Wednesday, January 16, 2013

علم غیب کی احادیث کے بیان میں

1۔ بخاری کتاب بدءالحلق اور مشکوٰۃ جلد دوم باب بدءالخلق و ذکر الانیباء میں حضرت فاروق سے روایت ہے۔ 
قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدءالخلق حتٰی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ ۔ 
“ حضور علیہ السلام نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتداء پیدائش کی خبر دےد ی۔ یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی میں جس نے یاد رکھا۔ اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔“
اس جگہ حضور علیہ السلام نے دو قسم کے واقعات کی خبر دی ۔ 
(1) عالم کی پیدائش کی ابتداء کس طرح ہوئی۔ (2پھر عالم کی انتہا کس طرح ہوگی۔ یعنی از روز اول تا قیامت ایک ایک ذرہ بیان کر دیا ۔ 

 مشکوٰۃ باب المعجزات میں مسلم بروایت عمرو ابن اخطب اسی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اور ہے ۔ 
فاخبرنا بما ھو کائن الٰی یوم القٰمۃ فاعلمنا احفظنا ۔ 
“ ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونیوالے ہیں ۔ پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے۔“ 

 مشکوٰۃ باب الفتن میں بخاری و مسلم سے بروایت حضرت حذیفہ ہے۔ 
ما ترک شیئا یکون مقامہ الٰی یوم القیمۃ الا حدث بہ و نسیہ من نسیہ 
“ حضور علیہ السلام نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی جس نے یاد رکھا یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا۔“ 

 مشکوٰۃ باب فضائل سیدالمرسلین میں مسلم سے بروایت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ۔ 
ان اللہ زوٰی لی الارض فرء یت مشارق الارج و مغاربھا ۔ 
“ اللہ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی پس میں نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا۔“ 

 مشکوٰۃ باب المساجد مین عبد الرحٰمن بن عائش سے روایت ہے۔ 
رء یت ربی عزوجل فی احسن صورۃ فو صنع کفہ بین کتفی فو جدت بردھا بین ثدیی فعلمت فافی السمٰوت و الارض 
“ ہم نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا رب تعالٰی نے اپنا دست قدرت ہمارے سینہ پر رکھا۔ جسکی ٹھنڈک ہم نے اپنے قلب میں پائی پس تمام آسمان و زمین کی چیزوں کو ہم نے جان لیا ۔“ 

6۔ شرح مواہب لدنیہ للزرقانی میں حضرت عبد اللہ ان عمر سے روایت ہے ۔ 
ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا و الی ما ھو کائن فیھا الی یوم القیمۃ کانما انظر الی کفی ھذا ۔ 
“ اللہ تعالٰی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں ۔“ 

 مشکوٰۃ باب المساجد بروایت ترمذی ہے۔ 
فتجلی لی کل شئی و عرفت 
“ پس ہمارے لئے ہر چیز ظاہر ہو گئی اور ہم نے پہچان لی۔“ 

8۔ مسند امام احمد بن حنبل میں بروایت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہے ۔ 
ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قائد فتنہ الی ان تنقضی الدنیا یبلغ من ثلث مائۃ فصاعدا قد سماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ و اسمقبیلتہ رواہ ابو داؤد ۔ 
“ نہیں چھوڑا حضور علیہ السلام نے کسی فتنہ چلا نیوالے کو دنیا کے ختم ہونے تک جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تک پہنچے گی مگر ہم کو اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام بتا دیا ۔“ 
10۔ مشکوٰۃ باب ذکر الانبیاء میں بخاری سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے۔ 
خفف علی داود القراٰن فکان یامر دوآبہ فتسرج فیقرء القراٰن قبل ان تسرج 
“ حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن ( زبور) کو اس قدر ہلکا کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو زین لگانے کا حکم دیتے تھے تو آپ ان کی زین سے پہلے زبور پڑھ لیا کرتے تھے۔“
یہ حدیث اس جگہ اس لئے بیان کی گئی کہ اگر حضور علیہ السلام نے ایک وعظ میں ازل تا آخر واقعات بیان فرمادئے تو یہ بھی آپ کا معجزہ تھا۔ کیسا کہ حضرت داؤد آن کی آن میں ساری زبور پڑھ لیتے تھے۔ 

11۔ مشکوٰۃ باب مناقب اہل البیت میں ہے۔ 
تلد فاطمۃ ان شاء اللہ غلاما یکون فی حجرک۔ 
“ حضور علیہ السلام نے خبر دی کہ فاطمہ زہرا کے فرزند پیدا ہوگا۔ جو تمھاری پرورش میں رہے گا۔“ 

12۔ بخاری باب اثبات عذاب القبر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل ہے۔ 
مر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقبرین یعذبان فقال انھما یعذبان وما یعذبان فی کبیر اما احدھما فکان لا یستنزہ من البول و اما الاٰخر فکان یمشی بالنیمۃ ثم اخذ جریدۃ رطبۃ فشقھا بنصفین ثً غرزفی کل قبر واحدۃ و قال لعلہ ان یخففف عنھما مالم ییبسا۔ 
“ حضور علیہ السلام دو قبروں پر گزرے جن میں عذاب ہو رہا تھا تو فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی دشواربات میں عذاب نہیں ہو رہا ہے ان میں سے ایک تو پیشاب سے نہ بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا پھر ایک تر شاخ کو لے کر اسکو آدھا آدھا چیرا پھر ہر قبر میں ایک ایک کو گاڑھا اور فرمایا کہ جب تک یہ ٹکڑے خشک نہ ہوں گے ان دونوں شخصوں سے عذاب میں کمی کی جاوے گی۔“ 
13۔ بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن مین زیر آیت لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم ہے۔ 
قام علی المنبر فذکر الساعۃ و ذکر ان بین یدیھا امور اعظاما ثم قا ما من رجل احب ان یسئال عن شئی فلیسئل عنہ فواللہ لا تسئلونی عن شیئی الا اخبر کم ما دمت فی مقامی ھذا فقام رجل فقال این مدخلی قال النار فقام عبداللہ ابن حذافۃ فقال من ابی قال ابوک حذافۃ ثم کثر ان قول سلونی سلونی۔ 
“ حضور علیہ السلام منبر کھڑے ہوئے پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے پوچھو گے مگر ہم تم کو اس کی خبر دیں گے ایک شخص نے کھڑےہو کر عرض کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ فرمایا جھنم میں عبد اللہ ابن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ۔ پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو ۔“
خیال رہے کہ جھنمی یا جنتی ہونا علوم خمسہ میں سے ہے کہ سعید ہے یا شقی اسی طرح کون کس کا بیٹا ہے یہ ایسی بات ہے کہ جس کا علم سوائے ماں کی اور کسی کو نہیں ہو سکتا قربان ان نگاہوں کے جو کہ اندھیرے اجالے ، دنیا و آخرت سب کو دیکھتی ہیں ۔ 

14۔ باب مناقب علی میں ہے۔ 
قال یوم خبیر لا عطین ھذہ الرایۃ غدا رجلا یفتح اللہ علی یدیہ یحب اللہ ورسولہ۔ 
“ حضور علیہ السلام نے خیبر کے دن فرمایا کہ ہم کل یہ جھنڈا اس دیں گے جسکے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح فرمادیگا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔“ 

15۔ مشکوٰۃ باب المساجد میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ہے ۔ 
عرضت علی اعمال امتی حسنھا و سییئھا فو جدت فی محاسن اعمالھا الا ذی یماط عن الطریق ۔ 
“ ہم پر ہماری امت کے اعمال پیش کئے گئے اچھے بھی برے بھی ہم نے انکے اعمال میں وہ تکلیف دہ چیزیں بھی پائی جو راستے سے ہٹا دی جائے۔“
16۔ مسلم جلد دوم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ 
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذا مصرع فلان یصنع یدہ علی الارض ھھنا ھھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ 
“ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے تھے راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور علیہ السلام کے ہاتھ کہ جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا۔“
خیال رہے کہ کون کس جگہ مرے گا ۔ یہ علوم خمسہ میں سے ہے جس کی خبر حضور علیہ السلام جنگ بدر میں ایک روز پہلے دے رہے ہیں ۔ 

17۔ مشکوٰۃ باب العجزات میں حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ 
فقال رجل تاللہ ان رئیت کالیوم ذئب یتکلم فقال الذئب اعجب من ھذا رجل فی النخلات بین الحرتین یخبرکم بما مضٰی وما ھو کائن بعدکم ۔ 
“ شکاری آدمی نے کہا کہ میں نے آج کی طرح کبھی نہ دیکھا کہ بھیڑ یا باتیں کر رہا ہے تو بھیڑ بولا کہ اس سے عجیب بات یہ ہے کہ ایک صاحب ( حضور) دو میدانوں کے درمیانی نخلستان ( مدینہ) میں ہیں اور تم کزشتہ اور آئیندہ کی خبریں دے رہے ہیں ۔“
18 ۔ تفسیر خازن پارہ 4 زیر آیت ماکان اللہ لیذر المومنین علی ا انتم علیہ ہے۔ 
قال رسول اللہ علیہ السلام عرضت علی امتی فی صورھا فی الطین کما عرضت علی ادم و اعلمت من یومن ومن یکفر بی فبلغ ذلک المنافقین قالوا استھزاء زعم محمدا نہ یعل من یو من بہ ومن یکفر ممن لم یخلق بعد و نحن معہ وا یعرفنا فبلغ ذلک رسول اللہ علیہ السلام فقام علی المنبر فحمد اللہ و اثنی علیہ ثم قال ما بال اقوام طعنوا فی علمی لا تسئلونی عن شئی فیما بینکم و بین الساعۃ الا انباتکم بہ۔ 
“ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیش فرمائی گئی اپنی اپنی صورتوں میں مٹی میں جس طرح کہ حضرت ادم پ پیش ہوئی تھی ہم کو بتا دیا گیا کون ہم پر ایمان لاوے گا اور کون کفر کرے گا ۔ یہ خبر منافقین کو پہنچی تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی پیدائش سے پہلے ہی کافر و مومن کی خبر ہو گئی ہم تو ان کے ساتھ ہیں اور ہم کو نہیں پہچانتے یہ خبر حضور علیہ السلام کو پہنچی تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا کہ قوموں کا کیا حال ہے کہ ہمارے علم میں طعنے کرتے ہیں اب سے قیامت تک کسی چیز کے بارے میں جو بھی تم ہم سے پوچھو گے ہم تم کو خبر دیں گے۔“
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ حضور علیہ السلام کے علم میں طعنے کرنا نافقوں کا طریقہ ہے۔ دوسرے یہ کہ قیامت تک کہ واقعات سارے حضور علیہ السلام کے علم میں ہیں ۔ 

19۔ مشکوٰۃ کتاب الفتن باب الملاحم فصل اول میں مسلم سے بروایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ 
انی لا عرف اسماء ھم و اسماء اباھم و الوان خیولھم خیر فوارس اومن خیر فوارس علی ظھر الارض ۔ 
“ ہم ان کے ( دجال سے جہاد کی تیاری کرنیوالوں ) نام ان کے باپ دادوں کے نام ان کے گھوڑوں کے رنگ پہچانتے ہیں وہ روئے زمین پر بہترین سوار ہیں ۔“ 
20 ۔ مشکوٰۃ شریف باب مناقب ابی بکر و عمر ین ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بار گاہ رسالت میں عرض کی کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں تاروں کے برابر ہوں فرمایا ہاں وہ عمر ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت تک کے سارے لوگوں کے تمام ظاہری اور پوشیدہ اعمال کی پوری خبر ہے اور آسمانوں کے تمام ظاہر و پوشیدہ تاروں کا بھی تفصیلی علم ہے۔ حالانکہ بعض بعض تارے اب تک فالسفہ کو سائنسی آلات سے بھی معلوم نہ ہو سکے ۔ حضور علیہ السلام نے ان دونوں چیزوں کو ملاحظہ فرما کر فرمایا کہ عمر کی نیکیاں تاروں کے برابر ہیں ۔ دو چیزوں کی برابری یا کمی بیشی وہ ہی بتا سکتا ہے جسے دونوں چیزوں کا علم بھی ہو اور مقدار بھی معلوم ہو
ان کے علاوہ بہت سی احادیث پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مگر اختصارا اسی قدر پر کفایت کی گئی ان احادیث سے اتنا معلوم ہوا کہ تمام عالم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس طرح ہے جیسے اپنی کف دست۔ خیال رہے کہ عالم کہتا ہیں ما سواء اللہ کو تو عالم اجسام ، عالم ارواح ، عالم امر، عالم امکاں عالم ملائکہ، عرش و فرش غرضیکہ ہر چیز پر حضور علیہ السلام کی نظر ہے اور عالم میں لوح محفوظ بھی ہے۔ جس میں سارے حالات ہیں ۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ اگلے پچھلے سارے واقعات پر بھی اطلاع رکھتے ہیں ۔ تیسرے یہ معلوم ہوا کہ تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر جو کام کئے جاویں وہ بھی نگاہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوشیدہ نہیں کہ عبد اللہ کے والد حذیفہ کو بتا دیا۔ چوتھے یہ معلوم ہوا کہ کون کب مرے گا ۔ کہاں مرے گا۔ کس حال میں مرے گا۔ کافر یا مومن، عورت کے پیٹ میں کیا ہے یہ بھی حضور علیہ السلا پر مخفی نہیں غرضیکہ ذرہ ذرہ قطرہ قطرہ علم میں ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.