Wednesday, January 16, 2013

نفی غیب کی احادیث کے بیان میں

مخالفین نفی غیب کے لئے بہت سی احادیث پیش کرتے ہیں۔ ان سب کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ ان احادیث میں حضور علیہ السلام نے یہ نہ فرمایا کہ مجھے رب نے فلاں چیز کا علم نہ دیا بلکہ کسی میں تو ہے ۔“ اللہ اعلم“کسی میں ہے مجھے کیا خبر کسی میں ہے کہ فلاں بات حضور علیہ السلام نے نہ بتائی۔ کسی میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فلاں سے یہ بات پوچھی۔ اور یہ تما باتیں علم کی نفی ثابت نہیں کرتی۔ نہ بتانا یا پوچھنا یا اللہ اعلم فرمایا اور بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے بہت سی باتیں خدا نے بندوں کو نہ بتائیں ۔ سوال کے باوجود مخفی رکھا ۔ بہت سی چیزوں کے متعلق پروردگار عالم فرشتوں سے پوچھتا ہے کیا اس کو بھی علم نہیں۔ ایک حدیث قطعی الدالالت ایسی لاؤ ۔ جس میں عطائے علم غیب کی نفی ہو۔ مگر انشاء اللہ نہ لاسکیں گے۔ یہ جواب نہایت کافی تھا مگر پھر بھی ان کی مشہور احادیث عرض کر کے جواب عرض کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ 
اعتراض 1۔ 
مشکوٰۃ باب الاعلان النکاح کی پہلی حدیث ہے کہ حضور علیہ السلام ایک نکاح میں تشریف لے گئے جہاں انصار کی کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بدر کے مقتولین کے مرثیہ کے گیت گانے لگیں ان میں سے کسی نے یہ مصرعہ پڑھا۔ 
وفینا نبی یعلم ما فی غد۔ 
“ ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔“
تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو۔ وہ ہی گائے جاؤ جو پہلے گا رہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب نہیں تھا اگر ہوتا تو آپ ان کو یہ کہنے سے نہ روکتے ۔ سچی بات سے کیوں روکے۔ 

جواب: 
اولا تو غور کرنا چاہیئے کہ یہ مصرع خود ان بچیوں نے تو بنایا ہی نہیں۔ کیونکہ بچیوں کو شعر بنانا نہیں آتا۔ اور نہ کسی مفر و مشرک نے بنایا۔کیوں کہ وہ حضور علیہ السلام کو نبی نہیں مانتے تھے لا محالہ یہ کسی صحابی کا شعر ہے۔ بتاؤ وہ شعر بتانے والے صحابی معاذ اللہ مشرک ہیں یا نہیں؟ پھر حضور علیہ السلام نے نہ تو اس شعر بنانے والے کو برا کہا نہ شعر کی مذمت کی ۔ بلکہ ان کو گانے سے روکا ۔ کیوں روکا؟ چار وجہ سے اولا یہ کہ اگر کوئی ہمارے سامنے ہماری تعریف کرے۔ تو بطور انکسار کہتے ہیں ۔ ارے میاں! یہ باتیں چھوڑو وہ ہی بات کرو ۔ یہ بھی انکسار ا فرمایا۔ دوم یہ کہ کھیل کود۔ گانے بجانے کے درمیان نعت کے اشعار پڑھنے سے ممانعت فرمائی اس کے لئے ادب چاہیئے ۔ تیسرے یہ کہ علم غیب کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ناپسند فرمایا ۔ چوتھے یہ کہ مرثیہ کت درمیان نعت ہونا نا پسند فرمایا۔ جیسا کہ آج کل نعت خواں کرتے ہیں کہ نعت و مرثیہ ملا ملا کر پڑھتے ہیں۔ 
مرقاۃ میں اسی حدیث کے ما تحت ہے۔ 
لکرامۃ نسبۃ علم الغیب الیہ لانہ لا یعلم الغیب الا اللہ وانما یعلم الرسول من الغیب ما اعلمہ او لکرامۃ ان یذکر فی النار ضرب الدف واثناء مرثیۃ القتلی لعلو منصبہ عن ذالک۔ 
“ منع فرمایا کہ علم کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ۔ کیونکہ علم غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور رسول وہ ہی غیب جانتے ہیں جو اللہ تعالٰی بتائے یا یہ پسند کیا کہ آپ کا ذکر دف بجانے میں یا مقتولین کے مرثیے کے درمیان کیا جاوے کہ آپ کا درجہ اس سے اعلٰی ہے۔“ 
اشعتہ اللمعات میں اسی حدیث کے ماتحت ہے۔ 
گفتہ اند کہ منع آنحضرت ازیں قول بجھت آں است کہ دروے اسناد علم غیب است بہ آنحضرت رانا خوش امدو بعضے گویند کہ بجھت آں است کہ ذکر شریف دے در اثنا لہو مناسب نہ باشد۔ 
شارحین نے کہا ہے حضور علیہ السلام کا اس کو منع فرمانا اسلئے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے۔ لہذا آپ کو ناپسند آئی اور بعض نے فرمایا کہ آپ کا ذکر شریف کھیل کود میں مناسب نہیں۔ 
اعتراض 2: 
مدینہ پاک میں انصار باغوں میں نر برخت کی شاخ مادہ درخت میں لگاتے تھے تا کہ پھل زیادہ دے اس فعل سے انصارکو حضور علیہ السلام نے منع فرمایا ( اس کام کو عربی میں تلقیح کہتے ہیں) انصار نے تلقیح چھوڑ دی ۔ خدا کی شان کے پھل گھٹ گئے اس کی شکایت سرکار دوعالم کی خدمت پیش ہوئی تو فرمایا : 
انتم اعلم بامور دنیاکم۔ 
“ اپنے دنیاوی معاملات تم جانتے ہو۔“
معلوم ہوا کہ آپ کو علم نہ تھا کہ تلقیح روکنے سے پھل گھٹ جاوینگے اور انصار کا علم آپ سع زیادہ ثابت ہوا۔ 

جواب: 
حضور علیہ السلام کا فرمانا“ انتم اعلم بامور دنیاکم“ اظہار ناراضگی ہے کہ جب تم صبر نہیں کرتے تو دنیاوہ معاملات تم جانو۔ جیسے ہم کسی سے کوئی بات کہیں اور وہ اس میں کچھ تامل کرے تو کہتے ہیں بھائی تو جان۔ اس سے نفی علم مقصود نہیں۔ 
شرح شفاء علی قاری بحث معجزات میں فرماتے ہیں ۔ 
وخصہ اللہ من الاطلاع علٰی جمیع مصالح الدنیا والدین واستشکل بانہ علیہ السلام وجد الانصار یلقحون النکل فقال لو ترکتموہ فلم یخرج شیئا او خرج شیصا فقال انتم اعلم بامور دنیاکم قال الشیخ السسوسی اراد ان یحملھم علٰی خرق العوائد فی ذلک الٰی باب التوکل واما ھناک فلم یمتثلوا فقال انتم اعرف بدنیا کم ولو امتثلوا و تحملوا فی سنۃ او سنتین لکفوا امر ھذہ المحنۃ۔ 
“ اللہ تعالٰی نے حضور علیہ السلام کو تمام دینی و دنیاوی مصلحتوں پر مطلع فرمانے سے خاص فرمایا اس پر یہ اعتراض ہے کہ حضور علیہ السلام نے انصار کو درختوں کی تلقیح کرتے ہوئے پایا تو فرمایا تم اس کو چھوڑ دیتے تو اچھا تھا انہوں نے چھوڑ دیا تو کچھ پھل ہی نہ آیا یا ناقص آیا تو فرمایا کہ اپنے دنیاوی معاملات تم جانو۔ شیخ سنوسی نے فرمایا کہ آپ نے چاہا تھا کہ ان کو خلاف عادت کام کر کے باب توکل تک پہنچا دیں۔ انہوں نے نہ مانا تو فرما دیا کہ تم جانو۔ اگر وہ مان جاتے اور دو ایک سال نقصان برداشت کر لیتے تو اس محنت سے بچ جاتے۔“ 
ملا قاری اسی شرح شفاء جلد دوم صفحہ 238 میں فرماتے ہیں ۔ 
ولو ثبتوا اعلٰی کلامہ افاقوا انی الفن تقع عنھم کلفۃ المعالجۃ۔ 
“ اگر وہ حضرات حضور کے فرمان پر ثابت رہتے تو اس فن میں فوقیت لیجاتے اور ان سے اس تلقیح کی محنت دور ہو جاتی۔“ 
فصل الخطاب میں علامہ قیصری سے نقل فرمایا۔ 
ولا یعزب عن علمہ علیہ السلام مچقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء من حیث مرتبتہ وان کان یقول انتم اعلم بامور دنیاکم۔ 
حضور علیہ السلام کے علم سے زمین و آسمان میں ذرہ پھر چیزیں پوشیدہ نہیں اگرچہ آپ فرماتے تھے کہ دنیاوی کام تم جانو ۔“ حضرت یوسف علیہ السلام نے کبھی کاشتکاری نہ کی تھی اور نہ کاشتکاروں کی صحبت حاصل کی۔ مگر زمانہ قحط آنے سے پہلے حکم دیا کہ غلہ کاشت کرو ۔ اور فرمایا : 
فما حصدتم فذروہ فی سنبلہ۔ 
“ کہ جو کچھ کاٹو اس کو بالی ہی میں رہنے دو۔“
یعنی گیہوں کی حفاظت کا طریقہ سکھایا۔ آج بھی غلہ کو بھوسے میں رکھ کر اس کی حفاظت کرتے ہیں ان کو کھیتی باڑی کا خفیہ راز کس طرح معلوم ہوا؟ اور فرمایا:
 

اجعلنی علٰی خزائن الارض انی حفیظ علیم۔ ( پارہ 13 سورہ 12 آیت 55) 
“ مجھ کو زمین کے خزانوں پر مقرر کردو میں اس کا محافظ اور ہر کام جاننے والا ہوں۔“
یہ ملکی انتظامات وغیرہ کس سے سیکھے؟ تو کیا حضور علیہ السلام کی دانائی اور حضورکا علم حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی کم ہے ،معاذ اللہ۔ 

اعتراض 3۔ 
ترمذی کتاب التفسیر سوری انعام میں ہے کہ حضرت مسروق عائشی صدیقہ رضی اللہ عنھما سے روایت فرماتے ہیں کہ جو شخص کہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنے رب کو دیکھا یا کسی شئی کو چھپایا وہ جھوٹا ہے۔ 
ومن زعم انہ یعلم فافی غد فقد اعظم الفریۃ علے اللہ۔ 
“ اور جو کہے کہ حضور علیہ السلام کل کی بات جانتے ہیں اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔“ 
جواب: 
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا۔ 
مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا۔ سورج نکلے گا، رات آوے گی۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔ 

اعتراض 4۔ 
صدیقہ کا ہار گم ہو گیا۔ جگہ جگہ تلاش کرایا گیا نہ ملا پھر اونٹ کے نیچے سے بر آمد ہوااگر حضور علیہ السلام کو علم تھا تو لوگوں کو اسی وقت کیوں نہ بتا دیا کہ ہار وہاں ہے۔ معلوم ہوا کہ کہ علم نہ تھا۔ 
جواب: 
اس حدیث سے نہ بتانا ثانت ہوا کہ نہ کہ نہ جاننا اور نہ بتانے میں صدہا حکمتیں ہوتی ہیں حضرات صحابہ نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کا سبب دریافت کیا۔ رب تعالٰی نے نہ بتایا تو کیا خدائے پاک کو بھی علم نہیں؟ مرضی الہٰی یہ تھی، صدیقہ کا ہار گم ہو، مسلمان اس کی تلاش میں یہاں رک جاویں ظہر کا وقت آجاوے پانی نہ ملے۔ تب حضور علیہ السلام سے عرض کیا جاوے کہ اب کیا کریں تب آیت تیمم نازل ہو جس سے حضرت عائشہ صدیقہ کی عظمت قیامت تک مسلامن معلوم کریں ان کے طفیل ہم کو تیمم ملا۔ اگر اسی وقت ہار بتا دیا جاتا ۔ تو آیت تیمم کیوں نازل ہوتی۔ رب کے کام اسباب سے ہوتے ہیں ۔ تعجب ہوتا ہے کہ جو آنکھ قیامت تک کے حالات کو مشاہدہ کرے ۔ اس سے اونٹ کے نیچے کی چیز کس طرح مخفی رہے۔ شان محبوب علیہ السلام پہچاننے کی خدا توفیق دے۔ 

اعتراض 5: 
مشکوٰۃ باب الحوض و الشفاء میں ہے۔ 
لیردن علی اقوام اعرفھم ویعر فوننی ثم یحال بینی و بینھم فاقول انھم منی فیقال انک لا تدری ما احد ثوا بعدک فاقول سحقا سحقا لمن غیر بعدی۔ 
“ حوض پر ہمارے پاس کچھ قومیں ائینگی جنکو ہم پہچانتے ہیں پھر ہمارے اور ان کے درمیان آڑ کر دی جاوے گی ہم کہیں گے کہ یہ تو ہمارے لوگ ہیں تو کہا جاویگا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کئے پس فرمائیں گے دوری ہو دوری ہو اس کو جو میرے بعد دین بدلے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت میں بھی اپنے پرائے اور مومن و کافر کی پہچان نہیں ہو گی کیونکہ آپ کا مرتدین کو فرمائیں گے کہ یہ میرے صحابہ ہیں اور مللائکہ عرض کریں گے کہ آپ نہیں جانتے۔ 

جواب: 
حضور علیہ السلام کا ان کا صحابی کہنا طعن کے طور پر ہوگا کہ ان کو آنے دو یہ تو ہمارے بڑے مخلص صحابہ ہیں ملائکہ کا یہ عرض کرنا ان کو سنا کر غمگین کرنے کے لئے ہوگا۔ ورنہ ملائکہ نے ان کو یہاں تک آنے ہی کیوں دیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ جھنمی کافر سے کہا جاویگا۔ 
ذق انک انت العزیز الکریم۔ 
“ عذاب چکھ، تو تو عزت و کرم والا ہے۔‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج کو دیکھ کر فرمایا تھا “ ھذا ربی“ یہ میرا رب ہے۔
پھر غور کی بات ہے کہ آج تو حضور علیہ السلام اس سارے واقعہ کو جانتے ہیں اور فرماتے ہیں “ اعرفھم “ ہم ان کو پہچانتے ہیں ۔ کیا اس دن بھول جائیں گے؟ نیز قیامت کے دن مسلمانوں کی چند علامات ہوں گی۔ اعضاء وضو کا چمکنا، چہرا نورانی ہونا،“ یوم تبیض وجوہ و تسودہ“ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال کا ہونا۔ پیشانی پر سجدہ کا داغ ہونا۔ 
( دیکھو مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ ) 

اور کفار کی علامات ہوں گی ان کے خلاف ہونا ۔ اور ان لوگوں کو ملائکہ کا روکنا۔ ان کے ارتداد کی خاص علامت ہوگی جو آج بیان ہو رہی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اتنی علامات کے ہوتے ہوئے حضور ان کو نہ پہچانیں ۔ نیز آج تو حضور علیہ السلام نے جنتی و جھنمی لوگوں کی خبر دے دی۔ عشرہ مبشرہ کو بشارت دے دی۔ دو کتابیں صحابہ کرام کو دکھا دیں ۔ جن میں جنتی اور جہنمی لوگوں کے نام ہیں وہاں نہ پہچانتے کے کیا معنٰی؟ حضور علیہ السلام کو خبر نہیں ۔ رب فرماتا ہے۔ 
“یعرف المجرمون بیسماھم“ ۔۔۔۔۔۔۔ نیز فرماتا ہے کہ “ سیماھم وجوھم من اثر السجود“ معلوم ہوا کہ قیامت میں نیک و بد لوگوں کی علامت چہروں پر ہوں گی۔ 
مشکوٰہ باب الحوض و الشفاعۃ میں ہے کہ جنتی مسلمان جھنمی مسلمانوں کو نکالنے کے لئے جہنم میں جائیں گے اور ان کی پیشانی کے داغ سجدہ دیکھ کر ان کو جل چکنے کے بعد نکالیں گے اور ان سے فرمایا جاویگا۔ 
فمن وجدتم فی قلبہ مچقال ذرۃ من خیر فاجر جوہ۔ 
“ جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان پاؤ۔ اس کو نکال لے جاؤ۔“
دیکھو جنتی مسلمان دوزخی مسلمانوں کے دل کے ایمان کو پہچانتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس کے دل میں کس درجہ کا ایمان ہے۔ دینار کے برابر یا ذرہ برابر ۔ لیکن حضور علیہ السلام کو چہرہ دیکھ کر بھی خبر نہیں ہوئی کہ یہ مسلمان ہیں یا کافر۔ اللہ تعالٰی سمجھ نصیب کرے ۔ 

اعتراض 6۔ 
بخاری جلد اول کتاب الجنائز میں حضرت ام العلاد کی روایت ہے۔ 
واللہ ما ادری وانا رسول اللہ یفعل بی۔ 
“ خدا کی قسم میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جاوے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو اپنی بھی خبر نہ تھی کہ قیامت میں میں مجھ سے کیا معاملہ ہوگا۔ 

جواب: 
اس جگہ علم کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ درایتہ کی نفی ہے ۔ یعنی میں اپنے اٹکل و قیاس سے نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ بلکہ اس کا تعلق وحی الہٰی سے ہے تو اے ام العلاء تم جو عثمان ابن مظعون کے جنتی ہونے کی گواہی محض قیاس سے دے رہی ہو۔ یہ معتبر نہیں ۔ اس غیب کی خبروں میں تو انبیا کرام بھی قیاس نہیں فرماترے ورنہ مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین میں کہ ہم اولاد آدم کے سردار ہیں اس روز لواء الحمد ہمارے ہاتھ میں ہو گا ۔ آدم ہمارے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ان کی مطابقت کس طرح کی جاوے گی۔ 
اعتراض 7۔ 
بخاری جلد دوم کتاب المغازی باب حدیث افک میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی۔ آپ اس میں پریشان تو رہے مگر بغیر وحی آئے ہوئے کچھ نہ فرماسکے کہ یہ نہمت صحیح ہے کہ غلط اگر علم غیب ہوتا تو پریشانی کیسی؟ اور اتنے روز تک خاموشی کیوں فرمائی؟ 
جواب۔ 
اس میں بھی نہ بتانا ثابت ہے نہ کہ جاننا۔ نا بتانے سے نہ جاننا لازم نہیں آتا۔ خود رب نے بھی بہت روز تک ان کی عصمت کی آیات نہ اتاریں تو کیا رب کو خبر نہ تھی نیز بخاری کی اسی حدیث میں ہے۔ 
ما علمت علٰی اھلی الا خیرا۔ 
“ میں اپنی بیوی کی پاکدامنی ہی جانتا ہوں۔“
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم ہے، وقت سے پہلے اظہار نہیں اور یہ تو ہو سکتا ہی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ پر بد گمانی ہوئی ہو۔ کیونکہ رب تعالٰی نے مسلمانوں کو عتابا فرمایا۔ 

لولا اذسمعتوہ ظن المومنون و المومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ ( پارہ 18 سورہ 24 آیت 12) 
“ یعنی مسلمان مردوں و عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور فورا کیوں نہ کہا کہ کھلا بہتان ہے۔“
پتہ لگا کہ نزول براءت سے پہلے ہی مسلمانوں پر نیک گمانی واجب اوربد گمانی حرام تھی اور نبی علیہ السلام حرام سے معصوم ہیں۔ تو آپ بد گمانی ہز گز نہیں فرما سکتے۔ ہاں آپ کا فورا یہ فرمانا “ ھذا افک مبین“ آپ پر واجب نہ تھا کیونکہ یہ آپ کے گھر کا معاملہ تھا۔ رہی پریشانی اور اتنا سکوت، یہ کیوں ہوا؟ پریشانی کی وجہ معاذ اللہ لا علمی نہیں ہے۔ اگر کسی عزت و عظمت والے کو غلط الزام لگا دیا جاوے اور خود جانتا بھی ہو کہ یہ الزام غلط ہے۔ پھر بھی اپنی بد نامی کے اندیشے سے پریشان ہوتا ہے لوگوں میں افواہ کا پھیلنا ہی پریشانی کا باعث ہوا۔ اگر آیات نزول کے انتظار میں نہ فرمایا جاتا۔ اور پہلے ہی عصمت کا اظہار فرمایا جاتا تو منافقین کہتے کہ اپنی اہل کانہ کی ھمایت کی۔ اور مسلمانوں کو تہمت کے مسائل نہ معلوم ہوتے اور پھر مقدمات میں تحقیقات کرنےکا طریقہ نہ آتا اور صدیقہ الکبرٰی کع صبر کا وہ ثواب نہ ملتا جو اب ملا۔ اس تاخیر میں صد ہا حکمتیں ہیں۔ اور یہ تو مسئلہ عقئد کا ہے کہ نبی کی بیوی بد کار نہیں ہو سکتی ۔
 رب تعالٰی فرماتا ہے۔ 

الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات۔ ( پارہ 18 سورہ 24 آیت 26) 
“ گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لئے۔“
اس گندگی سے مراد گندگی زنا ہے۔ یعنی نبی کی بیوی زانیہ نہیں ہو سکتی۔ ہاں کافرہ ہو سکتی ہے کہ کفر سخت جرم ہے۔ مگر گھنونی چیز نہیں ۔ ہر شخص اس عار نہیں کرتا اور زنا سے ہر طبیعت نفرت اور عار کرتی ہے اسی لئے انبیاء کی بیوی کو کبھی خواب میں احتلام نہیں ہوتا۔ دیکھو مشکوٰۃ کتان الغسل کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تعجب فرمایا کہ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ اور اس کی تحقیق ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن میں بھی ہے ۔ تو کیا حضور علیہ السلام کو عقیدے کا یہ مسئلہ بھی معلوم نہیں تھا کہ صدیقہ سید الانبیاء کی زوجی پاک ہیں ان سے یہ قصور ہو سکتا ہی نہیں ۔ نیز مرضی الہٰی یہ تھی کہ محبوبہ محبوب علیہ السلام کی عصمت کی گواہی ہم براہ راست دیں اور قرآن میں یہ آیت اتار کر قیامت تک کے مسلمانوں سے تمام دنیا میں ان کی پاکدامنی کے خطبے پڑھوا لیں کہ نمازی نمازوں میں ان کی عفت کے گیت کایا کریں اب اگر حضور علیہ السلام خود ہی بیان فرمادیتے تو یہ کوبیاں حاصل نہ ہوتیں غرضیکہ علم تو تھا اظہارنہ تھا۔
لطف یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے تہمت لگائی ۔ تو رب تعالٰی نے ان کی صفائی خود بیان نہ فرمائی بلکہ ایک شیر خوار بچہ کے ذریعہ چاکدامنی سے پاکدامنی فرمادی۔ حضرت مریم کو تہمت لگی ۔ تو شیر خوار روح اللہ سے ان کی عصمت ظاہر کی۔ مگر محبوب علیہ السلام کی محبوبہ روزی کو الزام لگا تو کسی بچہ یا فرشتہ سے عصمت کی گواہی نہ دلوائی گئی۔ بلکہ یہ گواہی خود خالق نے دی اور گواہی کو قرآن کو جزو بنایا۔ تاکہ یہ گواہی ایمان کا رکن بنے اور مخلوق کو حضور علیہ السلام کی محبوبیت کا پتہ چلے۔ 


تنبیہ: 
ایک جہل ہے ایک نسیان ہے ایک دھول۔ جہل نہ جاننا ہے۔ نسیان جان کر حافظہ سے نکل جانا۔ ڈھول یہ ہے کہ کوئی چیز ھافظہ میں ہو مگر ادھر توجہ نہ رہے۔ ایک شخص قرآن نہ پڑھا ، دوسرے نے حفظ کر کے بھلا دیا، تیسرا شخص حافظہ کامل ہے۔ اگر کسی وقت کوئی آیت اس سے پوچھی تو بتا نہ سکا۔ توجہ نہ رہی۔ پہلا تو قرآن سے جاہل، دوسرا ناسی، تیسرا ذاہل ہے۔ انبیائے کرام کو بعض وقت کسی خاص چیز کا نسیان ہو سکتا ہے مگربعد میں اس پر قائم نہیں رہتے۔ قرآن کریم سیدنا آدم علیہ السلام کے لئے فرماتا ہے۔ 
فنسی ولم نجد عزما۔ 
“ وہ بھول گئے ہم نے ان کا قصد نہ پایا۔“
حضرت آدم علیہ السلام کی نظر لوح محفوظ پر تھی۔ یہ تمام واقعات پیش نظر تھے۔ مگر ارادہ الہٰی کہ کچھ مدت کے لئے نسیان ہو گیا۔ قیامت میں شفیع کی تلاش میں سارے مسلمان جن میں محدثین و مفسرین و فقہاء سب ہی ہیں۔ انبیاء کرام کے پاس جائیں گے کہ آپ شفاعت فرمادیں۔ وہ شفاعت تو نہ کریں گے اور نہ شفیع المذنبین کا صحیح متہ دیں گے۔ خیال سے فرمادیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ۔ وہاں جاؤ، وہاں جاؤ شاید وہ تمھاری شفاعت کریں ۔ حالانکہ دنیا میں سب کا عقیدہ تھا اور ہے کہ قیامت میں شفیع المذنبین حضور علیہ السلام ہی ہیں۔ یہ ہوا ڈھول کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ رہی۔ ۔ اگر حضور علیہ السلام کسی وقت کوئی بات نہ بتائیں تو اس کی وجہ ڈھول ( ادھر توجہ کا نہ ہونا) ہو سکتی ہے۔ بے علمی ثابت نہ ہوگی رب تعالٰی فرماتا ہے ۔ 

وان کنت من قبلہ لمن الغافلین ۔ 
“ اگر چہ آپ اس سے پہلے واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بے پرواہ تھے۔“
غافل فرمایا جاہل نہ فرمایا۔ غافل وہ کہ واقعہ علم میں ہے ۔ مگر ادھر دھیان نہیں گلستان میں فرماتے ہیں کسی نے حضرت یوسف علیہ السلام سے پوچھا۔ 

زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا چاہ کنعائش ندیدی! 
“ کہ آپ نے حضرت یوسف کے کرتہ کی خوشبو مصر سے تو پائی۔ مگر تنعان کے کنویں میں رہے۔ تو آپ معلوم نہ کرسکے۔ جواب دیا 

بگفت احوال ما برق جہاں است دمے پیدا و دیگر دم نہاں است 
گہے بر طارم اعلٰی تشینیم ! گہے پشت پائے خود نہ بینیم 
“ فرمایا کہ ہمارا حال بجلی تڑپ کی طرح ہے کبھی ظاہر کبھی چھپا ہوا ۔ قرانی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ ماہ کنعان مصر میں تجلی دے رہا ہے ۔ فرماتے ہیں 
واعلم من اللہ ما لا تعلمون ( پارہ 13 سورہ 12 آیت 86) 
“ مجھے خدا کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم کو نہیں معلوم۔“ 
روح البیان پارہ بارہ زیر آیت “ ولقد ارسلنا نوحا الٰی قومہ“ میں ہے کہ رب تعالٰی کو اپنے پیاروں کا رونا نہت پسند ہے حضرت نوح اتنا روئے کہ نام ہی نوح ہوا ۔ یعنی نوحہ اور گریہ زاری کرنے والے۔ حضرت یعقوب کے رونے کے لئے فراق یوسف سب ظاہری تھا ورنہ ان کا رونا بلندی درجات کا سبب تھے۔ لہذا ان کا یہ رونا حضرت یوسف سے بے خبری کی وجہ سے نہ تھا بلکہ “ المجاز قبطرۃ الحقیقۃ“ مثنوی میں ہے۔ 
عشق لیلی نیست امین کارمنست حسن لیلٰی عکس رخسار منست
خوش بیاید نالئہ شب ہائے تو ذوقہا دارم بیار بہائے تو 

بنیامین کو مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک حیلہ سے روک لہا۔ بھوئیو نے اگر قسم کھائی اور قافلوں والوں کی گواہی پیش کی کہ بنیامین مصر شاہی قیدی بنالئے گئے مگر فرمایا۔ 
بل سولت لکم انفسکم امرا۔ ( پارہ 12 سورہ 12 آیت 18) 
“ کہ تمھارے نفس نے تمہیں حیلہ سکھا دیا۔“
یعنی یوسف علیہ السلام کو بھی مجھ سے میری اولاد نےہی جدا کیا اور بنیامین کو بھی، میری اولاد حضرت یوسف نے حیلہ سے روکا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل واقعہ کی خبر ہے۔ پھر بظاہر مصر میں یعقوب علیہ السلام کے دو فرزند رہ گئے تھے ایک بنیامین دوسرا یہودہ ۔ مگر فرماتے ہیں۔ 

عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا ۔ 
“ قریب ہے کہ اللہ ان تینون کو مجھ سے ملائے۔“
تین کون تھے؟ تیسرے حضرت یوسف علیہ السلام ہی تو تھے۔ جب زلیخہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گھر بند کر کے بری خواہش کرنا چاہی تو اس بند مکان میں یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے اور دانت تے انگلی دبا کر اشارہ کیا کہ ہر گز نہیں۔ اے فرزند یہ کام تمھارا نہیں کہ تم نبی کے بیٹے ہو جس کو قرآن فرماتا ہے۔ 

وھم بھا لو لا ان ریٰ برھان ربہ۔ 
“ وہ بھی زلیخہ کا قصد کر لیتے اگر رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے۔“
یہ بھی خیال رہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے خبر دیکہ ان کو بھیریا کھا گیا اور آپ کو قمیس اور بھیرئیے کی خبر سے ان کا جھوتا ہونا معلوم ہو گیا تھا کہ بھیڑئیے نے عرض کیا تھا کہ ہم پر انبیاء کا گوشت حرام ہے ، 

دیکھو تفسیر خازن ، روح البیان، سورہ یوسف ۔ 
پھر آپ اپنے فرزند کی تلاش میں جنگل میں کیوں نہ گئے؟ معلوم ہوا کہ با خبر تھے مگر رازدار تھے جانتے تھے کہ فرزند سے مصر میں ملاقات ہوگی۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام کو بہت سے موقعے ملے مگر والد کو اپنی خبر نہ دی کہ حکم کا انتظار تھا کنعان سے بیٹھے ہوئے یعقوب علیہ السلام اپنے فرزندوں کی ایک ایک بات دیکھ لیں۔ ، مگر حضور علیہ السلام اپنی طیبہ طاہرہ صدیق کی بیٹی حضرت صدیقہ کے حالات سے بے خبر ہون ۔ مگر جو رب انکو اتنا علم دیتا ہے طاقت ضبط بھی دیتا ہے کہ دیکھتے ہیں مگر بے مرضی الہٰی راز فاش نہیں کرتے ہیں ۔اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ ہماری یہ تقریر اگر خیال میں رہی تو بہت مفید ہو گی۔ 
انشاء اللہ 
اعتراض 8۔ 
حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے بعض ازواج کے گھر شہد ملاحظہ فرمایا اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا حبیب اللہ آپ کے دہن مبارک سے مغافیر کی بو آرہی ہے۔ تو فرمایا کہ ہم نے مغافیر نہیں استعمال فرمایا۔ شہد پیا ہے۔ حضور علیہ السلام نے اپنے پر شہد حرام کر لیا۔ جس پر یہ آیت اتری “ لم یحرم ما احل اللہ لک“ معلوم ہوا کہ اپنے دہن کی بو کا بھی علم نہیں تھا کہ اس بو آرہی ہے یا نہیں۔ 
جواب۔ 
اس کا جواب اسی آیت میں ہے “ تبتغی مرضات ازواجک“ اے حبیب یہ حرام فرمانا آپ کی بے خبری سے نہیں بلکہ ان معترض ازواج کی رضا کے لئے ہے نیز اپنے منہ کی بو غیب نہیں محسوس چیز ہے ہر صحیح الدماغ محسوس کر لیتا ہے کیا دیوبندی انبیاء کے حواس کو بھی ناقص ماننے لگے ان کی حواس کی قوت کو مولا نے بیان فرمایا۔ 
نطق آب و نطق خاک و نطق گل محسوس از حواس اہل دل
فلسفی گو منکر حنانہ است از حواس اولیاء بیگانہ است۔
 


اعتراض9۔ 
اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب تھا تو خیبر میں زہر آلود گوشت کیوں کھا لیا۔ اگر جانتے ہوئے کھایا تو یہ خود کشی کی وکوشش ہے ۔ جس سے نبی معصوم ہے۔ 
جواب۔ 
اس وقت حضور علیہ السلام کو بھی یہ علم تھا کہ اس میں زہر ہے اور یہ بھی خبر تھی کہ زہر ہم پر بحکم الہٰی اثر نہیں کرے گا ۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ رب تعالٰی کی مرضی یہ ہی تھی کہ ہم اسے کھا لیں تاکہ بوقت وفات اس کا اثر لوٹے اور ہم کو شہادت کی وفات عطا فرمائی جاوے راضی برضا تھے۔ 

اعتراض 10۔ 
اگر حضور علیہ السلام کو علم غیب تھا تو بیر معونہ کے منافقین دھوکے سے آپ سے ستر صحابہ کیوں لے گئے؟ جنہیں وہاں لے جا کر شہید کر دیا ۔ اس آفت میں انہیں حضور علیہ السلام نے کیوں پھنسایا؟ 
جواب: 
جی ہاں! حضور علیہ السلام کو یہ بھی خبر تھی کہ بیر معونہ والے منافقین ہیں ۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ یہ لوگ ان ستر صحابہ کو شہید کر دیں گے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی خبر تھئی کہ مرضی الہٰی یہ ہی ہے اور ان ستر کی شہادت کا وقت آگیا ۔ یہ بی جانتے تھے کہ رب تعالیی کی رضا پر راضی رہنا بندے کی شان ہے ابراہیم علیہ السلام تو مرضی الہٰی پا کر فرزند پر چھری لے کر تیار ہو گئے کہ یہ بے گناہ پر ظلم تھا ؟ نہیں بلکہ رضائے الہٰی مولٰی پر رضا تھی ۔ اچھا بتاؤ رب تعالٰی کو تو خبر تھی کہ گوشت میں زہر ہے ۔ اور بیر معونہ والے ان ستر (70) کو شہید کر دیں گے ۔ اس نے وحی بھیج کر کیوں نہ روک دیا۔ اللہ تعالٰی سمجھ دے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.