Monday, February 04, 2013

Deobandiyo Ka Ilm-e-Gha'ib

السلام علیکم ! میرے اہل ایمان بھائیوں اور بہنوں

جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ دیو بندی وھابی ، ھمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب کے منکر ہیں ! جبکہ یہ خبیث اپنے اکابرین کے لئے غیب کا عقیدہ رکھتے ہیں ، کیا یہ پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض نہیں کیا ایسا شخص مسلمان کہلانے کا اہل ہے ؟؟؟؟

ثبوت ملاحضہ کیجئے اور فیصلہ کیجئے !!!

بزرگانِ دیوبند اور علمِ غیب

ایک دیوبندی خان صاحب بیان کرتے ہیں :
’’مولانا نانوتوی فرماتے تھے کہ شاہ عبد الرحیم صاحب ولایتی کے ایک مرید تھے جن کا نام عبداللہ خان تھا۔ اور قوم کے راجپوت تھے اور یہ حضرت کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی کے گھر میں حمل ہوتا اور وہ تعویز لینے آتا تو آپ فرما دیا کرتے تھے کہ تیرے گھر میں لڑکا ہو گا یا لڑکی۔ اور جو آپ بتلا دیتے وہی ہوتا تھا۔‘‘
( ارواحِ ثلاثہ: ص 139 )


لڑکا ہو گا کہ لڑکی جیسی باتیں بتانا تو بزرگانِ دیوبند کے مریدوں کے بھی بائیں ہاتھ کا کام ہے اورجب مرید اتنا کچھ جانتے ہیں تو پیر وں مرشدوں کا کیا مقام ہو گا۔۔۔؟ 

دیوبندیوں کے ایک او ر حضرت نے فرمایا:
’’مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری کا قلب بڑا نورانی تھا۔میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہو جائیں۔‘‘
ارواحِ ثلاثہ: ص 319



جبکہ دیوبندی وھابی یہ دلائل پیش کرتے ہیں ،" نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جو منافقین آتے تھے جن کی دھوکہ دہی کی وجہ سے کئی بار سخت تکلیف اٹھانا پڑی ان کے عیوب جب چاہاکیوں ظاہر نہ ہو سکے۔۔۔؟ یہودی عورت کا زہر آلود کھانا پیش کرنا اور ستر قاریوں پر مشتمل صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت کو دھوکے سے شہید کیا جانا جیسے واقعات۔" معاذ اللہ
مگر قلب کی ایسی نورانیت صرف دیوبندی وھابی  بزرگوں کو حاصل ہے کہ پاس بیٹھنے سے ہی تمام عیوب ظاہر ہو جاتے ہیں۔

اشرف علی تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں:
’’حضرت مولانا(مظفر حسین صاحب )مرحوم مکہ میں بیمار ہوئے اور اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو ۔حضرت حاجی صاحب سے استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہو گی یا نہیں۔حضرت حاجی صاحب نے فرمایاکہ مَیں کیا جانوں؟عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجئے جواب مرحمت فرمائیے۔حضرت(حاجی صاحب)نے مراقب ہو کر فرمایاکہ آپ مدینہ میں وفات پائیں گے مجھ کو تو ایسا ہی علم ہوا ہے حق تعالیٰ کی طرف سے پس مولانا کو بڑا اعتماد ہو گیا حتیٰ کہ لوگوں سے کہنا بھی شروع کر دیا۔‘‘
 قصص الاکابر: ص 113


اپنے بزرگوں سے متعلق دیوبندی حضرات کے عقیدہ و اعتقاد پر غور فرمائیے کہ پہلے تو سوال کیا جاتا ہے کہ حضرت مروں گا کہاں یہ بتائیے؟ جب حضرت کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اس بارے میں مَیں کیا جانوں تو عرض کی جاتی ہے کہ یہ عذر اور بہانہ تو رہنے دیجئے کہ آپ جانتے نہیں، ضرور جانتے ہیں ضرور بتائیے۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔ پھران دیوبندی حضرت کی بھی کیا بات ہے کہ انہوں نے بھی مرید کو مایوس نہیں کیا اور بتا دیا کہ وفات کہاں ہو گی۔۔۔؟ 

۴)دیوبندی تبلیغی شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں:
’’خواجہ ابو محمد کی ہمشیرہ بھی نہایت بزرگ متقیہ تھیں ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے نکاح کی رغبت بھی نہیں ہوتی تھی۔ایک مرتبہ خواجہ ابو محمد ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہمشیرہ تمھارے پیٹ سے ایک لڑکے کا وجود جو ایک وقت میں قطب الاقطاب ہونے والا ہے مقدر ہو چکا ہے اور وہ بلا نکاح ممکن نہیں اس لیئے تم نکاح کر لو۔۔۔۔‘‘
تاریخ مشائخ چشت:ص 156




اشرف علی تھانوی صاحب کی ولادت کا قصہ
اشرف علی تھانوی صاحب کے پیدا ہونے سے پہلے ان کی نانی صاحبہ نے تھانوی صاحب کی والدہ کے متعلق اپنے ایک بزرگ حافظ غلام مرتضیٰ مجذوب پانی پتی سے عرض کیا:
’’حضرت میری اس لڑکی کے لڑکے زندہ نہیں رہتے۔حافظ صاحب نے بطریق معما فرمایا کہ عمر و علی کی کشاکشی میں مر جاتے ہیں۔ اب کی بار علی کے سپرد کر دینا زندہ رہے گا۔ اس مجذوبانہ معما کو کوئی نہ سمجھا لیکن والدہ صاحبہ نے اپنی خداداد اور نور فراست سے اس کو حل کیا اور فرمایا کہ حافظ صاحب کا یہ مطلب ہے کہ لڑکوں کے باپ فاروقی ہیں اور ماں علوی اور اب تک جو نام رکھے گئے وہ باپ کے نام پر رکھے گئے یعنی فضل حق وغیرہ اب کی بار جو لڑکا ہو اس کا نام نا نہال کے ناموں کے مطابق رکھا جائے۔ جس کے آخر میں علی ہو۔ پھر فرمایاکہ انشاء اللہ اس کے دو لڑکے ہوں گے اور زندہ رہیں گے ایک کا نام اشرف علی خان رکھنا دوسرے کا اکبر علی خان۔ نام لیتے وقت خان اپنی طرف سے جوش میں آ کر بڑھا دیا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا وہ پٹھان ہوں گے؟ فرمایا نہیں اشرف علی اور اکبر علی نام رکھنا۔ یہ بھی فرمایاکہ ایک میرا ہو گا وہ مولوی ہو گا اور حافظ ہو گااور دوسرا دنیا دار ہو گا.
اشرف السوانح:ج1 ص46


اشرف علی تھانوی صاحب اس سارے قصے کے بارے میں فرمایا کرتے:
’’ یہ جو مَیں کبھی اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگتا ہوں ان ہی مجذوب صاحب کی روحانی توجہ کا اثر ہے جن کی دعا سے مَیں پیدا ہوا ہوں کیونکہ طبیعت مجذوبوں کی آزاد ہے الجھی ہوئی باتوں کی متحمل نہیں۔‘‘
اشرف السوانح:ج۱ ص 46




اس قصے سے جہاں اور بہت سے دیوبندی عقائد پر روشنی پڑتی ہے وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اشرف علی تھانوی صاحب کے یہ پانی پتی بزرگ غیب کے معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ 
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے فرمایا:
’’مجاذیب یہاں بیٹھتے ہیں اور کلکتہ کی ان کو خبر ہے۔‘‘
تقریر ترمذی:ص488


معلوم ہوا کہ ان کے ہاں صرف پانی پتی مجذوب ہی نہیں بلکہ دوسرے مجاذیب بھی غیب کی خبریں جانتے ہیں کہ اگر کہی ایک جگہ بیٹھے ہوں تو دور کلکتہ کی خبر بھی ان کو ہوتی ہے۔

اکا برین دیوبند کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے فرمایا:
’’لوگ کہتے ہیں کہ علم غیب انبیاء و اولیاء کو نہیں ہوتا مَیں کہتا ہوں کہ اہل حق جس طرف نظر کرتے ہیں دریافت و ادراک غیبات کو انکو ہوتا ہے اصل میں یہ علم حق ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم، کو حدیبیہ و حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا( کے معاملات) سے خبر نہ تھی اس کو دلیل اپنے دعویٰ کی سمجھتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ علم کے واسطے توجہ ضروری ہے۔‘‘
 شمائم امدادیہ:ص۶۱،امداد المشتاق: ص ۷۹۔۸۰


اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگان ِدیوبند کے نزدیک:
 جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو علم غیب نہیں ہوتا تو یہ بات صحیح نہیں بلکہ
انبیاء و اولیاء جس طرف بھی نظر اور توجہ کرتے ہیں غیب کی چھپی باتیں ان کو دریافت اور معلوم ہو جاتی ہیں۔(دیوبندی اکابرین کے عقیدے کو سمجھنے کے لیئے یہ بات بڑی توجہ طلب ہے ۔)

دوسرے کے دِل کی بات معلوم کر لینا
عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی اپنے امام ربانی رشید احمد گنگوہی کے بارے میں ایک روایت بیان کرتے ہیں:
’’ ایک مرتبہ استاذی مولانا عبد المومن صاحب حاضر خدمت تھے دل میں وسوسہ گزراکہ بزرگوں کے حالات میں زہد اور فقر و تنگدستی غالب دیکھی گئی ہے اور حضرت (گنگوہی صاحب)کے جسم مبارک پر جو لباس ہے گو مباح و مشروع ہے مگر بیش قیمت ہے۔حضرت امام ربانی اس وقت کسی شخص سے باتیں کر رہے تھے دفعۃً ادہر متوجہ ہوکر فرمایاکہ ’’ عرصہ ہوا مجھے کپڑے بنانے کا اتفاق نہیں ہوتا لوگ خود بنا بنا کر بھیجدیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ تو ہی پہنناانکی خاطر سے پہنتا ہوں چنانچہ اس وقت بدن پر جتنے کپڑے ہیں سب دوسروں کے ہیںاور مستعار ہیں چند روز بعد آکر لے جائیں گے اور جب خود بناتا تھا گاڑھے اور دھوتر ہی کے بناتا تھا۔‘‘ یہ فرما کر پھر پہلے شخص کی باتوں میں مشغول ہو گئے۔ حاضرین کو تو یہ تقریر بے محل اور جملہ معترضہ معلوم ہوئی مگر مولانا جنکے خطرہ نفس کا جواب تھاندامت سے پیشانی پر پسینہ آ گیا۔‘‘
 تذکرۃ الرشید:ج۲ ص۱۷۳۔۱۷۴


رشید احمد گنگوہی صاحب کے ایک شاگرد مولانا علی رضا صاحب فرماتے ہیں:

’’ زمانہ طالبعلمی میں مجھے ایسا مرض لاحق ہوا کہ وضو قائم نہ رہتا تھا بعض نماز کے لیئے تو کئی کئی بار وضو کرنا پڑتاتھا۔ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ فجر کی نمازکو بندہ سویرے مسجد میں آ گیاسردی کا موسم تھااور اسدن اتفاق سے جاڑہ بھی زیادہ تھا۔بار بار وضو کرنے سے بہت تکلیف ہوتی تھی جی چاہتا تھا کہ کسی طرح جلد نماز سے فراغت ہو جائے ۔ تقدیر ی بات کہ حضرت امام ربانی نے اسدن معمول سے بھی کچھ زیادہ ہی دیر لگا ئی مَیں کئی مرتبہ سخت سردی میں وضو کرنے سے بہت پریشان ہوااور وسوسہ گزرا کہ ایسی بھی کیا حنفیت ہے حضرت ابھی اسفار ہی کے منتظر ہیںاور ہم وضو کرتے کرتے مرے جاتے ہیں۔لحظہ دو لحظہ کے بعد ہی حضرت تشریف لائے اور جماعت کھڑی ہو گئی۔ فراغت کے بعد حسبِ معمول دیگر اشخاص کے ہمراہ میں بھی حضرت کے پیچھے پیچھے حجرہ شریف تک گیا۔جب سب لوگ لوٹ گئے اور حضرت نے دروازہ بند کر نا چاہا تو مجھے پاس بلاکر ارشاد فرمایاکہ’’ بھائی یہاں کے لوگ نمازِ فجر کے واسطے تاخیر کر کے آتے ہیں اسوجہ سے میں بھی دیر کر دیتا ہوں ۔‘‘ یہ فرما کر حضرت حجرہ میں تشریف لے گئے اور میں ندامت سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘
 تذکرۃ الرشید:ج2 ص224



عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کی خواب میں آ کر شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ اس زمانہ میں مولانا رشید احمد گنگوہی کو حق تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے کہ جب کوئی حاضر ہونے والا السلام علیکم کہتا ہے تو آپ اس کے ارادہ سے واقف ہو جاتے ہیں۔‘‘
 تذکرۃ الرشید:ج۲ص۳۱۲


مولوی ولی محمد صاحب اپنے ساتھ ایک واقعہ گزرنے پر رشید احمد گنگوہی صاحب کے بارے میں فرمایا کرتے:

’’ حضرت کے سامنے جاتے مجھے بہت ڈر معلوم ہوتا ہے کیونکہ قلب کے وساوس اختیار میں نہیں اور حضرت ان پر مطلع ہو جاتے ہیں۔‘‘
 تذکرۃ الرشید:ج۲ص۲۲۷





No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.