Friday, September 13, 2013

Azan se Pehley Drood Parhna - 2


فقہاء نے مندرجہ ذیل اوقات میں درود پڑھنے سے منع کیا ہے۔ خرید و فروخت کے وقت، جماع ، رفع حاجت ، ذبح ، چھینک ، تعجب یا ٹھو کر کے وقت ، تلاوت قرآن یا نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آنے پر اور کسی بڑے آدمی کی آمد کی خبر دیتے وقت۔ ان مواقع کے علاوہ جس وقت بھی درود و سلام پڑھا جائے، حکم الہی ( صلو علیہ و سلمو ) ۔ ( ان پر درود و سلام بھیجو ) کی تعمیل ہوتی ہے ۔ چونکہ جواز کے لیے حکم الہی موجود ہے ۔ لہٰذا ممانعت کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے ، بغیر دلیل کے کسی چیز کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیسان ہے ، ( جب تم موذن کی اذان سنو تو ا سی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ) ۔ ( مسلم ج ۱ ص ،۱۶۶ ) اس حدیث پاک میں درود شریف پڑھنے کا مطلق حکم ہے ۔ خواہ آہستہ پڑھا جائے یا بلند آواز سے ۔ نیز درود شریف پڑھنے کا حکم موذن اور سامعین دونوں کے لیے ہے ۔ ( رد المختار ، بہار شریعت )
شفا شریف جلد دوم صفحہ ۵۲ اور شامی جلد اول صفحہ ۴۸۳پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت، آپ کا نام مبارک سننے اور لکھنے کے وقت اور اذان کے وقت درود و سلام پرھنا مستحب بتایا گیا ہے۔ خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی ذکریا کاندھلوی صاحب نے فضائل درود کے صفحہ ۷۲ پر شامی کے حوالے سے لکھا کہ (جن اوقات میں (درود) پڑھ سکتا ہو پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو)۔ پھر انہوں نے تکبیر کے وقت اور اذان کے جواب کے بعد درود پڑھنا مستحب قرار دیا۔ (فضائل درود)
امام اہلسنت اعلی حضرت محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سے جب اس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا، (اذان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام عرض کرنا جیسا کہ ملک عرب و مصر و شام وغیرہا بلا د دار الاسلام بلکہ خاص مسجد الحرام و مسجد اقدس مدینہ طیبہ میں مغرب کے سوا معمول ہے ۔ اور پانچ سو برس سے زیادہ گزرے کہ ائمہ و علماء اس پر تقریر و تسلیم کرتے آئے، بیشک جائز و مقبول ہے۔ حضور پر نور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اقدس ہر وقت ہر آن ہر مسلمان کا ایمان، ایمان کی جان، جان کا چین ، چین کا سامان ہے …… حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، ( جو کسی چیز کو دوست رکھتا ہے اس کو بہت یاد کرتا ہے)۔ (ابو نعیم ، دیلمی)
پھر دلائل کے بعد فرماتے ہیں ، در مختار میں ہے کہ اذان کے بعد صلوہ و سلام عرض کرنا شب دو شنبہ نماز عشاء ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ھ میں شروع ہوا ، پھر جمعہ کے دن پھر دس برس بعد دو شنبہ نماز عشاء ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ ھ میں شروع ہوا ، پر جمعہ کے دن پھر دس برس بعد مغرب کے سوا سب نمازوں میں پھر دو دفعہ مغرب میں بھی ، یہ ان نئی باتوں میں سے ہے جو نیک و محمود ہیں ۔ امام محدث شمس الملتہ والدین سخاوی ( القول البدیع ) میں ، علامہ عمر بن نجیم ( نہر الفائق شرح کنز الدقائق ) میں ، پھر فاضل محقق امین الملتہ والدین شامی ( رد المختار علی الدر المختار ) میں فرماتے ہیں ، (حق بات یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے ) ۔
امام سخاوی رقمطراز ہیں،(موذن حضرات فجر اور جمعہ کی اذانوں اور دیگر اذانوں کے بعد جو (الصلوہ والسلام علیک یا رسول اللہ) پڑھتے ہیں اسکی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین ایوبی کے دور میں ان کے حکم سے ہوئی۔ اس سے پہلے لوگ اپنے خلفاء پر السلام علی الامام الظاہر وغیرہ کہہ کر سلام کہتے تھے جبکہ سلطان نے اس بدعت کو باطل کر کے اس کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوہ و سلام کا حکم جاری کیا، اسے اسکی جزائے خیر عطا ہو)۔ (القول البدیع ص ۱۹۲)
امام سخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) کے علاوہ امام شعرانی (م ۹۷۳ھ ) نے کشف الغمہ ص ۷۸، امام ابن حجر شافعی (۹۵۲ھ) نے فتاوی کبری ج ۱ص ۱۳۱، امام جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ) نے حسن المحاضرہ میں، محدث علی قاری (م ۱۰۱۴، ھ ) نے مرقاہ شرح مشوکہ جلد اول میں، علامہ حلبی (م ۱۰۴۴ھ) نے سیرت حلبہ میں اور علامہ شامی (م ۱۲۵۲ ھ) نے رد المختار میں اسے بدعت حسنہ قرار دیکر اس کی تعریف کی ہے۔
گویا سات سو سال سے ائمہ دین اور جلیل القدر علماء کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ اذان کے ساتھ صلوہ و سلام پڑھنا جائز و مستحب ہے، جبکہ اعلی حضرت محدث بریلوی ۱۲۷۲ھ میں پیدا ہوئے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اذان کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی ایجاد نہیں بلکہ یہ تو گذشتہ سات صدیوں سے امت مسلمہ کا معمول ہے لہذا اسے بدعت سیئہ کہنا ہی در اصل بدعت و گمراہی ہے۔
 ابو داؤد شریف میں حضرت عروہ بن زبیر ( رضی اللہ عنہ ) ایک خاتون سے روایت کرتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں میرا مکان بلند ترین مکانوں میں سے تھا ۔ حضرت بلال ( رضی اللہ عنہ ) اس مکان پر صبح صادق سے قبل چڑھ جاتے ، جو نہی صبح صادق ہوتی تو اذان سے قبل چند دعائیہ کلمات کہہ کر پھر اذان دیتے ۔ وہ کلمات یہ ہیں ۔ ( اللھم انی احمدک استعینک علی قریس ان یقیموا دینک ) ۔ ( اے اللہ ! میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہو ں اس بات پر کہ قریش تیرے دین کو قائم کریں ) ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے قبل بلند آواز سے قریش کے لیے دعا پڑھتے تھے ۔ درود و سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحمت کی دعا ہے تو جب اذان سے قبل قریش کے لیے دعا کرنا جائز ہے تو قریش کے سردار ، رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا کیونکر نا جائز ہوگا؟

سلطان صلاح الدّین ایوبی نے 781ہجری میں حکومتی سطح پر اذان سے پہلے درود و سلام جاری کروایا۔


حضرت امام سخاوی ( 902 ہجری ) فرماتے ہیں "سلطان صلاح الدّین ایوبی کے 


دور میں اذان سے پہلے الصلوٰۃ و السّلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا جاتا"

 ( القول البدیہ صفحہ 192)

امّتِ مسلمہ کے ان چار عظیم محدّثین نے اس کو جائز لکھا ہے:

حضرت ملا علی قاری

امام شعرانی

امام ابن حجر شافعی


امام شامی


القول البدیع



امام شعرانی کشف الغمہ
علامہ شامی الرد المحتار


Friday, August 30, 2013

Azan se Pehley Drood Parhna - 1

قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف بھیجنے کا حکم ہے، لہذا عمر بھر میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر مجلس ذکر میں ایک بار واجب ہے۔ خواہ خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک زبان سے بولے یا کسی اور سے سنے اور اگر ایک مجلس میں سو بار بھی اسم گرامی بولے یا سنے تو درود و سلام بھیجے۔
در المختار مع ردالمحتار، 1:518 طبع کراچی

نفس مسئلہ قرآن سے

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo
الاحزاب، 33 : 56
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo
قرآن کریم کے اس عظیم الشان ارشاد پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ نماز، روزہ، حج وغیرہ کے اوقات متعین ہیں۔ نماز کو اوقات مکروہہ میں ادا کرنے سے منع فرما دیا۔ روزہ دن کو رکھنا اور وہ بھی چند دن کے سوا یعنی سال میں پانچ دن روزہ رکھنے سے منع فرما دیا گیا، یعنی عیدالفطر کے دن اور چار دن ایام نحر کے (10، 11، 12، 13 ذی الحجہ)۔ حج ذی الحجہ کے چند دن میں ہی ہو سکتا ہے۔ چونکہ ان تینوں عبادات میں وقت کی پابندی ہے، لہذا مقررہ وقت کے علاوہ ان پر عمل کرنا جائز نہیں۔ مگر درود و سلام میں یہ صورت نہیں۔ درود و سلام پڑھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔
درود و سلام کی مثال جہاد، سچ بولنے، خرچ کرنے، انصاف کرنے، امانت ادا کرنے، دین کی تبلیغ و تلقین، کاروبار میں اسلامی ہدایات پر عمل کرنے، بیوی، بچوں، ماں، باپ، ہمسائے اور دیگر مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی سی ہے۔ یہ سب حکم شرعی ہیں، فرض ہیں، مگر ان کی ادائیگی میں وقت کی قید نہیں۔ جب موقع ملے ان پر عمل کریں، درود و سلام پر عمل کرنے کا بھی شریعت نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔ یونہی کسی بھی وقت میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ لہذا جب موقع ملے، بندہ مومن درود و سلام پڑھ کر اپنے رب کا حکم بجا لا سکتا ہے اور اپنے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ہر سڑک اور ہر راستے پر چل سکتے ہیں، اس کے لیے ضروری نہیں کہ راستوں میں لکھا ہو۔ "آپ یہاں چل سکتے ہیں"، جس جگہ چلنا یا گزرنا منع ہو وہاں لکھا ہوتا ہے۔ "یہاں داخلہ ممنوع ہے" اسی طرح شریعت نے جو حکم فرض و واجب تھے وہ بتا دیئے گئے، جو منع تھے، ان سے روک دیا گیا۔
پس درود و سلام کی ادائیگی کا حکم تو ہے وقت کی قید نہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان پڑھے گا، حکم قرآن و سنت پر عمل ہو جائے گا۔ اذان سے پہلے یا بعد میں بھی۔ چونکہ قرآن و حدیث میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں فرمایا گیا، لہذا جب بھی کوئی مسلمان پڑھے قرآن و حدیث پر عمل ہو گا۔ ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو ناجائز کہے وہ قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرے۔

حدیث پاک سے اذان اور درود شریف

حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا سمعتم الموذن فقولو مثل ما يقول ثم صلو علی فانه من صلی علی صلوة صلی الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لی الوسيلة فانها منزلة فی الجنة لا ينبغی الا لعبد من عبادالله وارجو ان اکون انا هو فمن سال لی الوسيلة حلت عليه الشفاعة.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب موذن کو سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو، جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے بدلے اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے۔ پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو۔(اللهم رب هذه الدعوة.....) یہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
اس حدیث پاک میں اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم ہے۔ ارشاد بالکل واضح ہے۔ پھر درود شریف کے بعد دعا مانگنے کا حکم ہے۔
حدیث شریف کا نام لے کر عوام کو گمراہ کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے یہ دونوں حکم کس دلیل سے رد کئے؟ نہ وہ اذان کے بعد درود شریف پڑھیں، نہ دعا مانگیں۔ کیا انہوں نے کبھی ان پر عمل کیا؟ کیا اپنے عوام کو کبھی یہ حدیث شریف سنائی؟ اگر کہو ہم دل میں پڑھتے ہیں، تو اس کی دلیل بھی قرآن یا حدیث سے پیش کریں جو قرآن و سنت پر عمل کریں وہ بدعتی نہیں، پکے مسلمان ہیں۔ جو قرآن و حدیث کی مخالفت کریں وہ پکے منکر، بدعتی ہیں۔ تمام منکرین جمع ہو کر بلکہ ممکن ہو تو مرے ہوؤں کو بھی بلا لیں اور ہمارے مطالبہ کا شرعی جواب دیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دیگر آئمہ دین، اللہ رسول کی ہر بات ماننے والے تھے۔ جب آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ اذان کے بعد درود پڑھو تو یقیناً تمام مؤذن خواہ وہ صحابہ کرام میں سے ہوں، خواہ بعد والوں میں، یقیناً اذان کے ساتھ درود و سلام بھی پڑھتے تھے اور دعا بھی مانگتے تھے۔ چونکہ آج کے بد بختوں سے پہلے کبھی کسی مسلمان نے ایسے واضح ارشاد میں شک ہی نہیں کیا، نہ سوال کیا۔ لہذا آئمہ دین نے اس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر آپ کو کوئی ثبوت مل چکا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یا دیگر اصحاب اذان کے ساتھ پہلے یا پیچھے درود و سلام نہ پڑھتے تھے، ثبوت پیش کریں۔
جب حکم شرعی واضح ہے اور صحابہ و آئمہ دین عامل بالکتاب و الحدیث تھے تو لا محالہ وہ قرآن و حدیث کے اس حکم پر بھی عامل تھے۔ اس پر حوالہ مانگنا ایسے ہی جاہلانہ بات ہے جیسے قرآن و حدیث سے ثابت کرو کہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی شیر خدا، امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی، شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہم نماز عصر پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوۃ دیتے تھے، سورہ یاسین پڑھتے تھے، نماز عید ادا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ
ان بزرگوں کی بڑائی احکام شرع پر عمل کرنے میں ہے، مخالفت کی بدگمانی کوئی شیطان ہی کر سکتا ہے۔ لہذا وہ اذان کے ساتھ اپنے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ضرور درود و سلام پڑھتے تھے۔ اس کے خلاف دلیل رکھتے ہو تو لاؤ، ورنہ فرمان والا شان کے آگے جھک جاؤ۔ کہیں مخالفت امر رسول تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے۔ عوام ان گمراہوں سے کہیں
کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں
ہاں درود و سلام پڑھنے کا انداز وہ تو نہیں جو اذان کا ہے۔ اذان میں انگلیاں کانوں میں ٹھونسنے اور اونچی آواز نکالنے کی ہدایت تھی۔ جبکہ درود و سلام میں یہ نہ ہوتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ البتہ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے درود و سلام کی آواز بھی دور تک پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ اذان کے کلمات سن کر شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بھاگ جاتا ہے، لہذا درود و سلام پر اس کا بھڑکنا فضول ہے۔ اسے چاہیے جہاں اذان سے بچنے کے لیے وہ اتنا دور بھاگ نکلتا ہے جہاں تک آواز جاتی ہے۔ ( حدیث پاک ) وہاں ذرا مزید ٹھہرا رہے تا کہ درود و سلام کی آواز سے بچا رہے۔ اہل ایمان کے لیے تو یہ پاکیزہ اور حسین آوازیں غذائے قلب و روح ہیں۔ امید ہے ان کے لیے بات کافی ہے۔

اس مسئلہ پر آؤ صلح کر لیں

گو شرعاً درود و سلام ہر وقت جائز ہے۔ جیسا کہ تفصیل ذکر کر دی گئی ہے۔ اذان سے پہلے بھی، بعد بھی۔ تاہم منکرین سے گزارش ہے کہ ان احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سر جھکا لیں۔ جس کا حوالہ اوپر درج ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے مولانا عبد الرحمن اشرفی نے بھی جنگ جمعہ میگزین میں لکھا ہے کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم حدیث مسلم میں موجود ہے۔
آئیں سب فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم کےمطابق اذان کے بعد درود شریف اپنی اپنی مسجدوں میں پڑھنا شروع کر دیں۔ پہلے پڑھنے پر ہم اصرار نہیں کرتے، بعد میں پڑھنے سے آپ انکار نہ کریں۔ درود شریف جو پسند ہے وہ پڑھیں، پڑھیں تو سہی یا اس حدیث پاک کا جواب دیں۔
رہا سپیکر کا سوال، تو جب تک یہ سہولت میسر نہ تھی ہم اور آپ سبھی بغیر سپیکر کے بلالی اذان دیتے تھے۔اب قدرت نے یہ نعمت دی ہے تو اذان اور بعد میں درود شریف اور دعا کیوں نہ سپیکر میں پڑھیں۔ اگر سپیکر پر دی جانے والی اذان اذانِ بلالی ہو سکتی ہے تو سپیکر پر پڑھا جانے والا درود و سلام کیوں قرآنی، حدیثی اور بلالی بلکہ خدائی و مصطفائی نہیں ہو سکتا؟

کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ( ظاہری ) زمانے میں اذان سے پہلے ’’صلوٰۃ ‘‘ پڑھی جاتی تھی؟

اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو جس وقت اور جس جگہ بھی کوئی شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے گا، اس پر فوراً یہ جاہلانہ، متعصبانہ اعتراض جڑ دیا جائے گا کہ کیا اس دن، اس تاریخ، اس جگہ، اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں درود پڑھا جاتا تھا؟ اور یہ سوال صرف درودو سلام پر ہی نہیں وارد ہو گا بلکہ ہر اس امر شرعی پر وارد ہو گا، جس میں جگہ اور وقت کی قید نہیں۔ مثلاً نفلی صدقہ، نفلی نماز، نفلی روزہ، اﷲ تعالیٰ کا ذکر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام، قرآن پڑھنا، مسکین کو کھلانا، پہنانا، درس و تدریس، وغظ وتقریر، جہاد و قتال، تالیف و تصنیف وغیرہ، جب قرآن و سنت یا اجماع امت و قیاس و استنباط سے کوئی مسئلہ ثابت ہو تو پھر اس کی شرعی حیثیت پر سوال کرنا محض حماقت ہے۔
قرآن و سنت اور علماء امت نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں زمانے میں ہونے والا عمل جائز ہے اور فلاں زمانے میں ہونے والا عمل ناجائز ہے۔ صحابہ و تابعین یا غوث الاعظم یا ائمہ اربعہ کے دور تک جو کام ہوا ہو، جائز ہے اور جو کام فلاں سن کے بعد ہوا وہ ناجائز۔ یہ قاعدہ قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ میں کہبیں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہ اس دور کے کم فہم، متعصب، بیمار ذہنوں کی اختراع ہے۔ کیا دور اول میں چوری، زنا، قتل، تخریب کاری، منافقت، کفر و ارتداد، قذف، جھوٹ، غیبت اور نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج و جہاد کا ترک کرنا جائز تھا؟ صرف اس بناء پر کہ وہ نزول قرآن کا زمانہ تھا، بہترین زمانہ تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کا دور تھا۔ جس کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
خير الناس قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
بخاری، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل الصحابة النبی صلی الله عليه وآله وسلم ورضی اﷲ، 3 : 1335، الرقم: 3451
’’تمام لوگوں میں بہتر زمانہ میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو ان سے ملے ہوں گے پھر ان کا جو ان سے ملے ہوں گے۔‘‘
ہرگز نہیں، جائز و ناجائز کا تعلق لوگوں کے طبقات، زمان و مکاں سے نہیں اصولوں سے ہے۔ اسلامی اصولوں کی پابندی اس وقت بھی نیکی تھی، آج بھی نیکی ہے۔ اسلامی احکام کی خلاف ورزی اس وقت بھی جرم تھا اور اس کے مرتکب مجرم تھے اور ان کو اسی طرح شرعی سزائیں دی گئیں، جس طرح بعد کے مجرموں کو، حدود و قصاص کے شرعی احکام ان پر اسی طرح جاری ہوئے جیسے بعد والوں پر، کسی مجرم کو یہ کہہ کر چھوڑا نہیں گیا کہ یہ دور بہترین ہے، یہ زمانہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہترین زمانہ ہے، یہ طبقہ امت، صحابہ کرام کا مقدس طبقہ ہے۔ یوں بعد والے علمائے امت، فقہائے ملت اور محافظان سنت کے علمی فقہی، تفسیری اور احادیث نبوی کے عظیم قابل قدر کام کو کسی نے یہ کہہ کر رد نہیں کر دیا کہ یہ ذخیرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہترین زمانہ میں نہ تھا۔ اچھا کام ہے خواہ وہ کسی کے ہاتھوں اور کسی بھی زمانے میں ہو اور برا کام برا ہے خواہ کرنے والا کوئی ہو، زمانہ و مقام کوئی ہو، بات زمان و مکاں و طبقات کی نہیں اصولوں کی ہے۔

جو فعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ یہ جنگ یمامہ کا دور تھا۔ (جب صحابہ کرام اور جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی تھی) میں حاضر خدمت ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر فاروق میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا کہ جنگ یمامہ کے سخت معرکے میں قرآن کے قاری کثرت سے شہید ہو گئے (تقریباً سات سو حافظ و قاری)، مجھے ڈر ہے کہ مختلف محاذوں پر اگر قراء اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے عمر فاروق سے کہا:
کيف تفعل شيئا لم يفعله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم
’’آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هذا واﷲ خير
’’اﷲ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔‘‘
عمر فاروق بار بار مجھ سے کہتے رہے۔
حتی شرح اﷲ صدری لذلک ورايت فی ذلک الذی رای عمر
’’حتی کہ اﷲ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا اور مجھے بھی اس میں وہ حقیقت نظر آ گئی جو عمر کو نظر آئی تھی۔‘‘
حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم عقلمند جوان ہو۔ ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگائیں گے۔ جبکہ تم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی (بھی) لکھا کرتے تھے۔ پس قرآن ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فو اﷲ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ماکان اثقل علی مما امرنی به من جمع القرآن
’’اﷲ کی قسم اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنے کی تکلیف دیتے تو یہ کام قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری سے بڑھ کر مجھ پر بھاری نہ تھا۔‘‘
کہتے ہیں میں نے کہا:
کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم
’’آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هو واﷲ خير.
اﷲ کی قسم یہ کام اچھا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار مجھے فرمائش کرتے رہے۔
حتی شرح اﷲ صدری للذی شرح له صدر ابی بکر و عمر
یہاں تک کہ اس کام کے لئے اﷲ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔
میں نے قرآن کریم کو ڈھوڈنا اور جمع کرنا شروع کردیا، کجھوروں کی ٹہنیوں سے، پتھروں سے اور لوگوں کے سینوں سے، یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ملا، کسی اور کے پاس نہ ملا۔ لقد جاء کم رسول من انفسکم سورہ براۃ کے آخر تک، یہ مجموعہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس زندگی بھر رہا۔ پھر آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس رہا۔
 بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4: 1907، الرقم: 4701
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Saturday, May 25, 2013

Muslim aur Shirk


فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔۔
وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید
کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کواورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبر
کیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟
کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کےاصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔

اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔
تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھایعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔
خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔
معزز قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ :
وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.

مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو

معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک
اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔
جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم
طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفرلزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔

برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔
جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔
کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔
حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔
اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!
اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔

آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔ ۔ 


اعتراض:
جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)

ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔

اعتراض :
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
“" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)

ازالہ اعتراض :

آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔
امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
(۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔
(بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
(۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔
(مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ،
مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ،
ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ،
بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،
حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )

امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔

(۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔
حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔

(سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
(۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔
( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶،مطبوعہ دارالمعرفۃ)
اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔

ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
(۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،
سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹،
کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰)
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے
اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔ ۔۔ والسلام

Tuesday, May 21, 2013

Fawaid-e-Fareedia Naami Kitab Ki Haqiqat




Ispe fatwa kon lagaye ga ye to halate bedari me ho rha hai wo bhi tarmana ke saath ?
 — with Kwaqar Ali.




 لیجئے سواطع الالہام کے سکین ابھی لیں 

اب فوائد فریدیہ ،دیوان فرید اور مقابیس المجالس کے اعتراض 

زباں پر لاؤ گے تو اپنے امیر شریعت 

کے فرمان کی زد میں آؤ گے۔




لو دیو کے بندوں لگائوں فتوی دل کھول کر !!!