Sunday, February 03, 2013

Deobandiyo Ka Qabro Se Faiz Pana

دیو گندی ، ہم اہلسنت و جماعت (سنی حنفی بریلوی) کو یہ کہتے رہتے ہیں کہ بریلوی مزارات پر جاتے ہیں اور صاحب مزار سے مانگتے ہیں جو کہ شرک اور بدعت ہے ، آئیے ھم کو دکھاتے ہیں دیو گندیوں کے کارنامے کہ کس طرح یہ خبیث اپنے اکابریں کی قبر سے فیض پاتے تھے۔

قبروں اور مزاروں سے فیض اور دستگیری

دیوبندیوں کے فخر المحدثین خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں:
’’ اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اورقبروں سے باطنی فیوض پہنچنا،سو بے شک صحیح ہے۔‘‘
(المھند علی المفند :ص36)


سوال:۔بعض بعض صوفی قبور اولیاء پر چشم بند کر کے بیٹھتے ہیں اور سورۃ الم نشرح پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ کھلتا ہے اور ہم کو بزرگوں سے فیض ہوتا ہے اس بات کی کچھ اصل بھی ہے یا نہیں۔
دیوبندیوں کے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’ اس کی بھی اصل ہے اس میں کچھ حرج نہیں اگر بہ نیت خیر ہے۔‘‘
(تالیفاتِ رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ:ص۱۹۶)


اس سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک اولیاء اور بزرگوں کی قبروں سے فیض و برکات کا حصول ہوتا ہے۔ آئیے اب اس دیوبندی عقیدے کی عملی شکل دیکھتے ہیں تا کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

دیوبندیوںکی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ میں بیان کیا جاتا ہے:

’’مولوی معین الدین صاحب حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وہ حضرت مولانا کی ایک کرامت(جو بعد وفات واقع ہوئی)بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ہمارے نانوتہ میں جاڑہ بخار کی بہت کثرت ہوئی۔سو جو شخص مولانا(محمدیعقوب) کی قبر سے مٹی لے جا کر باندھ لیتا اسے ہی آرام ہوجاتا۔ بس اس کثرت سے مٹی لے گئے کہ جب ڈلوائوں تب ہی ختم۔ کئی مرتبہ ڈال چکا۔پریشان ہو کر ایک دفعہ مولانا کی قبر پر جا کر کہا ۔ یہ صاحبزادے بہت تیز مزاج تھے۔ آپ کی تو کرامت ہو گئی اور ہماری مصیبت ہو گئی۔ یاد رکھو کہ اگر اب کے کوئی اچھا ہوا توہم مٹی نہ ڈالیں گے ایسے ہی پڑے رہیو۔لوگ جوتہ پہنے تمھارے اوپرایسے ہی چلیں گے۔ بس اس دن سے پھر کسی کو آرام نہ ہوا۔ جیسے شہرت آرام کی ہوئی تھی ویسے ہی یہ شہرت ہوگئی کہ اب آرام نہیں ہوتا۔ پھر لوگوں نے مٹی لے جانا بند کر دیا۔‘‘
(ارواحِ ثلاثہ:ص 257)


دیکھا آپ نے دیوبندیوں کے نزدیک بزرگوں کی قبروں سے کیسے کیسے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بھی اولیاء و مشائخ بعد از وفات بھی لوگوں کو اپنی قبروں سے نفع پہنچاتے ہیں اوراس پر ان کا اختیار بھی ہے کیونکہ شکایت ہونے پر نفع رسانی بند بھی کی جا سکتی ہے۔اب اسی طرح ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح قبروں اور مزاروں سے دستگیری و امدادبھی ہوتی ہے۔

اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:

’’ جب اثر مزار شریف کا بیان آیاآپ(یعنی حاجی امداد اﷲ) نے فرمایاکہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا۔بعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کا محتاج ہوںکچھ دستگیری فرمائیے۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یاآدھ آنہ روز ملا کرے گا۔ایک مرتبہ میں زیارت مزارکو گیاوہ شخص بھی حاضر تھااس نے کل کیفیت بیان کر کے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقررہ یہیں قبر سے ملا کرتا ہے۔(حاشیہ) قولہ وظیفہ مقررہ ۔اقوال یہ منجملہ کرامات کے ہے۔‘‘
 امداد المشتاق: ص ۱۲۳، اسلامی کتب خانہ ، لاہور(اشرف علی تھانوی)


تھانوی صاحب کی اس روایت اور بیان سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک صاحب مزارسے اگر مشکل اور پریشانی عرض کر کے دستگیری کی درخواست کی جائے تو وہ دستگیری اور مددکرتے ہیں ۔جبکہ دیوبندیوں کے بقول  کتاب و سنت کی روشنی میں ایسی چیزوں کے شرک ہونے میں کوئی شک نہیں مگر چونکہ بیان کرنے والے اپنے بزرگ ہیں ،جن کے مزار سے یہ دستگیری ہوئی وہ بزرگوں کے بھی حضرت ہیں اس لیئے یہاں پر یہ بات کرامت ہے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔








No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.