Showing posts with label Deoband Ke Lateefey. Show all posts
Showing posts with label Deoband Ke Lateefey. Show all posts

Friday, February 08, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-1]

متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 
لطائف دیو بند 
تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔
انتساب

میں ‘‘التبصرۃ علے الھدایۃ‘‘ کی تالیف میں مصروف تھا۔ 
دفعتا ایک شخص میرے کمرے میں آیا۔ 
اور کہنے لگا۔ 
میں اس راز کو نہ سمجھ سکا کہ سنّیوں کے دو گروہ آپس میں کیوں لڑتے ہیں ، کیا تفریق اتحاد سے بہتر ہے ؟ 
اچانک اس سوال کا کوئی جواب دئیے بغیر میں نے اسے لطائف دیوبند کی غیر مطبوعہ کاپی دے دی اور کہا: 
‘‘
اگر آپ کو دینی اطمینان و سکون حاصل کرنا ہے تو اسے بغور پڑھیں‘‘ 
ایک دن میری عدم موجودگی میں میرے ایک ساتھی کو لطائف دیوبندی کی کاپی واپس کرتے ہوئے یہ کہا: 
‘‘
لطائف دیوبند‘‘ کو پڑھنے سے آنکھیں کھل گئیں اور میں دین و یقین کو پاگیا‘‘۔ 
اور پھر چلا گیا۔ 
اگر مجھے اس کا نام معلوم ہوتا تو نام لکھ کر اسکی طرف منسوب کرتا- 
سیّد محمد ہاشمی

وجہ تالیف
یہ بات درجہ مشاہدہ کو پہونچ کر ایک ناقابل تروید حقیقت بن چکی ہے کہ اکثر علمائے کرام کی جنگ نہ تو جارحانہ ہے اور نہ ہی مدافعانہ بلکہ مکالمانہ۔ 
اور اب یہی مکالمانہ روش ترقی کر کے مناظرانہ شکل اختیار کرتی جا رہی ہے غالبًا یہی وجہ ہے کہ اکثر حضرات علمائے دیو بند کے بارے میں مختلف الخیال ہیں ۔اس لئے میں نے سخت ضرورت محسوس کی کہ علمائے دیو بند کے صحیح موقف کی وضاحت کی جائے تا کہ ان کے افکار و نظریات کی تصویر سامنے آ جائے اور اختلافات کا بڑھتا ہوا سیلاب تھم جائے۔ 
اس ضمن میں بعض ایسی بھی شخصیتیں زیر بحث آگئی ہیں جن کا علمائے دیو بند سے یا تو بالکل تعلق نہیں ہے یا کچھ تعلق ہے ۔ 
عالم الغیب والشھادۃ خوب جانتا ہے کہ میری تالیف کا مقصد صرف یہ ہے کہ دو بچھڑے ہوئے بھائی گلے مل جائیں ، باب الاختلافات ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے اور ایک ایسا ماحول بن جائے جہاں سبھی لوگ ہم خیال و ہم عقیدہ ہوں۔ 
ربّ الارباب کی بارگاہ بے کس پناہ میں میری یہ دعا ہے کہ اسے قبول فرمائے اور متلاشیان حق کے لئے ذریعہ ہدایت بنائے۔ آمین

سیّد محمد ھاشمی

لطیفہ نمبر 1:

میں پہلے ملحد، بد باطن ، منکر خدا اور اسلام دشمن تھا۔ مولانا مودودی کا اعتراف

ماہنامہ ‘‘ انوار اسلام‘‘ فروری 63ء رام نگر وارانسی، جس کے ایڈیٹر جماعت اسلامی کے رکن جناب مولوی ابو محمد امام الدین رام نگری ہیں۔ وہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسین قریشی کا قلمبند کیا ہوا بعنوان ‘‘ملاقات نامہ‘‘ سے نقل کرتے ہوئے صفحہ 17 کالم 2 پر فرماتے ہیں : 
میں نے ( مولانا مودودی نے) قرآن و حدیث کا براہ راست مطالعہ شروع کیا۔ حقائق و معارف کھلتے گئے۔ بے یقینی کا غبار دھلتا چلا گیا۔ میں نے دوسرے ادیان کی کتابوں کا بھی مطالعہ کر رکھا تھا۔ ادیان کے تقابلی مطالعہ نے مجھے اک گونہ اطمینان عطا کیا۔ دراصل اب میں نے اسلام سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا مجھے اس کی حقانیت پر کامل یقین تھا
ص 17 ماہنامہ انوار اسلام رام نگر بنارس فروری 63ء (

اگر یہ صحیح ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودودی صاحب نےشرعی اصول و ضوابط کے طوق کو گلے سے اتار کر آزادانہ اور عامیانہ روش کیوں اپنائی ؟ جس کا اعتراف خود مودودی صاحب کو ہے 
میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ ہی حنفیّت یا شافیعت ہی کا پابند ہوں۔
رسائل و مسائل جلد 1 ص185 (

پھر اسی عامیانہ روش پر چلتے ہوئے قوانین قرآن اور الہٰی نظام کا یوں مذاق اڑاتے ہیں : 
جہاں معیار اخلاق بھی اتنا پست ہو کہ نا جائز تعلقات کو کچھ معیوب نہ سمجھا جاتا ہو ، ایسی جگہ زنا و قذف کی شرعی حد جاری کرنا بلا شبہ ظلم ہے
تفہیمات جلد دوم 281(

یہیں تک نہیں بلکہ رسول مقبول کی عظمتوں اور رفعتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں 
‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا ، اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمّت ، ضعیف الارادہ، اور ناقابل اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے
تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں ص 17(

کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرب میں جو زبر دست کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس میں خدا کی غیبی تائیدوں ،حضور اکرم کی پیغمبرانہ صلاحیتوں،کائنات گیر عظمتوں اور کلمئہ حق کی روشن صداقتوں کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ 

حسن اتفاق سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی استعداد کے لوگ مل گئے تھے اس لئے حضور کامیاب ہو گئے۔ اگر خدا نخواستہ اس طرح کے لوگ نہ ملے ہوتے تو معاذاللہ حضور کی ناکامی رکھی ہوئی تھی۔
)جماعت اسلامی ص41،42،(

اور اس ‘‘الہی نظام ‘‘ کے نفاذ میں خدا اور رسول کو معاذ اللہ شکست فاش ہوئی --------- الحاصل ساری خوبی مومن بننے والوں کی تھی۔ مومن بنانے والے کے اندر کوئی کمال نہ تھا- 

اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں جماعت اسلامی کے ایک اجتماع عام میں امیر جماعت مولانا مودودی کی تقریر کو سن کر بعض افراد و ارکان جماعت سرگرداں و پریشان ہوئے جس کا اظہار بصورت مراسلہ یوں کیا جاتا ہے 

اختتامی تقریر کے بعض فقرے میرے بعض ہمدرد رفقاء کے لئے باعث تکدر ہی ثابت ہوئے اور دوسرے مقامات کے مخلص ارکان و ہمدردوں میں بد دلی پھیل گئی ۔ 
)رسائل و مسائل جلد 1 ص 231(

مولانا مودودی صاحب کی نازک خیالی اور ذہنی بالاتری کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے اس لئے شکایت کو نرم سے نرم تر لہجے میں ادا کرنے کے لئے یہاں تک لکھا جاتا ہے 
تقریر کی صحت میں کلام نہیں صرف انداز تعبیر اور طرز بیان سے اختلاف ہے
)ایضاً(

ایک رکن جماعت کتنے نیاز مندانہ لب و لہجہ میں امیر جماعت کے حضور اپنے مافی الضمیر کو پیش کر رہا ہے پھر بھی امیر جماعت کی نخوت فکر برداشت نہ کر سکی کہ میری ذات کو انانیت کی دلفریب وادیوں سے ہٹا کر تنقید کی سان پر رکھا جائے ۔ 

وہ جو کل قرآن کے بعض قوانین کو ظلم سے تعبیر کر کے مسرور ہو رہا تھا۔ اور تنقید کے پس پردہ انبیاء اور اولیاء کی عظمتوں سے تمسخر کرنے میں بھی نہیں چوکتا تھا۔ آج خود کو جب تنقید کی کسوٹی پر محسوس کرتا ہے تو مشعل ہو کر دلدادگان جماعت پر یوں برہم ہوتا ہے کہ قلم کی شرافت و سنجیدگی بھی برقرار نہ رہ سکی ۔ 

جنہیں میری تقریر پر اعتراض کرنے اور بد دلی اور رنجش کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا وہ آخر کس قدر و عزّت کے مستحق ہیں کہ ان کے جذبات و خیالات کا لحاظ کیا جائے ۔ ایسے لوگ دراصل بندہ حق نہیں بلکہ بندہ نفس ہیں۔
رسائل و مسائل جلد 1 ص 234(

مزید فرماتے ہیں:- 
دراصل جو باتیں میری اس تقریر کو سننے کے بعد اس گروہ کے لوگوں نے کی ہیں۔ ان سے تو مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے کہ یہ لوگ فے الواقع دین کے کسی کام کے نہیں ، ان کا ہمارے قریب آنا ، ان کے دور رہنے بلکہ مخالفت کرنے سے بھی ذیادہ خطرناک ہے‘‘ ( ایضاً) 

گویا وہ شخص جو تلخ آمیز حقیقتوں کو بصد عجز و نیاز مولانا مودودی کی بارگاہ عالی میں پیش کرنے کی جسارت کرے، مولانا موصوف کے نزدیک ‘‘بندہ حق نہیں‘‘ بلکہ‘‘ بندہ نفس‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کے کسی کام کا نہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا جماعت میں رہنا مخالفت کرنے سے زیادہ خطرناک ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب یہی تو ہے کہ وہ شخص قرآن و رسول پر تنقید کرنے کے بجائے ایسی ذات پر تنقید کرنے لگا جو بزعم خود ‘‘ تنقید سے بالا تر ‘‘ ہے۔ 

تنقید کے ریت سے تعمیر کئے ہوئے محل کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مودودی تحریرات اور ان کے تیار کردہ لٹریچر کے نتائج آیا اسلامی بر آمد ہوتے ہیں یا غیر اسلامی؟ 

جماعت اسلامی کا مستند ترین ماہنامہ ‘‘زندگی ‘‘ملاحظہ فرمائیں
لٹریچر دیکھنے سے مجھ میں یہ انقلاب رونما ہوا ہے کہ اب میں صحابہ کے بعد سے آج تک سوائے مودودی صاحب کے کسی شخص کو کامل الایمان نہیں سمجھتا۔
زندگی اکتوبر 1949ء(

گویا مجتہدین اربعہ امام ابو حنیفہ،امام مالک، امام شافعی ، امام حنبل ہوں ۔ یا حضرت عمربن عبدالعزیز، سیّدنا غوث الاعظم، مجّدد الف ثانی شاہ عبد الحق محقق دہلوی،شاہ ولی اللہ محدث اور شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی ہوں- سب کے سب ناقص الایمان ہیں۔ اگر صحابہ کے بعد کوئی کامل الایمان ہے تو صرف مودوی صاحب ۔ بہر حال میں موصوف کا شکریہ ضرور ادا کروں گا۔ کیونکہ وہ صحابہ پر ترس کھا گئے ۔ ورنہ میں ڈرنے لگا کہ فرط محبت و عقیدت میں وہ مودودی صاحب کو افضل البشر بعد الانبیاء نہ کہہ بیٹھیں ۔ آگے چل کر مزید بے نقاب ہوتے ہیں:- 

میں خواجہ معین الدین چشتی کے مسلک کو غلط تصور کرتا ہوں بڑے بڑے مشاہیر امّت کا کامل الایمان ہونا میری نظر میں مشتبہ ہو گیا ہے۔
زندگی، اکتوبر 1949ء(

بڑے بڑے مشاہیر امّت سے بدگمان ہونا، ان کو ناقص الایمان قرار دے کر مودودی صاحب کو نہ صرف کامل الایمان بعد الصحابہ باور کرانا بلکہ مولانا عامر عثمانی کی بولی یہاں تک غلو کرجانا کہ:- 

وہ شخص مولانا مودودی پر کیا چوٹ کرے گا جس نے مولانا موصوف کی خدادادعظمت و عبقریت کے آستانے پر دن کی روشنی میں سجود و نیاز لٹائے ہوں ۔
)ماہنامہ تجلی فروری 1963 ء ص 54(

عقیدت کا یہ خمار ‘‘ایمان شکن‘‘ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ یہی مولانا عامر ہیں جنہیں ایمان کے سائے میں شرک کے صنم خانے نظر آتے ہیں اور جن کے عقیدے میں اللہ والوں کی چوکھٹ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہی سو برس کا ایمان غارت ہو جاتا ہے۔ 

لیکن قیامت ہے کہ وہی مولانا مودودی کےآ ستانہ عظمت پر دن کی روشنی میں سجود و نیاز لٹا رہے ہیں اور ان کے عقیدہ توحید کو ذرا سے ٹھیس بھی نہیں لگتی۔ 

صفحہ ہستی پر شاید ہی کوئی ایسا مسلمان جو یہ نہ جانتا ہو کہ رسول خدا پر ایمان لائے اور ان کی رسالت وصداقت کی تصدیق کئے بغیر بڑے سے بڑے عمل کا کوئی نفع آخرت میں مرتب نہیں ہو سکتا ۔ لیکن مودودی صاحب منفعت اخروی کے لئے رسول عربی کی تصدیق کو قطعاً ضروری نہیں سمجھتے - فرماتے ہیں 

جو لوگ جہالت و نابینائی کے باعث رسول عربی کی صداقت کے قائل نہیں ہیں مگر انبیائے سابقین پر ایمان رکھتے ہیں اور صلاح و تقوٰی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان کو اللہ کی رحمت کا اتنا حصّہ ملے گا کہ ان کی سزا میں تخفیف ہو جائے گی
)تفہیمات جلد 1 ص168(

ًمیں چیلنج کرتا ہوں کے قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس عقیدے کی سند موجود ہو تو پیش کیجئے کہ جو اہل کتاب جہالت و نابینائی کے باعث رسول عربی ہر ایمان نہ لائیں اور ان کا خاتمہ ہو جائے تو وہ مرنے کے بعد کسی درجے میں بھی رحمت الہی کے سازگار ہوں گے اور انہیں اپنے عمل کا نفع آخرت میں ملے گا ۔ 

کیا اس مقام پر مودودی صاحب کتاب و سنّت کو نظر انداز کر کے خالص اپنی ذہنی دلچسپیوں سے کام نہیں لے رہے ہیں ؟ کیا مودودی صاحب اپنے قیاسات و ظنیات سے اس عقیدے کی تشکیل نہیں کر رہے ہیں؟ 

ان حقائق کی روشنی میں ماہنامہ ‘‘ انوار اسلام‘‘ میں مندرج مودودی صاحب کے ذیل کے فقرے ، کیا لغو ، خلاف واقعہ اور مہمل قرار نہ پائیں گے 

میں نے قرآن وحدیث کا براہ راست مطالعہ شروع کیا۔ حقائق ومعارف کھلتے چلے گئے ۔ بے یقینی کا غبار دھلتا چلا گیا۔ تا آخر ( 
)ماہنامہ انوار اسلام فروری 63ء ص17(

بلکہ بات وہی صحیح ہے جس کا اعتراف خود مودودی صاحب نے کیا ہے جو مذکورہ بالا ماہنامہ میں متذکرہ بالا جملوں سے پہلے درج ہے موددوی صاحب فرماتے ہیں 

جب میں کالج کی تعلیم سے فارغ ہوا تو اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال کی تھی ۔ اس کے بعد میں نے آوارہ خوانی شروع کی ۔ جو کچھ ملا اسے پڑھ ڈالا ۔ ہر موضوع اور ہر عنوان پر ہر قسم کی کتابیں پڑھیں ۔ اس آوارہ خوانی کا نہایت خطرناک نتیجہ برآمد ہوا۔ خدا اور آخرت پر سے یقین اٹھتا چلا گیا۔ تشکک وارتیاب سے ایمان و یقین کی بنیادیں منہدم ہو گئیں خدا کا وجود سمجھ میں نہ آتا تھا تمام دینی عقائد لغو اور غیر منطقی نظر آتے تھے
انوار اسلام نگراں رکن جماعت ابو محمد امام الدین رام نگری فروری 63ء ص17(

ایسی حا لت میں اگر مودودی صاحب قرآنی قوانین کو ‘‘ بلا شبہہ ظلم ‘‘ اور خدا کی غیبی تائیدوں، رسول کی پیغمبرانہ صلاحیتوں کو صحابہ کرام صلے اللہ تعا لٰی علٰی نبیہم و علیہم وبارک وسلم کا مرہون منت کہہ بیٹہں یا اپنے اوپر جائز تنقید ہوتے ہوئے دیکھ کر مشتعل ہو جائیں اور لوگوں کو شریعت سے آزادی اور بے قیدی کا کبھی کبھار درس دیں تو دراصل یہ اسی آوارہ خوانی کا نتیجہ ہے جس نے انہیں ملحد ، بد باطن منکر خدا اور اسلام دشمن بنایا۔

لطیفہ نمبر 2 :-

مہتمم دیوبند کے خلاف مفتی دیوبند کا فتوٰی

ملحد، بے دین، عیسائیت و قادیانیت کی روح

قاری طیب جب تک توبہ نہ کریں ان کا بایئکاٹ کیا جائے، ہمارے علماء کے مشاغل دینیّہ کی عبرت انگیز مثالیں ! 
2
جنوری ہفت روزہ ‘‘ دور جدید‘‘ دہلی کی موٹی موٹی سرخیاں ! 
اسی فتوے کے بارے میں جناب ابو محمد امام الدین رام نگری اپنے ماہنامہ انوار اسلام ص7 تحریر فرماتے ہیں :- 
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سرخیاں کتنی ہولناک اور پریشان کن ہیں ‘‘دور جدید‘‘ کی اسی اشاعت میں دوسری جگہ استفتاء اور صدر مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا سیّد مہدی حسن صاحب کا فتوٰی بھی نظر سے گزرا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا قاری طیب صاحب کی کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے ‘‘اسلام اور مغربی تہذیب ‘‘ اس کتاب کے بعض اقتباسات سے کسی نے استفتاء مرتب کر کے مولانا مفتی مہدی حسن صاحب کے پاس بھیجدیا- اور کتاب کا حوالہ نہیں دیا ، مفتی صاحب نے شریعت کا حکم بیان کر دیا۔ بعد ازاں مستفتی نے استفتاء اور فتوٰی اس وضاحت کے ساتھ کہ اقتباسات حضرت مہتمم صاحب کی کتاب کے ہیں۔ اخبار ‘‘دعوت‘‘ میں شائع کیا۔
انوار اسلام فروری 63ء ص7 کالم2(

اب اخبار ‘‘ دعوت‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ اگر کوئی عالم دین ‘‘ فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراً سویاً کی تشریح اور اس سے درج ذیل نتائج اخذ کرتے ہوئے اس طرح لکھے:
اقتباس 1 :- یہ دعوٰی تخیل یا وجدان محض کی حد سے گزر کر ایک شرعی دعوٰی کی حیثیت میں آجاتا ہے کہ مریم عذرا کے سامنے جس شبیہہ مبارک اور بشر سویّ نے نمایاں ہو کر پھونک ماردی وہ شبیہ محمدی تھی۔
اس ثابت شدہ دعوے سے مبیّن طریق پر خود بخود کھل جاتا ہے کہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا اس شبیہہ مبارک کے سامنے بمنزلہ زوجہ کے تھیں جب کہ اس کے تصرف سے حاملہ ہوئیں۔ 
اقتباس2:- پس حضرت مسیح کے ابنیت کے دعوے دار ایک ہم بھی ہیں مگر ابن اللہ مان کر نہیں بلکہ ابن احمد کہکر خواہ وہ ابنیت تمثالی ہی ہو۔
اقتباس3:- حضور تو بنی اسرائیل میں پیدا ہو کر کل انبیاء کے خاتم قرار پائے اور عیسٰی علیہ السلام بنی اسرائیل میں پیدا ہو کر اسرائیلی انبیاء کے خاتم کئے گئے جس سے ختم نبوت کے منصب میں ایک گونہ مشابہت پیدا ہو گئی۔ ( ابو لد سر لابیہ)

اقتباس4:- بہرحال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوٰی کو بارگاہ محمدی سے خَلقاً و خُلقاً ،رتباً ومقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے۔ 

براہ کرم مندرجہ بالا اقتباسات کے متعلق قرآن حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اس کی صحت اور عدم صحت کو ظاہر کر کے بتائیں کہ ایسا شرعی دعوٰی کرنے والا اہلسنت والجماعت کے نزدیک کیسا ہے؟ (المستفتی) 

الجواب :- جو اقتباسات سوال میں نقل کئے ہیں اس کا قائل قرآن عزیز کی آیات میں تحریف کر رہا ہے بلکہ در پردہ قرآنی آیات کی تکذیب اور ان کا انکار کر رہا ہے ، جملہ مفسرین نے تفاسیر میں تصریح کی کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے ۔ وہ شبیہہ محمدی نہ تھی ، آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے کبھی یہ نہ سمجھا کہ ان مثل عیسٰی عند اللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون ۔ کلمۃ القاھا الٰی مریم و روح منہ، فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا ( الٰی قولہ تعالٰی) فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا۔ قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ اٰیۃ للناس الٰی اٰخر الاٰیات۔ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین کے قائل تھے اور اسی پر اجماع امت ہے کہ وہ فرشتہ تھا جو حضرت مریم کو خوشخبری سنانے آیا تھا۔ شخص مذکور ملحد و بے دین ہے اور اس ضمن میں عیسائیت کے عقیدے عیٰسی ابن اللہ کو صحیح ثابت کرنا چاھتا ہے جس کی تردید علی رؤس الاشہاد قرآن نے کی ہے نیز لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسٰی بن مریم ( الحدیث) 

ببانگ دہل شخص مذکورہ کی تردید کرتی ہے ۔ 

الحاصل یہ اقتباسات قرآن و حدیث و جملہ مفسرین اور اجماع امت کے خلاف ہیں مسلمانوں کو ہرگز اس طرف کان نہ لگانے چاہئے بلکہ ایسے عقیدے والے کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ جب تک توبہ نہ کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم

سیّد مہدی حسن مفتی دارالعلوم دیوبند

اب سنئے کہ عبارت کس کتاب کی ہے اور کس عالم کے قلم سے یہ باتیں نکلی ہیں؟ اسلام اور مغربی تہذیب کے عنوان سے قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نئی کتاب چھپی ہے۔ اسی سے یہ اقتباسات لئے گئے ہیں اور ان ہی اقتباسات پر دارالعلوم کے مفتی صاحب نے فتوٰی یہ دیا کہ ایسے عقیدے والے کا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ) دعوت سہ روزہ ایڈیشن 22 دسمبر 1962 ء صفحہ اول بعنوان ‘‘خبر و نظر‘(

نبی کریم کے خلاف صف آرا ہونے والوں کا سفینہ ء حیات جب طوفان خود فریبی میں ہچکولے کھانے لگا تو اس ہولناک صورت حال سے پریشان ہو کر حلقہ بگو شان دیوبند یہاں تک کہنے پر مجبور ہوئے۔
استفتاء اور فتوے کی اشاعت اور اس بات کے معلوم ہوجانے کے بعد کہ فتوٰی مولانا محمد طیب کی کتاب کے متعلق ہے ہم نہیں جانتے کہ حضرت مولانا اور مفتی صاحب اور دارالعلوم پر اس کا رد عمل کیا ہوا؟ لیکن مولانا کے افکار و نظریات کو دیکھ کر ہمیں بڑی وحشت ہوئی۔ معلوم نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے، اور اسلام و مغربی تہذیب میں مفاہمت کا یہ کون سا طریقہ ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے؟ 

ہمیں حیرت ہے کہ مولانا محمد طیب صاحب کے دماغ میں ایسی باتیں کیسے پیدا ہوئیں، کیسے قلم سے نکلیں اور کیسے ان کی اشاعت ہو گئی؟ 

ناشر بھی تو عالم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہتمم دارالعلوم کے خلاف مفتی دارالعلوم کا فتوٰے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتنی قابل افسوس اور عبرتناک صورت حال ہے ۔ ( انوار اسلام فروری 63ء ص8 )

بہر حال مفتی دارالعلوم کے فتوے کی روشنی میں مہتمم دارالعلوم مولانا محمد طیب کی شرعی پوزیشن یہ متعیّن ہوتی ہے :- 
1:
قرآن عزیز کی آیات میں تحریف کرنے کے سبب محرف قرآن ہیں۔
2:
بلکہ در پردہ قرآنی آیات کی تکذیب و تردید کے سبب منکر کتاب اللہ اور مکذب آیات قرآن ہوئے۔
3:
قاری صاحب موصوف ملحد و بے دین ہیں۔
4:
عیسائیت اور قادیانیت کی روح ان کے جسم میں سرایت کئے ہوئے ہے ۔
5:
وہ عیسائیت کے عقیدے ‘‘عیسٰی ابن اللہ‘‘ کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
6:
مہتمم صاحب موصوف کے یہ اقتباسات قرآن وحدیث اور جملہ مفسرین اور اجماع امت کے خلاف ہیں۔ 
7:
ان کو بائیکاٹ کرنا چاہئے جب تک توبہ نہ کریں۔

مہتمم صاحب موصوف کی اس بے دینی اور الحاد پسندی پر پردہ ڈالنے کے لئے موصوف کےمحب صادق ابو محمد امام الدین رام نگری یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ 

‘‘
دعوت‘‘ میں فتوٰے کی اشاعت کے تقریباً ایک ماہ کے بعد یہ شذرہ لکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک جناب مولانا محمد طیب صاحب یا جناب مفتی صاحب کا بیان بھی شائع نہیں ہوا۔ ضرورت ہے کہ کتاب کی اشاعت روک دی جائے ۔ ( انوار اسلام فروری 63ء ص8 ) 

غور فرمائیے ! قاری صاحب پر الحاد و بے دینی کا فتوٰے لگے۔ آج ساتواں سال ہے ۔ یعنی 1962ء میں قاری صاحب ملحد و بے دین قرار دیئے گئے اور آج 1968ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔ پھر بھی نہ قاری صاحب کو علمائے دیوبند نے بائیکاٹ کیا اور نہ ہی اساتذہ دارالعلوم ان سے قاطع تعلق ہوئے ۔ درانحالے کہ ابھی تک قاری طیب صاحب نے اعلان توبہ نہ کرکے اسی ملحدانہ اور بے دینی کی روش کو اپنا رکھا ہے اس کا کھلا اور واضح مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا شخص جو صدر مفتی دارالعلوم دیو بند کے فتوٰے کی روشنی میں ‘‘ ملحد اور بے دین‘‘ ہو۔ محرف قرآن و مکذب آیات ربانیہ ہو ۔ نیز عیسائیت وقادیانیت کی روح ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے انتظام و اہتمام کی مسند عالی پر فائز ہو سکتا ہے اور اس منصب کا مستحق اسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ایسی صورت میں خود دارالعلوم دیوبند کو، کیا اسلامی اور روحانی ادارہ قرار دیا جاسکتاہے۔جہاں کا مہتمم و منتظم خود وہیں کے صدر مفتی کی نظر میں ‘‘ ملحد و بے دین ‘‘ ہو
 فیصلہ بذمئہ ناظرین ہے۔

ٌلطیفہ نمبر 3 :-

سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ایک میلاد خواں نے مندرجہ ذیل شعر محفل مولود میں نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی نعت میں پڑھا ۔ شعر: 
جو چھو بھی دیوے سگ کوچہ تیرا اسکی نعش 
تو پھر بھی خلد میں ابلیس کا بنائیں مزار 
---------------جواب----------------------

1:
یہ شعر پڑھنا حرام اور کفر ہے ، اگر یہ سمجھ کر پڑھے کہ اس کا اعتقاد اور پڑھنا کفر ہے تب تو اس کا ایمان باقی نہ رہا اور اگر یہ علم نہ ہو تو اس کا پڑھنا اور اعتقاد کفر ہے ، یہ شخص فاسق اور سخت گنہگار ہے اس کو تابہ مقدور اس حرکت سے روکنا شرعاً لازم ہے۔
 احمد حسن 15 شوال 1369 ھ سنبھل

2:اس شعر کا مفہوم کفر ہے، لکھنے والا اور عقیدے سے پڑھنے والا خارج از ایمان ہے ایسے صریح الفاظ میں تا ویل کی گنجائش نہیں ۔
 ظہور الدین سنبھل 
3:-
کسی بے ہودہ اور جاہل آدمی کا شعر ہے ،بیوقوف اور بے ہودہ لوگ ہی ایسے مضمون سے محفوظ ہوتے ہیں، اگر یہ اس کا عقیدہ ہے تو کفر ہے۔ دیندار آدمی اس کے سننے سے بھی احتیاط کرنا چاہئیے۔
 سعید احمد سنبھل 
4:-
اس شعر کا نعت میں پڑھنا اور سننا دونوں کفر ہے۔
 وارث علی عفی عنہ سنبھل

5:-تینوں حضرات دام ظلہم العالی کے جوابات کی میں بالکل موا موافقت کرتا ہوں
)محمد ابراہیم عفی عنہ مدرسۃ الشرع سنبھل(

6:-
شعر مذکور اگر چہ نعت میں ہے لیکن حد شرع سے باہر ہے ایسا شعر نہ کہنے والے کو کہنا اور نہ پڑھنے والوں کو پڑھنا جائز ہے یہ غلو اور قبیح ہے محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ۔ دہلی 

نمبر 2:- الف فتوٰے 

مذکورہ شعر اگر چہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں شاعر نے کہا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ کہ شاعر شرعی اصول سے واقف نہیں ہے شعر میں حد درجہ کا لغو ہے جو اسلامی اصول کے کسی طرح مناسب نہیں ہے شاعر کافر اس وجہ سے نہیں ہو سکتا کہ شعر کا پہلا مصرع شرط ہے (جو) معنٰی میں اگر کے ہے اور محال چیز کو فرض کر رکھا ہے۔ شرط کا وجود محال ہے اسلئے دوسرا مصرعہ جو بطور جزا کے ہے۔ اس کا مترتب ہونا بھی محال ہے مگر شعر نعت رسول سے بہت گرا ہوا اور رکیک ہے۔ ایسے غلو سے شاعر کو بچنا فرض اور ضروری ہے۔ ایسے اشعار سے آپ کی تعظیم نہیں ہوتی بلکہ توہین کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے ، یہ صحیح ہے کہ قرآن کے حکم کے مطابق ابلیس جنت میں نہیں جائے گا۔ مگر اس شعر کے قائل کو کافر نہیں کہہ سکتے کہ اس میں محال کو فرض کر رکھا ہے جب تک صحیح توجیہہ اس کے کلام کی ہو سکتی ہے اس وقت تک اس کے قائل کو کافر کہنا جائز نہیں۔ ایسے اشعار مولود میں پڑھنا نہیں چاہئے - واللہ اعلم 
کتبہ ۔ سیّد مہدی حسن صدر مفتی دارالعلوم دیوبند 13 / 2 70ھ جمعہ 

یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ جس شعر پر مذکورہ مفتیان دیوبند نے کفر و ضلالت کے فتوٰے صادر فرمائے ہیں۔ وہ شعر بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کا ہے گویا مذکورہ مفتیوں نے اپنے ‘‘ قاسم العلوم والخیرات‘‘ کو ہی کافر و فاسق قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو شعر مع حوالہ ۔۔،

جو چھو بھی دیوے سگ کوچہ تیرا اسکی نعش 
تو پھر تو خلد میں ابلیس کا بنائیں مزار 

)
ماخوذ از قصائد قاسمی مصنفہ مولانا قاسم نانوتوی ص77 مطبوعہ ساڈھورہ ضلع انبالہ(

مختصر یہ کہ مولانا قاسم نانوتوی مذکورہ مفتیوں کی نظر میں ،
1:-
کافر، بے ایمان، فاسق، اور سخت گنہگار ہیں۔
)عالم دیوبند مفتی احمد حسن سنبھل(
2:-
مولانا کے شعر کا مفہوم کفر، اس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔
عالم دیوبند مفتی ظہور الدین سنبھل(
3:-
مولانا بے ہودہ اور جاہل آدمی ہیں۔
عالم دیوبند مفتی سعید احمد سنبھل(
4:-
مولانا کے اس شعر کو نعت میں لکھنا اور پڑھنا دونوں کفر۔
عالم دیوبند مفتی وارث علی سنبھل(
5:-
مولانا کا کافر، بے ہودہ اور جاہل ہونا بالکل صحیح ہے۔
عالم دیوبند مفتی محمد ابراہیم مدرسۃ الشرع(
6:-
مولانا کا یہ شعر حد شرع سے باہر ، غلو اور قبیح ہے۔
عالم دیوبند مفتی محمد کفایت اللہ، دہلی(

7:-
مولانا شرعی اصول سے ناواقف، حد درجہ غالی اور توہین رسول کے مرتکب ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت گرا ہوا اور رکیک ہے۔
صدر مفتی دارالعلوم دیوبند سیّد مہدی حسن صاحب(

لطیفہ نمبر 4 :- 
حفظ الایمان کی ایک متنازعہ عبارت کا واحد حل !

عبارت درج ذیل ہے،

‘‘
پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدّسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بہ قول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل ۔ اگر بعض علوم غیبیہ ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے ایسا علم تو زید و عمر و بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ بہائم کے لئے حاصل ہے ‘‘ 
حفظ الایمان مصنفہ مولانا تھانوی ص 7 (اس عبارت سے ایک معمولی اردو جاننے والا باآسانی سمجھ لے گا کہ مولانا تھانوی کے نزدیک نہ صرف فخر عالم غیب داں بلکہ زید و عمر و بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ بہائم بھی غیب داں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر علمائے دیوبند کے مطاع عالم مخدوم الکل مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں !یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو علم غیب تھا صریح شرک ہے ۔
فتاوٰی رشیدیہ کامل کتب خانہ رحیمیہ دیو بند ص 96(مولانا گنگوہی کے اس فتوٰے کی روشنی میں مولانا تھانوی کے مشرک ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔ بہر حال مسلمانوں کا ایک گروہ اس عبارت کی تائید میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر صحیح اور درست ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے اور دوسرا گروہ اسی شدومد کے ساتھ تردید میں مصروف ہے۔ چناچہ بات بڑھتی گئی اور نتیجہ اچھا ، برا نکلتا رہا۔ 
اس سلسلہ میں میری تحقیق یہ ہے کہ مولانا مدنی، مولانا مرتضٰی حسن، اور مولانا منظور احمد نعمانی کی تاویلات و توضیحات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہی صحیح اور درست ہے چناچہ مولانا مدنی فرماتے ہیں !حضرت مولانا (تھانوی) عبارت میں لفظ ‘‘ایسا‘‘ فرمارہے ہیں لفظ ‘‘اتنا‘‘ تو نہیں فرماریے ہیں۔ اگرلفظ ‘‘ اتنا‘‘ ہوتا تو اس وقت البتہ احتمال ہوتا کہ معاذاللہ حضور علیہ السلام کے علم کو اور چیزوں کے برابر کر دیا۔
الشہاب الثاقب ص 11 مطبع قاسمی دیوبند (

آگے چل کر فرماتے ہیں ۔ 

‘‘
اس سے بھی قطع نظر کر لیں تو لفظ ایسا ‘‘تو کلمہ تشبیہہ کا ہے ‘‘ 

مولانا مدنی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ ‘‘ عبارت مذکورہ ‘‘ میں لفظ ‘‘ ایسا ‘‘ تشبیہہ کے لئے ہے، اگر ‘‘ اتنا ‘‘ یا ‘‘اس قدر‘‘ کے معنٰی میں ہوتا تو یقیناً کفر تھا ۔

اب دیکھئیے مولانا مرتضٰی حسن صاحب در بھنگی کیا فرماتے ہیں ! 

واضح ہو کہ ‘‘ایسا‘‘ کا لفظ فقط ‘‘مانند اور مثل‘‘ ہی کے معنٰی میں مستعمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنٰی ‘‘اسقدر‘‘ اور ‘‘اتنے‘‘ کے بھی آتے ہیں جو جگہ (یعنی عبارت مذکورہ ) متعین ہیں ۔

توضیح البیان ص 8 مطبع قاسمی دیوبند(

مزید فرماتے ہیں ! 

عبارت متنازعہ فیہا میں لفظ ایسا بمعنٰی ‘‘اس قدر اور اتنا‘‘ ہے پھر تشبیہہ کیسی؟
توضیح البیان ص17 *(

مولانا منظوربھی ایسا ہی فرماتے ہیں ! 

حفظ الایمان کی اس عبارت میں بھی ‘‘ایسا‘‘ تشبیہہ کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ یہاں بدون تشبیہہ کے اتنا کے معنی میں ہے
فتح بریلی کا دلکش نظارہ ص 32 (

تقریباً یہی مضمون کتاب مذکورہ کے صفحہ 34 ، 40، اور 48، پر بھی ہے ۔ اس اجمالی گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا مرتضٰی حسن اور مولانا منظور نعمانی اس بات پر متفق ہیں کہ عبارت متنازعہ فیہا میں لفظ ‘‘ ایسا‘‘ بمعنی ‘‘اسقدر اور اتنا‘‘ ہے۔ اگر تشبیہہ کے لئے ہوتا تو موجب کفر ہوتا ۔

اگر بالفرض اس عبارت کا وہ مطلب ہوا جو مولوی سردار احمد صاحب بیان کر رہے ہیں جب تو ہمارے نزدیک بھی موجب کفر ہے۔ ( ایضاً ) 

حاصل کلام ! 

مولانا مرتضٰے حسن اور مولانا نعمانی کے نزدیک لفظ ایسا ‘‘ بمعنٰٰی اتنا اور اس قدر ہے اگر تشبیہہ کے لئے قرار دیا جائے تو کفر ہے اور مولانا مدنی کے نزدیک لفظ ایسا تشبیہہ کیلئے ہے ۔ اگر بمعنٰی ‘‘اتنا اور اس قدر‘‘ قرار دیا جائے تو کفر ہے ۔

حل ! 

عبارت متنازعہ فیہا میں لفظ ایسا کے دو ہی معنٰی ہیں ۔ (1) یا تو تشبیہہ کے لئے ہے (2) یا بمعنی اس قدر یا اتنا ۔

پہلی شق مولانا مرتضی حسن اور مولانا نعمانی کے نزدیک کفر ۔

اور دوسری شق مولانا مدنی کے نزدیک کفر ۔

اس سے معلوم ہوا کہ دونوں شقیں کفر ہیں ۔ اس عبارت متنازعہ کی کوئی تاویل نہیں ۔ نیز یہ نتیجہ بھی قدرتی طور پر برآمد ہو گیا کہ 
مولانا مرتضٰی حسن اور مولانا نعمانی دونوں کے دونوں مولانا مدنی کی تاویل کی روشنی میں کافر ۔
اور مولانا مدنی بھی مولانا مرتضٰے حسن اور اور مولانا نعمانی کی تاویل کی روشنی میں کافر ۔
الحمد للہ رب العالمین 

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں …….خود آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا۔ 
اس صورت حال کو دیکھ کر مجھے ایک اور شعر یاد آ گیا ،
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ دین حق پہچان کر 
ہم ہوئے مسلم تو وہ مسلم ہی کافر ہو گیا 
------------------------------------------------------------------
لطیفہ نمبر 5 :

سوال : کیا ارشاد ہے علمائے دین کا اس شخص کے بارے میں جو کہے کہ اللہ تعالٰی کو زمان و مکان سے پاک اور اس کا دیدار بےجہت حق جاننا بدعت ہے اور یہ قول کیسا ہے ۔ بیّنو وتوجروا۔

الجواب : 

یہ شخص عقائد اہلسنت سے جاہل اور بے بہرہ اور دہ مقولہ کفر ہے ۔ واللہ اعلم بندہ رشید احمد گنگوہی ( نشان مہر) 

الجواب صحیح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشرف علی عفی عنہ 

حق تعالٰی کو زمان و مکان سے منزّہ ماننا عقیدہ اہل ایمان ہے اس کا انکار الحاد و زندقہ ہے اور دیدار حق تعالٰی آخرت میں بے کیف و بے جہت ہو گا ۔ مخالف اس عقیدے کا بد دین و ملحد ہے ۔کتبہ عزیز الرحمٰٰن عفی عنہ (نشان مہر) مفتی مدرسۃ دیوبند 

الجواب صحیح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ محمود حسن عفی عنہ مدرس اول دیوبند ‘‘ وہ ہر گز اہل سنت سے نہیں ہے ‘‘ حرّرہ المسکین عبد الحق 

الجواب صحیح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمود حسن مدرس دوم مدرسۃ شاہی ، مراد آباد ‘‘ ایسے عقیدے کو بدعت کہنے والا دین سے نا وا قف ہے‘‘ ابو الوفا ثناء اللہ ( نشان مہر) 

اب سنئے ! 

عبارت کس کتاب کی ہے اور کس عالم کے قلم سے یہ باتیں نکلی ہیں ۔ ‘‘ایضاح الحق ‘‘ مولانا اسمٰعیل دہلوی کی تصنیف ہی بصورت استفتاء بھیجی گئی عبارت اسی کتاب کے صفحہ 35، 36سے ماخوذ ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔ 

تنزیہ او تعالٰی از زمان و مکان 
و جہت و اثبات رویت بلا جہت و 
محاذات الخ ہمہ از قبیل بدعات 
حقیقہ است اگر صاحب آں اعتقادات 
مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ می شمارد

جب یہ راز فاش ہو گیا کہ اکابر دیوبند نے جس شخص کو جاہل بے بہرہ کافر، ملحد، زندیق، بے دین، اور غیر سنّی قرار دیا ہے وہ انہیں حضرات کے امام و پیشوا ، شہید بے نوا مولانا اسمٰعیل دہلوی ہیں تو مولانا رشید احمد گنگوہی کو اظہار افسوس ان الفاظ میں کرنا پڑتا ہے ۔

ایضاح الحق ‘‘بندہ کو یاد نہیں ہے کیا مضمون اور کس کی تالیف ‘‘

فتاوٰے رشیدیہ کامل ص 236 ، کتب خانہ رحیمیہ دیوبند (
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔