Wednesday, July 04, 2012

Tuesday, July 03, 2012

انگریزوں کے ایجنٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وھابی دیوبندی

تھانوی کا 600روپے  ماہوار لینا


دیوبندیوں کے خضر انگریز تھے 

ا س سلسلے میں سوانح قاسمی کے مصنف کی عجیب و غریب روایت سنیے فرماتے ہیں کہ انگریزوں کے مقابلے میں جو لوگ لڑ رہے تھے ان میں حضرت مولانا فضل الرحمن شاہ گنج مراد آبادی بھی تھے اچانک ایک دن مولانا کو گیا کہ خود بھاگے جا رہے ہیں اور کسی چودہری کا نام لے کر جو باغیوں کی فوج کی افسری کر رھے تھے کہتے جاتے تھے لڑنے کا کیا فاءدہ؟ خضر کو تو میں انگریزوں کی صف میں پا رہا ھوں (حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔ ( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
یہاں تک تو روایت تھی اب اس روایت کی توثیق و تشریح ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں باقی خود خضر کا مطلب کیا ہے ؟ نصرت حق کی مثالی شکل تھی جو اس نام سے ظاہر ہوئی تفصیل کے لیے شاہ ولی اللہ وغیرہ کی کتابیں پڑھیے گویا جو کچھ دعکھا جارہا تھا اسی کے باطنی پہلو کا یہ مکاشفہ تھا ۔
( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
بات ختم ہوگئی لیکن یہ سوال سر پر چڑھ کے آواز دے رہا ہے کہ جب حضرت خضر کی صورت میں نصرت حق انگریزی فوج کے ساتھ تھی تو ان باغیوں کیلئے کیا حکم ہے جو حضرت خضر کے مقابلے میں لڑنے آئے تھے ؟ کیا اب بھی انہیں غازی اور مجاہد کہا جاسکتا ہے اپنے موضوع سے ہٹ کر ہم بہت دور نکل آئے لیکن آپ کی نگاہ پر بار نہ ہو تو اس بحث کے خاتمے پر اکابر دیوبند کی ایک دلچسپ دستاویز اور ملاحظہ ہو ::
خط لکھتے لکھتے شوق نے دفتر کئے رواں
افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

دیوبندی حلقے کے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں انگریزی حکومت کے ساتھ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی تصویر کھنچتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں آپ سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بیکانہ ہوگا اور اگر مارا بھی آگیا تو سرکار مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے ۔
(تذکرۃ الرشید ج 1 ص 80 ادارہ اسلامیات لاہور )
کچھ سمجھے آپ ؟
کس الزام کو یہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے علم جہاد بلند کیا تھا میں کہتا ہوں کہ گنگوہی صاحب کی یہ پر خلوص صفائی کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کم از کم ان کے معتقدین کو تو ضرور ماننا چاہیے لیکن غضب خداکا کہ اتنی شد و مد کے ساتھ صفائی کے باوجود بھی ان کے ماننے والے یہ الزام ان پر آج تک دھرا رہے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو اور سرکار مالک ہے سرکار کو اختیار ہے یہ جملے اسی کی زبان سے نکلتے ہیں جو تن سے لیکر من تک پوری طرح کسی کے جذبہ غلامی میں بھیگ چکا ہو ۔
آہ دلوں کی بد بختی اور روحوں کی شقاوت کا حال بھی کتنا عبرت انگیز ہوتا ہے سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ خدا کے باغیوں کے لیے جذبہ عقیدت کا اعتراف یہ کہ وہ مالک بھی ہیں اور مختیار بھی : لیکن احمد مجتبٰی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ان حضرت کے عقیدے کی زبان یہ ہے جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار ( مالک ) نہیں ۔
( تقویۃ الایمان ص 70 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
بے شک یہ بتانے کا حق محلوک ہی کو ہے کہ اس کا مالک کون ہے کون نہیں جو مالک تھا اس کے لیے اعتراف کی زبان کھلنی تھی اور جو مالک نہیں تھا اس کا انکار ضروری تھا ہوگیا ۔ اب یہ بحث بالکل عبث ہے کہ کس کا مقدر کس مالک کے ساتھ وابستہ ہو یہاں پہنچ کے ہمیں کچھ نہیں کہنا تھا تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے ہیں مادی منفحت کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ دلوں کی اقلیم پر کس بادشاہ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یا تاج برطانی کا ؟ بات چلی تھی گھر کے مکاشفہ سے اور گھر ہی کی دستاویز پر ختم ہوگئی ۔ 








 

Monday, July 02, 2012

Deobandi Gustakhana Aqaid

آج کل ہر کوئی اس بات سے پریشان ہے کہ ہم مسلمانوں کے مابین نفرتیں کیوں ہیں جبکہ ہمارا پروردگار جل جلالہ ایک ہے، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک ہیں، ہمارا دین ایک ہے اور ہمارا قرآن ایک ہے۔ باوجود اس کے کہ فرقہ و اریت کیوں؟
اس کی بنیادی وجہ مختلف مکاتیب فکر کے اکابرین و پیشوا کی گستاخانہ اور کفریہ عبارات ہیں جنہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریر کرکے فرقہ واریت اور نفرت و عداوت کا بیج بویاہے۔
جس کا عملی نمونہ آپ کے سامنے چندکفریہ و گستاخانہ عبارات تحریر کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ جسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا یہ مسلمان ہیں؟ کیا یہ مسلمانوں کے پیشوا کہلانے کے حقدار ہیں؟

*1: حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عطائی علم غیب کو پاگل، جانوروں اور بچوںسے ملایا ( معاذاللہ ثم معاذاللہ)


عبارت: دیوبندی پیشوا اشرف علی تھانوی لکھتا ہے کہ ’’پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم> کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب۔ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کیا تخصیص ہے۔ ایسا علم غیب تو زید و عمر و بلکہ ہر صبی (بچہ) مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لے بھی حاصل ہے۔
 (بحوالہ : کتاب حفظ الایمان صفحہ نمبر 8، مطبوعہ کتب خانہ اشرفیہ راشد کمپنی دیوبند)
2: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے شیطان و ملک الموت کے علم کو زیادہ بتایا 
معاذاللہ ثم معاذاللہ)
عبارت: دیوبندی پیشوا خلیل احمد انبیٹھوی لکھتا ہے ’’شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے۔ شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی۔ فخر عالمصلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت علم کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے

 (بحوالہ: کتاب براہین قاطعہ ص 15، مطبوعہ بلال ڈھورا)
3: نماز میں شیخ یا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا تصور، بیل اور گدھے کے تصور سے بھی برا لکھا 
معاذاللہ ثم معاذاللہ)
عبارت: دیوبندی اکابر مولوی اسمعیل دہلوی لکھتا ہے ’’زنا کے وسوسے سے اپنی بی بی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں۔ اپنی ہمت کو لگادینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے برا ہے کیونکہ شیخ کا خیال تو تعظیم اور بزرگی کے ساتھ انسان کے دل میں چمٹ جاتا ہے اور بیل اور گدھے کے خیال کو نہ تو اس قدر چیدگی ہوتی ہے اور نہ تعظیم بلکہ حقیر اور ذلیل ہوتا ہے اور غیر کی یہ تعظیم اور بزرگی جو نماز میں ملحوظ ہو وہ شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے

 (بحوالہ: کتاب صراط مستقیم ص 97، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند (یوپی)
4: انبیاء علوم کی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں عمل میں امتی بظاہر انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں:
معاذاللہ ثم معاذاللہ)
عبارت: دیوبندی اکابر قاسم نانوتوی لکھتا ہے کہ انبیاء اپنی امت میں ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں (بحوالہ: تحذیر الناس ص 5، کتب خانہ رحیمیہ دیوبند)
5: لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول اﷲ کی نہیں ہے:
معاذاللہ ثم معاذاللہ)
عبارت: دیوبندی اکابر رشید احمد گنگوہی سے سوال کیاگیا۔
سوال: لفظ رحمتہ للعالمین مخصوص آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں؟
جواب: لفظ رحمتہ للعالمین صفت خاصہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے۔ بلکہ دیگر اولیاء و انبیاء اور علماء ربانین بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں اگرچہ جناب رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم سب میں اعلیٰ ہیں۔ اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے۔
  (فتاویٰ رشیدیہ ص 218، ناشر محمد علی کارخانہ اسلامی کتب اردو بازار کراچی)
6: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اردو دارالعلوم دیوبند سے سیکھی:
عبارت: دیوبندی اکابر خلیل احمد سہارنپوری (انبیٹھوی) لکھتا ہے کہ ایک صالح فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا، یعنی خواب میں زیارت مبارک ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اردو میں کلام کرتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ’’آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ زبان کہاں سے آگئی آپصلی اللہ علیہ وسلم تو عربی ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا جب سے علماء مدرسۂ دیوبند سے ہمارا معاملہ ہوا، ہم کو یہ زبان آگئی

 (بحوالہ: کتاب براہین قاطعہ ص 30، سہارنپور)
7: بڑے سے بڑا انسان ہو یا فرشتہ شان الوہیت کے مقابل چمار سے زیادہ ذلیل ہے:
عبارت: دیوبندی پیشوا اسمعیل دہلوی لکھتاہے کہ یقین مانو کہ ہر شخص خواہ وہ بڑے سے بڑا انسان ہو یا فرشتہ، اس کی حیثیت شان الوہیت کے مقابلے پر ایک چمار کی حیثیت سے بھی زیادہ ذلیل ہے

 (بحوالہ: کتاب تقویۃ الایمان ص 49، مطبوعہ دارالسلام پبلشرز احمد پرنٹنگ پریس 50لوئر مال لاہور)
8: انبیاء و اولیاء اﷲ، پروردگارکے بے بس بندے اورہمارے بھائی ہیں:
عبارت: دیوبندی پیشوا اسمعیل دہلوی لکھتا ہے کہ یعنی تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ جو بہت بزرگ ہو، وہ بڑا بھائی ہے۔ اس کی تعظیم بڑے بھائی کی سی کرو۔ باقی سب کا مالک اﷲ ہے۔ عبادت اسی کی کرنی چاہئے۔ معلوم ہوا کہ جتنے اﷲ کے مقرب بندے ہیں، خواہ انبیاء ہو یا اولیاء ہوں، وہ سب کے سب اﷲ کے بے بس بندے ہیں اور ہمارے بھائی ہیں مگر اﷲ تعالیٰ نے انہیں بڑائی بخشی تو ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہوئے

 (بحوالہ: کتاب تقویۃ الایمان ص 111، مطبوعہ دارالسلام پبلشرز احمد پرنٹنگ پریس 50 لوئر مال لاہور)
9: جس کا نام محمد یا علی ہے، اس کو کسی بات کا اختیار نہیں:
عبارت: دیوبندی پیشوا اسمعیل دہلوی لکھتا ہے اور جس کا نام محمد یا علی ہے، اس کو کسی بات کا اختیار نہیں (بحوالہ: کتاب تقویۃ الایمان ص 85، مطبوعہ دارالسلام پبلشرز احمد پرنٹنگ پریس 50 لوئر مال لاہور)
10: حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منانا، ہندوئوں کے کنہیا کے دن منانے کی مثل ہے:
عبارت: دیوبندی پیشوا خلیل احمد انبیٹھوی لکھتا ہے کہ یہ ہر روز اعادہ ولادت (حضورصلی اللہ علیہ وسلم) کا مثل ہنود کے سانگ کنہیا کی ولادت کا ہر سال کرتے ہیں (بحوالہ: کتاب براہین قاطعہ ص 148، مطبوعہ سہارنپور)
11: حضورصلی اللہ علیہ وسلم مر کر مٹی میں ملنے والے ہیں (معاذ اﷲ):
عبارت: دیوبندی پیشوا اسمعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان کے صفحہ نمبر69 پر ابو دائود شریف کی حدیث نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے یہ الفاظ لکھ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف افتراء (جھوٹ) باندھاکہ ’’آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی اک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں‘‘ (بحوالہ: کتاب تقویۃ الایمان ص 69، مطبوعہ مرکنٹائل پرنٹنگ دہلی)
اے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو!
اکابر دیوبندی کی کفریہ عبارات انہی کی کتابوںسے آپ نے ملاحظہ کیں۔ جس میں سرور کونین  کی شان اقدس میں کھلم کھلا گستاخیوں کا ارتکاب کرکے دین اسلام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ان کفریہ عبارات سے دیوبندی پیشوائوں نے آخر تک رجوع نہیں کیا۔ دیوبندی ادارے آج بھی ان کفریہ عبارات کو کتابوں میں شائع کرتے ہیں۔ کفریہ عبارات کی تاویلیں پیش کرتے ہیں یوں علمائے دیوبند اب تک اپنے پیشوائوں کی ان گستاخانہ عبارتوں کا دفاع کرتے ہیں۔
فیصلہ آپ کریں!
کیا ایسے گستاخانہ عقائد رکھنے والے مسلمانوںکے مذہبی پیشوا بن سکتے ہیں؟
کیا ایسے گستاخانہ عقائد کسی مسلمان کے ہوسکتے ہیں؟
ایسی گستاخانہ عبارات لکھنے والوں کو اگرکوئی صحیح سمجھے اور کوئی گروہ اس کے باوجود انہیں اپنا مذہبی پیشوا مانے تو کیا وہ انہی میں سے نہیں؟

Deobandi Tariq Jameel Ki Gustakhi!!!

دیوبندی تاریک ذلیل کی حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ) کی شان میں گستاخی!!!

کیا خط کشیدہ الفاظ اہانت (توہین) امیر المومنین کی نشاندہی نہیں کرتا؟؟؟


( اسکین شدہ صفحات کو فل سائز میں دیکھنے کے لئے امیج پر کلک کریں )








Maslak Aala Hazrat Kiyon?

سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ بریلوی یا مسلک اعلٰی حضرت سے مراد کوئی نیا مسلک نہیں*، بلکہ صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، صالحین اور علماء امت جس مسلک پر تھے مسلک اعلٰی حضرت ، بریلوی کا اطلاق اُسی پر ہوتا ہے دراصل اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریبا دو صدی قبل برصغیر کی سرزمین پر کئی نئے فرقوں*نے جنم لیا اور ان فرقوں*کے علمبرداروں نے اہلسنت و جماعت کے عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دینے کی شرمناک روش اختیار کی ، خصوصا مولوی اسماعیل دہلوی نے وہابی مسلک کی اشاعت کے لئے جو کتاب تقویۃ الایمان کے نام سے مرتب کی اس میں علم غیب مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ، حاضرو ناظر ، شفاعت ، استعانت ، نداء یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اختیارات نبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ تمام عقائد کو معاذاللہ کفر و شرک قرار دے دیا ، جب کہ یہ سارے عقائد روز اول سے قران و سنت سے ثابت شدہ ہیں*، اسی طرح میلاد و قیام ، صلوٰۃوسلام ، ایصال ثواب ، عرس یہ سب معمولات جو صدیوں*سے اہلسنت و جماعت میں رائج ہیں*اور علمائے امت نے انھیں*باعث ثواب قرار دیا ہے ، لیکن نئے فرقوں*کے علمبرداروں*نے ان عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دیتے ہوئے اپنی ساری توانائی انہیں مٹانے پر صرف کی ، اسی زمانے میں علمائے اہلسنت نے اپنے قلم سے ان عقائد و معمولات کا تحفظ فرمایا اور تحریر و تقریر اور مناظروں*کے ذریعے ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دیا ۔
عقائد کی اسی معرکہ آرائی کے دور میں*بریلی کی سرزمین پر امام احمد رضا خان قدس سرہ پیدا ہوئے ، آپ زبردست عالم دین تھے اللہ تعالٰی نے آپ کو بے پناہ علمی صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا اور آپ تقریبا 100 سے زائد علوم میں مہارت رکھتے تھے خصوصا علم فقہ میں آپ کے دور میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا ، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مجدد و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی علمی صلاحیتوں*کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو آپ کے مخالف ہیں ، بہرحال آپ نے اپنے دور کے علمائے اہلسنت کو دیکھا کہ وہ باطل فرقوں کے اعتراضات کے جوابات دے کر عقائد اہلسنت کا دفاع کررہے ہیں*تو آپ نے بھی اس عظیم خدمت کے لئے قدم اٹھایا اور اہلسنت کے عقائد کے ثبوت میں دلائل و براہین کا انبار لگادیا ، ایک ایک عقیدے کے ثبوت میں کئی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ، ساتھ ہی ساتھ جو معمولات آپ کے زمانے میں رائج تھے ان میں سے جو قرآن و سنت کے مطابق تھے آپ نے ان کی تائید فرمائی اور جو قرآن اور سنت کے خلاف تھے آپ نے ان کی تردید فرمائی ، اس طرح بے شمار موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابوں کا عظیم ذخیرہ مسلمانوں کو عطا فرمایا ، بہرحال آپ نے باطل فرقوں کے رد میں اور عقائدو معمولات اہلسنت کی تائید میں جو عظیم خدمات انجام دین اس بنیاد پر آپ علمائے اہلسنت کی صف میں نمایاں ہوگئے ، اور عقائد اہلسنت کی زبردست وکالت کرنے کے سبب سے یہ عقائد امام احمد رضا کی ذات کی طرف منسوب ہونے لگے ، اور اب حال یہ ہے کہ آپ کی ذات اہلسنت کا ایک عظیم نشان کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی حجازی یا شامی و یمنی یا عراقی و مصری بھی مدینہ منورہ میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے تو نجدی اسے بریلوی کہتے ہیں*حالانکہ اس کا کوئی تعلق بریلی شہر سے نہیں ہوتا ، اسی طرح اگر کوئی اسئلک الشفاعۃ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرے تو چاہے وہ جزیرہ العرب ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو وہابی اسے بریلوی ہی کہتا ہے جبکہ بریلوی اسے کہنا چاہیے جو شہر بریلوی کا رہنے والا ہو لیکن اس کی وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلاف کے وہ عقائد ہیں جن کی امام احمد رضا قدس سرہ نے دلائل کے ذریعے شد و مد سے تائید فرمائی ہے اور ان عقائد کے ثبوت میں سب نمایاں خدمات انجام دی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ عقائد امام احمد رضا سے اس قدر منسوب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان اگر ان عقائد کا قائل ہو تو اسے آپ ہی کی طرف منسوب کرتے ہوئے بریلوی کہا جاتا ہے ۔
اب چونکہ برصغیر میں فرقوں کی ایک بھیڑ موجود ہے اس لئے اہلسنت وجماعت کی شناخت قائم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے اس لئے کہ دیوبندی فرقہ بھی اپنے آپ کو اہلسنت ہی ظاہر کرتا ہے جبکہ کے دیوبندیوں*کے عقائد بھی وہی ہیں*جو وہابیوں کے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی اپنے آپ کو اہل حدیث*کہتے ہیں*اور آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے اور دیوبندی تقلید تو کرتے ہیں لیکن وہابیوں*کے عقائد کو حق مانتے ہیں*اس لئے فرقوں سے ممتاز کرنے کے لئے مسلک اعلٰی حضرت کا استعمال مناسب سمجھا ، اس کا سب سے بڑا فائدہ کہ اب جو مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا سمجھا جائے گا اس کے بارے میں*خود بخود یہ تصدیق ہوجائے گی کہ یہ علم غیب ، حاضر و ناظر ، استعانت ، شفاعت وغیرہ کا قائل ہے اور معمولات اہلسنت عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قیام ، صلوۃ وسلام کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں*فقط اپنے آپ کو سنی کہنا کافی ہے تو میں*یہ کہوں گا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو سنی کہے آپ اسے کیا سمجھیں گے یہ کونسا سنی ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرتے ہوئے وہابی عقائد کو حق ماننے والا یا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والا۔ ظاہر ہے صرف سنی کہنے سے کوئی شخص پہچانا نہ جائے گا مگر کوئی اپنے آپ کو بریلوی سنی کہے تو فورا سمجھ میں آجائے گا کہ یہ حنفی بھی ہے اور سچا سنی ہے ، یا پھر اپنے آپ کو کوئی مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا کہے تو بھی اس مسلمان کے عقائد و نظریات کی پوری نشاندہی ہوجاتی ہے ، اہل ایمان کو ہر دور میں*شناخت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے دیکھیے مکہ کی وادیوں میں*جب اسلام کی دعوت عام ہوئی تو اس وقت ہر صاحب ایمان کو مسلمان کہا جاتا تھا اور جب بھی کوئی کہتا میں مسلمان ہوں*تو اس شخص کے بارے میں فورا یہ سمجھ آجاتا کہ یہ اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے لیکن ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اہل ایمان کو اپنی شناخت کے لئے ایک لفظ کے استعمال کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ لفظ سنی ہے وجہ یہ تھی کہ ایک فرقہ پیدا ہوا جس سے معاذاللہ حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرنا شروع کردیا اور اس میں حد سے تجاوز کرگیا ، لیکن وہ لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اس لئے اس دور میں*اہل سنت نے اپنے آپ کو سنی مسلمان کہا ، صرف مسلمان اگر کوئی اپنے آپ کو کہتا تو اس کے بارے میں*سوال پیدا ہوتا کہ یہ کون سا مسلمان ہے ؟*حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ماننے والا مسلمان ہے یا ان پر لعن طعن کرنے والا ، لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھ آجاتا کہ یہ خلفاء کو ماننے والا مسلمان ہے ، اس طرح خلفاء پر لعن طعن کرنے والے رافضیوں کے مقابلہ میں اہل سنت کی ایک الگ شناخت ہوگئی سنی مسلمان ۔
اس سلسلے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی یہ چار مسلک تو پہلے سے موجود ہیں پھر یہ پانچواں*مسلک مسلک اعلٰی حضرت کیوں کہا جاتا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلک اعلٰی حضرت یہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ چاروں مسلک حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حق ہیں اور کسی ایک کی تقلید واجب ہے اور یہی امر اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی کتب سے ثابت ہے اس لئے اگر کوئی شافعی یا حنبلی بھی اپنے آپ کو مسلک اعلٰی حضرت سے منسوب کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ فروعیات میں اپنے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ عقائد و معمولات اہل سنت کا بھی قائل ہے ۔ رہا یہ سوال کہ مخا لفین اس سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں*کہ یہ پانچواں*مسلک ہے تو ہم سارے وہابیوں ، دیوبندیوں کو چیلنچ کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ امام احمد رضا نے کسی عقیدہ کی تائید قرآن و سنت کی دلیل کے بغیر کی ہے ، کسی بھی موضوع آپ ان کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر عقیدہ کے ثبوت میں*انہوں نے قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ اور پھر اپنے مئوقف کی تائید میں*علماء امت کے اقوال پیش کیے ہیں*، حق کو سمجھنے کے لئے شرط یہ ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکر امام احمد رضا قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ، مطالعہ کے دوران آپ واضح محسوس کریں*گے کہ اعلٰی حضرت وہی کہہ رہے ہیں جو چودہ سو سالہ دور میں*علماء*و فقہاء کہتے رہے ہیں ۔ اب بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہوا ہو اور وہ مسلک کے لفظ کو اعلٰی حضرت کی طرف منسوب کرنے پر معترض ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ یہ ایک نیا مسلک ہے تو وہابی ، دیوبندی سنبھل جائیں*اور میرے ایک سوال کا جواب دیں*کہ مولوی محمد اکرم جو کہ دیوبندیوں*کے معتمد مئورخ*ہیں ، انہوں نے موج کوثر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عقائد و نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے باربار مسلک ولی اللہ کا لفظ استعمال کیا تو کیا چاروں مسلک سے علیحدہ یہ مسلک ولی اللہ کوئی پانچواں*اور نیا مسلک ہے ؟*جو آپ کا جواب ہوگا وہی ہمارا بھی۔

Uff Ye Khuwahishat!!!

انسان کی بھی عجیب و غریب خواہشات ہوتی ہیں۔لیکن خواہشات جو بھی ہوں اس انسان کے کردار اور اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ایک عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دلہن بنے لیکن یہ خواہش کوئی قابل اعتراض خواہش نہیں کیونکہ عورت کی فطرت اور اس کے جذبات اس خواہش کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک مرد دلہن بننے کی خواہش کرنے لگے تو یہ غیرفطری خواہش اس کی ہم جنس پرستی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔

کچھ مغربی ممالک اور انڈیا میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت اب کہیں جا کر حاصل ہوئی ہے۔جبکہ یہی خواہش ہم جنس پرست دیوبندی اکابرین اپنے دلوں ہی میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے

ملاحظہ فرمائیں:

جوش محبت کا عجیب اظہار

ایک بار عشق کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے ہوئے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے جس کو ظاہر کرتے ہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جراء ت نہیں پڑتی۔ حضرت والا اس وقت نماز کے لئے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہیے کہیے احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں باربار یہ خیال آتا ہے کہ میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں۔اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجے مسرور ہوئے، بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا۔ ثواب ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (اشرف السوانح صفحہ ۶۴)

انااللہ وانا علیہ راجعون! اندازہ کریں کہ دیوبندی اکابرین شرم و حیا ، عقل سلیم اور شریعت سے کیسے کورے ہیں کہ سائل کو خود یہ احساس ہے کہ یہ غیر فطری خیال جواس کے دل میں بار بار آتا ہے بے ہودہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایسے بے ہودہ اور شرمنا ک خیال پر اشرف علی تھانوی صاحب اسے ثواب کی بشارت سنا رہے ہیں۔

نوٹ: واقعے کو تحریر کرتے ہوئے کمال چالاکی سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ واقعہ میں لکھا ہے : ایک بہت ہی بے ہودہ خیال دل میں باربار آتا ہے۔ حالانکہ واقعہ کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ سائل کے دل میں باربار پیدا ہونے والا یہ خیال نہیں بلکہ اس کی خواہش ہے۔ خواہش کی جگہ خیال کا لفظ استعمال کرکے واقعے کی بے ہودگی کو کم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔

ایک اور بے حیا واقعہ ملاحظہ فرمائیں:


ایک بار ارشاد فرمایا میں نے ایک بار خواب دیکھا تھاکہ مولوی محمد قاسم صاحب عروس کی صورت میں ہیں اور میر ا ان سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن وشوہرمیں ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے او ر انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ ۲۸۹)


آخر دیوبندیوں کا مذہب کے نام پر اپنے اکابرین کے ان سیاہ کرتوتوں کا تذکرہ کیا معنی رکھتا ہے؟؟؟!!! وہ ان حیاسوز اور شرمناک واقعات سے اپنی عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟!

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
یہ مضمون ترمیم کیا گیا ہے (ابوعیینہ المکی) 



 

Tuesday, February 21, 2012

سو برس تک سوتے رہے

اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عزیز بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کر دیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کر دیا اور ایک لاکھ کو گرفتار کرکے لونڈی غلام بنا لیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔
بخت نصر کون تھا ؟

قوم عاملقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ‘ نصر ‘ کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا بخت نصر ( نصر کا بیٹا ) رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہر سف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔ ( تفسیر جمل، ج1، ص321، البقرۃ: 259 )

کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام جب کسی طرح ‘ بخت نصر ‘ کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہو چکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بےاختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالٰی پھر اس کو آباد کرے گا ؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے  اور اللہ تعالٰی نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کر دیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کر دیا اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلا بلا کر اس شہر میں آباد کر دیا اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اور قسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔ جب حضرت عزیز علیہ السلام کو پورے ایک سو برس نیند کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالٰی نے آپ کونیند سے اٹھایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مر چکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑیں ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بوباس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمرو ہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالٰی نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیز! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے ؟ تو آپ نے خیال کرکے کہا کہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ نہیں، اے عزیز! تم پورے سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیز! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان میں گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیز علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہوکر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا:
اعلم ان اللہ علٰی کل شئ قدیر ہ ( پ3، البقرۃ: 259 )
ترجمہ کنزالایمان: میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
اس کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیز علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیز کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیز کا کیا ذکر ہے ؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہو چکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! میں ہی عزیز ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ! آپ کیسے عزیز ہو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالٰی نے ایک سو برس سلائے رکھا۔ پھر مجھ کوبیدار فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیز علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعاء مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیز علیہ السلام ہیں تو میرے لئے دعا کیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آ جائے اور میرا فالج اچھا ہو جائے۔ حضرت عزیز علیہ السلام نے دعاء کر دی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا ارو بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقیناً حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لیکر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلا شبہ یہ حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کامسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیز کو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیز ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنائیے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کر دیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیز نے توراۃ صحیح پڑھی یا نہیں ؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کر دی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کر دو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کر دوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیز نے جو توراۃ پڑھی وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیز کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ بے شک حضرت عزیز یہی ہیں اور یقیناً یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذاللہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ ( معاذاللہ )
( تفسیر جمل علی الجلالین، ج1، ص322، پ3، البقرۃ: 259 )
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
او کالذی مر علٰی قریۃ وھی خاویۃ علٰی عروشھاج قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا ج فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ ط قال کم لبثت ط قال لبثت یوما او بعض یومط قال بل لبثت مائۃ عام فانظر الی طعامک و شرابک لم یتسنہ ج وانظر الٰی حمارک و لنجعلک اٰیۃ للناس و انظر الی العظام کیف نشزھا ثم نکسوھا لحما ط فلما تبین لہ لا قال اعلم ان اللہ علی کل شئ قدیر ہ ( پ3، البقرۃ: 259 )
ترجمہ کنزالایمان: یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں بلکہ سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور گدھے کو دیکھ ( کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں ) اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
(درس ہدایت )
(1) ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیز علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ ء انگور اور خود حضرت عزیز علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہو جائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہو سکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیز علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔ ( واللہ تعالٰی اعلم )
(2) بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالٰی اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔ ( واللہ تعالٰی اعلم )


دعائوں کا طالب : حنین زبیر صدیقی