث کرتے رہے یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کیلئے کھولدیا تھا ۔چنانچہ میں نے قرآن کریم کو کجھور کے پتوں ، پتھر کے ٹکڑ وں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا یہاں تک کہ سورئہ توبہ کی آ خری آیت حضرت ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ملی اور کسی سے دستیاب نہ ہوئی ۔ یعنی ’’ لقدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مَّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ ألْآیَہ‘‘پھر یہ جمع کیا ہوا نسخہ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس رہا۔ جب ان کا وصال ہو گیا تو حضرت عمر کے پاس پھر حضرت حفصہ بنت عمر کی تحویل میں رہا۔
 الجامع الصحیح للبخاری، فضائل القرآن ، 1/745
(g)
بدعت سیئہ:
 عن أبی حجیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :مَن سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً عَمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ کَانَ لَہٗ أجْرُہٗ مِثْلَ أجُوْرِہِمْ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِہِمْ شَیْئاً، وَمَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعَمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ کَانَ عَلَیْہِ وِ زْرُہٗ مِثْلَ أوْزَارِہِمْ مِن غَیْرِ أنْ یَنْقُصُ مِن أوْزَارِہِمْ شَیْئاً ۔

حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا کہ ا سکے بعد لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے تو سب عمل کرنیوالوں کے برابر ا سکو ثواب ملے گا اور انکے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی ۔اور جس نے برا طریقہ نکالاکہ لوگ اس کے بعد اس روش پر چلے تو سب کا گناہ ا سکے سر ہو گا جبکہ انکے گنا ہوں سے کچھ کم نہ ہو گا ۔
 السنن لابن ماجہ ، المقدمۃ ، ۱/۱۹

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.