Sunday, January 20, 2013

جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَاِن تعدو نِعمَةَ اللّٰہ ِ لَا تَحصُو ھَا۔
اور اگر اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شما ر نہ کرسکوگے ۔
پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 17

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ناجائز کیوں ؟ اور
جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟
بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد اور بے حساب اور حد شمار سے باہر ہیں ، مگر ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی جان ، جان ِ جہان و جانِ ایمان حضور پر نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے ، جن کے طفیل باقی سب نعمت و انعامات ہیں اعلیٰ حضرت مجددّ دین و ملت مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے فرمایا :۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ، سب سے زیادہ اور بہت ہی اہتمام و تاکید کے ساتھ آپ کی ذات بابرکات کے بھیجنے کا احسان ظاہر فرمایا ۔
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔
بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔
)
پ 14 ، رکوع 8 (


چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے ، اس لئے اہل ایمان اس کی سب سے بڑھ کر قدرو منزلت جانتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتے ہیں اور جس ماہ یوم میں اس احسان و نور و نعمت کا ظہور ہوا ، اس میں اس کا بالخصوص چرچا و مظاہرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ مولیٰ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی نعمتوں کی تذکیر تشکر اور ذکر اذکار کا حکم فرمایا ہے خاص طور پر سورۃ الضحیٰ میں ارشاد ہوا ہے ۔
واما بنعمة ربک فحدث ۔
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔
پ 30 رکوع 18 ۔
پھر بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے نعم اللہ ہونے کا بیان اور ناشکری و ناقدری کرنے والے بے دینوں کا رد فرمایا ۔
الم تر الی الذین بدلو انعمة اللہ کفراََ۔
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی ۔
پ 13 رکوع 17

بخاری شریف و دیگر تفاسیر میں سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ::
کہ ناشکری کرنے والے کفار ہیں ۔ ومحمدنعمۃ اللّٰہ ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں
(
بخاری شریف جز ثالث صفحہ 6 )

جب اللہ کے فرمان اور قرآن سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص نعمت ہیں جس پر اللہ نے اپنے خاص احسان کا ذکرفرمایا اور پھر نعمت کا چرچا کرنے کا بھی حکم دیا تو اب کون مسلمان و اہل ایمان ہے جو آپ کی ذات بابرکات ، نور کے ظہور اور دنیا میں جلوہ گری و تشریف آوری کی خوشی نہ منائے ، شکر ادا نہ کرے اور سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑھ کر چرچا و مظاہرہ پسند نہ کرے اور نعمت عظمٰی کے خصوصی شکرانہ اور چرچا و مظاہرہ کے لئے جشن عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولود شریف اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس مبارک پر برا منائے اور زبان طعن دراز کرے ۔
مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خاں مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔
حبیب حق ہیں خدا کی نعمت بنعمۃ ربک فحدث
یہ فرمان مولٰی پر عمل ہے جو بزم مولد سجارہے ہیں

رحمت کے خوشی :۔
قرآن ہی میں یہ بھی بیان ہے کہ
تم فرما اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہیے ، کہ خوشی کریں ، وہ ان کی سب دھن دولت سے بہتر ہے
پ 11 رکوع 11
۔جس طرح اوپر نعمت کا چرچا کرنے کا ذکر ہوا ہے ، اسی طرح یہاں فضل و رحمت پر خوشی
منانے کا بیان ہے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ
اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت بلکہ جانِ رحمت اور رحمۃ اللعالمین
پ17 رکوع 7

آپ کی ذاتِ بابرکات ہے یہاں فضل و رحمت سے اگر کوئی بھی چیز مراد لی جائے تو یقینا وہ بھی آپ ہی کا صدقہ وسیلہ اور طفیل ہے ، لہذا آپ بہر صورت بدرجہ اولیٰ فضل الہٰی و رحمت خداوندی اور نعمۃ اللہ ہونے کا مصداق کامل ہیں ، کیونکہ دونوں جہان میں آپ کا ہی سب فیضان ہے اور آپ کی خوشی منانا ، چرچا و مظاہرہ کرنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان و فرمان خداوندی کے تحت و اس کے مطابق ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس کے مخالف و منکر اور شرک و بدعات ۔
خدا کا شکر نعمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت ہے یہ دونوں کی اطاعت ہے قیام محفل مولدحصول فیض و رحمت ہے نزول خیر و برکت ہے حصول عشق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے قیام محفل مولد نہ اس میں رفع سنت ہے نہ شرک و کفر بدعت ہے یہ رد شرک و بدعت ہے قیام محفل مولد
یوم ولادت کی اہمیت :۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر شریف (سوموار) کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا :
فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔
(
مشکوۃ شریف صفحہ 179 )

اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یوم نزول قرآن کی اہمیت اور اس دن کی یادگار منانا اور شکر نعمت کے طور پر روزہ رکھنا ثابت ہوا جیسے ہفتہ وار دنوں کے حساب سے یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی یادگار اہمیت ہے ویسے ہی سالانہ تاریخ کے حساب سے بھی یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی اہمیت و امت میں مقبولیت ہے ، جس طرح نزول قرآن کا دن پیر 27 رمضان المبارک کو سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ، اسی طرح یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن پیر 12 ربیع الاوّل میں ہونے کے باعث اہل اسلام میں ماہ ربیع الاوّل و 12 ربیع الاوّل کی سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ۔ بلکہ امام احمد بن محمد قسطلانی شارح بخاری اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدّث دہلوی شارح مشکوٰۃ ( رحمۃ اللہ علیہما ) جیسے محدثین نے نقل فرمایا کہ امام احمد بن حنبل جیسے امام واکابر علماءامت نے تصریح کی ہے کہ شب میلاد شب قدر سے افضل ہے ۔ نیز فرمایا جب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے دن جمعۃ المبارک میں مقبولیت کی ایک خاص ساعت ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی ساعت کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ۔
(
اس کی شان کا کیا عالم ہوگا)
(زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ135.136 ۔ مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 13 )
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا خوب ترجمانی کی ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

لفظ عید کی تحقیق :۔
مذکورہ ارشادات کی روشنی میں مزید عرض ہے کہ بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔
 
مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140
ملخصاََ لہذا جب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن عید کا دن بلکہ دونوں عیدوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے تو سیدنا سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جب کہ سب کچھ آپ کا ہی فیضان ، آپ کے دم قدم کی بہار اور آپ ہی کے نور کا ظہور ہے ۔
ہے انہی کے دم قدم سے باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں

صحابہ کا فتویٰ :۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔
 مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و
جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔ جو سب کی اصل و سب مخلوق سے افضل ہیں ۔ مگر
آنکھ والے تیرے جلووں کا نظارہ دیکھے
دیدہ ء کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
قرآن کی تائید :
عیسٰی ابن مریم نے عرض کی : اے اللہ ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ۔
کہ وہ دن ہمارے لئے عید ہوجائے اگلوں او ر پچھلوں کی ۔
پارہ 7 آیت 114 سورہ المائدہ

سبحان اللہ !! جب مائدہ اور من و سلویٰ جیسی نعمت کا دن عید کا دن قرار پایا ۔ تو سب سے بڑی نعمت یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شک رہا ؟

محدثین کا بیان :
امام احمد بن محمد قسطلانی علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعائیہ بیان نقل فرمایا :
 فرحم اللہ امراءاتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیادہ ۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے ، جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ میلاد کی راتوں کو عیدوں کی طرح منائے ۔
زرقانی شرح المواہب جلد اول صفحہ 139 ۔ ماثبت من السنۃ صفحہ 60
 دیکھئے ایسے جلیل القدر محدثین نے نہ صرف ایک دن بلکہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب راتوں کو عید قرار دیا ہے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ منانے والوں کے لئے دعائے رحمت بھی فرمائی ہے ، جس دن کی برکت سے ربیع الاول کی راتیں بھی عیدیں قرار پائیں ۔ 12 ربیع الاول کا وہ خاص دن کیونکر عید قرار نہ پائے گا ؟ بلکہ امام دادودی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں آپ کی ولادت کی جگہ مسجد حرام کے بعدسب سے افضل ہے اور اہل مکہ عیدین سے بڑھ کر وہاں محافل میلاد کا انعقاد کرتے تھے ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مبارک جگہ محفل میلاد میں حاضری اور مشاہدہ ءانوار کا ذکر فرمایا ۔
جواہر البحار جلد سوم صفحہ 1154 فیوض الحرمین صفحہ 27

مفسرین کا اعلان : ۔
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی صاحب ) تفسیر کبیر(نے نقل فرمایا کہ:
 جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔
 )النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 (
مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔
 تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56

12 ربیع الاول پر اجما ع امت :۔
امام قسطلانی ، علا مہ زرقانی ، علامہ محمد بن عابدین شاکی کے بھتیجے علامہ احمد بن عبد الغنی دمشقی ، علامہ یوسف نہبانی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم نے تصریح فرمائی کہ امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ علماءکی تحقیق ہے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے ۔
 علامہ ابن کثیر نے کہا یہی جمہور سے مشہور ہے اور علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس لئےکہ سلف و خلف کا تمام شہروں میں 12 ربیع الاول کے عمل پر اتفاق ہے ۔ بالخصوص اہل مکہ اسی موقع پر جائے ولادت باسعادت پر جمع ہوتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ ملخصاََ
زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ
132 ۔ جواہر البحار جلد 3 صفحہ
 1147 ۔ماثبت من السنۃ صفحہ 57
۔ مدارج النبوت صفحہ 14

واقعہءابولہب : ۔
جلیل القدر آئمہ محدثین نے نقل کیا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سن کر اسے آزاد کردیا ، جس کے صلہ میں بروز پیر اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور انگلی سے پانی چوسنا میسر آتا ہے ، جب کافر کا یہ حال ہے تو عاشق صادق مومن کے لئے میلاد شریف کی کتنی برکات ہوں گی ؟
 بخاری جلد 3 صفحہ 243 ، مع شرح زرقانی صفحہ 139 ماثبت بالسنہ صفحہ 60
دوسروں کی زبان سے :۔
ہفت روزہ اہلحدیث, لاہور۔27 مارچ 1981 ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے ۔
ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر( اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔

جلوس :۔
حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔
(اہلحدیث 16.1.81...27.3.81. )

تنظیم اہلحدیث :۔
جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ
 (تنظیم اہلحدیث) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ، اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔
 ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981
سبحان اللہ ! اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔
ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ ؛

یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے
کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی
خوشی ہے عید میلاد النبی کی
یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی
کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی
حضور سرور ذات گرامی


الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے ۔

مسئلہ بدعت :۔
 مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے ۔

میرے مولا کے میلاد کی دھوم ہے :: ہے وہ بد بخت جو آج محروم ہے

اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا کیا جواب ہے ؟
تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے :: اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے
منکرین میلاد کا کردار :۔
جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں
مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں
مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں
مگر
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے
تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے



No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.