Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-6]


متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 

لطائف دیو بند 

تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔

لطیفہ نمبر 26 !
فرمایا کہ مولوی معین الدین صاحب حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے وہ حضرت مولانا کی ایک کرامت جو بعد وفات ہوئی بیان فرماتے تھے ایک مرتبہ نانوتہ میں جاڑا بخار کی کثرت ہوئی ، سو جو شخص ان کی قبر سے مٹی لے جا کر باندھ لیتا تو اسے آرام ہو جاتا ۔ بس اس کثرت سے مٹی لے گئے کہ جب بھی قبر پر مٹی ڈالو تب ہی ختم ، کئی مرتبہ ڈال چکا ۔ پریشان ہو کر ایک مرتبہ میں نے مولانا کی قبر پر جا کر کہا کہ آپ کی تو کرامت ہو ئی اور ہماری مصیبت ہو گئی ، یاد رکھو اگر اب کوئی اچھا ہوا تو ہم مٹی نہ ڈالیں گے ایسے ہی پڑے رہیو ۔ لوگ جوتا پہن کر تمھارے اوپر ایسے ہی چلیں گے ۔ بس اُسی دن سے آرام نہ ہوا ۔ جیسے شہرت آرام کی ہوئی تھی ویسے ہی یہ شہرت ہوگئی کہ اب آرام نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں نے مٹی لے جانا بند کر دیا ۔
( ارواح ثلٰثہ 322 )
اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ مشتاق نظامی رقم طراز ہیں :- 
مذکورہ بالا عبارت کا رخ اور تیور ملاحظہ فرمائیے کہ صاحب قبر سے عدم شفا کی درخواست اس بنیاد پر نہیں کی گئی کہ مخلوق خدا شرک و بدعت میں مبتلا ہوگئی ہےبلکہ خاندان والے قبر پر مٹی ڈالتے ڈالتے چور ہوگئے ۔ یہ بات تو اجمیر اور کلیر شریف میں پہنچ کر شرک و بدعت ہو جاتی ہے ۔ یہاں تو تھانہ بھون اور نانوتہ کے بزرگوں کی کرامت بیان کرنی مقصود ہے ۔ 
کوچئہ جاناں سے خاک لائیں گے 
اپنا کعبہ الگ بنائیں گے
چِڑھ تو غریب نواز ، پیران کلیر ، خواجہ قطب اور محبوب الہٰی سے ہے ، نہ کہ نانوتہ کے بزرگوں سے ۔ اور صرف مٹی میں شفا ہی نہ تھی بلکہ صاحب قبر خاندان والوں کی آواز سنتے اور ان کی باتیں بھی مان لیتے تھے ۔ مگر اللہ کے پیارے محبوب خلاصئہ کائنات سرکار ابد قرار روحی فداہ صلے اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اس بہتان تراشی و افتراء پروازی پر شرم نہ آئی کہ 
میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں ۔
(تقویۃ الایمان ص96 )
خیال فرمائیے کہ نانوتہ کے مُردوں کی قبر سے شفا ہو ، وہ آواز دینے والوں کی آوازیں سنیں مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے ۔معاذاللہ ثمہ معاذ اللہ
 
اگر تقویۃ الایمان ہی دیوبندی دھرم میں دین و ایمان ہے تو تقویۃ الایمان ہی کی روشنی میں انہیں اس عبارت کو خارج کر دینا چاہیئے ۔ 
یہ بات محض بے جا ہے کہ ظاہر میں لفظ بے ادبی کا بولے اور اس سے کچھ اور معنٰے مراد لے ۔
( تقویۃ الایمان ص 64 )
تقویۃ الایمان کی مندرجہ بالا عبارات نے ان عبارات میں توجیہ و تاویل کا دروازہ بند کر دیا ۔ جن کے ظاہر میں رسول خدا کی توہین و تنقیص ہے ۔
( خون کے آنسو حصہ اول صفحہ 107 ، 108 )

لطیفہ نمبر 27:
علمائے دیوبند نے کافی تعداد میں کتابیں تصنیف کر کے علمائے بریلی کی طرف منسوب کیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے ۔
میرا چیلنج :-
ناظرین : جس طرح حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے تحفہ اثنا عشریہ میں بعض ان کتابوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں روافض یا دیگردشمنان مذہب اہل سنت نے تصنیف کرکے علمائے اہل سنت پر تھوپی ہیں مثلاً سرّ العالمین کو حضرت امام غزالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو قطعاً واصلاً غلط ہے وغیرہ ۔
اسی طرح میں بھی بعض ان کتابوں کی نشاندہی کردینا چاہتا ہوں جسے دشمنان مذہب اہل سنت نے تصنیف کرکے علمائے اہل سنت کی طرف غلط منسوب کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
1
۔ تحفۃ المقلدین :- حضرت مولانا محمد نقی علی خان صاحب کے نام سے گڑھی ، موصوف فاضل بریلوی کےوالد ہیں ۔
2
۔ ہدایۃ الاسلام :- فاضل بریلوی کے جد امجد مولانا رضا علی کے نام سے گڑھی ۔
3
۔ ہدایۃ البریہ مطبوعہ صبح صادق پریس کے علاوہ ایک اور ہدایۃ البریہ مطبوعہ لاہور اعلٰٰی حضرت کے والد مولانا نقی علی خاں صاحب کے نام سے گڑھی ۔
4
۔ ملفوظات :- اس نام کی ایک کتاب کو حضرت شاہ حمزہ علیہ الرحمہ سے منسوب کردیا ۔
5
۔ مرآۃ الحقیقۃ :- حضور غوث الثقلین کے نام سے شائع کیا۔
6
۔ خزینۃ الاولیاء :- حضرت شاہ حمزہ مارہروی کے نام سے گڑھی اور بکمال شقاوت کہہ دیا ‘‘ مطبوعہ کانپور صفحہ فلاں
ماخوذ از خالص الاعتقاد از فاضل بریلوی ص12،13 مختصراً (
خالص الاعتقاد کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ خزینۃ الاولیاء حضرت شاہ حمزہ سے اور ہدایۃ الاسلام جو فاضل بریلوی کے جد امجد مولانا محمد رضا علی کے نام سے چھاپی گئی ہے ۔ سراسر الزام تراشی اور افتراء پروازی ہے ۔
ہرگز یہ کتابیں ان حضرات کی تصنیف کردہ نہیں ۔ ہم ان کتب مذکورہ سے اپنی برآءت ظاہر کرتے ہیں ۔ جب ہمارے علماء کی یہ باطل شکن آواز ‘‘ ردّ شہاب ‘‘ کی صورت میں مولانا عامر عثمانی کے کانوں سے ٹکراتی ہے تو انہیں بھی کہنا پڑتا ہے ۔
‘‘
اتنا ہم ایضاً ضرور کہیں گے کہ مصنف ( حضرت شاہ اجمل سنبھلی ) نے مولانا مدنی پر ایک الزام بڑا بھیانک اور فکر انگیز لگایا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جن دو کتابوں ‘‘خزینۃ الاولیاء ‘‘ اور ‘‘ہدایۃ الاسلام‘‘ سے شہاب ثاقب میں بعض اقتباسات دئیے گئے ہیں وہ فی الحقیقت من گھڑت ہیں ۔ جن مصنفوں کی طرف انہیں منسوب کیا گیا ہے انھوں نے کبھی ہرگز ہرگز یہ کتابیں نہیں لکھیں ۔
تجلی فروری ، مارچ 59ء (
ہم اس بات کو واضح کرچکے ہیں کہ خزینۃ الاولیاء اور ہدایۃ الاسلام نہ حضرت شاہ حمزہ علیہ الرحمہ کی تصنیف ہے اور نہ ہی مولانا رضا علی خان کی تالیف ، یہ محض کذب و افتراء ہے مگرقربان جائیے مولانا مدنی پر کہ اپنی کتاب شہاب ثاقب صفحہ 12 اور 22 پر انہیں دونوں کتابوں سے حوالہ پیش کرتے ہیں اور ہم لوگوں پر حجت قائم کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں بھی معلوم تھا کہ جن کتابوں سے وہ ہم پر حجت قائم کر رہے ہیں ۔ ان کتابوں کی تردید و تکذیب ہم اسی انداز سے کرتے رہے ہیں جس طرح کتب علمائے دیوبند کی ۔ مولانا مدنی فرماتے ہیں :-
جناب شاہ حمزہ صاحب ماہروی مرحوم خزینۃ الاولیاء مطبوعہ کانپور صفحہ 15 پر ارقام کرتے ہیں ۔ تا آخر 
)شہاب ثاقب(
مزید فرماتے ہیں !
مولوی رضا علی خان صاحب ہدایۃ الاسلام مطبوعہ صبح صادق سیتا پور صفحہ 30 میں فرماتے ہیں تا آخر
شہاب ثاقب ص22(
غور فرمائیے ! کس دیدہ دلیری کے ساتھ مولانا مدنی علمائے اہلسنت کے اوپر دوسروں کی تصنیف کردہ کتابیں تھوپ رہے ہیں ۔ کیا آج کی دنیا میں اس سے بھی بڑھ کر اتہام بندی و بہتان تراشی کی کوئی جیتی جاگتی مثال مل سکتی ہے ۔ہمارا علمائے دیوبند کی صداقت کو چیلنج ہے کہ اگر ان میں ذرہ برابر بھی غیرت اور حق پسندی ہو تو خزینۃ الاولیاء اور ہدایۃ الاسلام کو منظر عام پر لا کر اپنی صداقت و دیانت کا ثبوت دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ اب بھی سویرا ہے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، بہتر ہو گا کہ شرم و غیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ گردن جھکا کر بارگاہ ایزدی میں تائب ہو جائیں ۔
وصّاعین اور کذابین کےاس طرز عمل کو تحریر کرنے کے بعد عقل و استدلال کی روشنی میں تبصرہ فرماتے ہوئے علامہ مشتاق نظامی رقم طراز ہیں :-
یہ نہ سمجھئیے کہ کذب و افتراء اور جعل و سازش کی یہ مہم یہیں پر آکر ختم ہو گئی بلکہ اپنے کالے جھوٹ پر سفید جھوٹ کی مہر توثیق ثبت کرنے کے لئے سیف النفی کے صفحہ 20 پر فاضل بریلوی قدس سرہ کے والد ماجد کا فرضی نشان مہر بھی بنا دیا جس کی صورت یہ ہے :
1301
نقی علی سنّی حنفی
حالانکہ حضرت کی مہر مبارک کا نقشہ یہ تھا :-
1269
مولوی رضا علی خان
محمد نقی خان ولد
لطف تو یہ ہے کہ مہر گڑھی گئی مگر پھر بھی بات نہ بن سکی ، صورت حال یہ ہے کہ حضرت کا وصال 1297ھ میں ہوا اور نقشہ مہر میں 1301 کندہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کی وصال شریف کے چار برس بعد یہ مہر تیار ہوئی ۔
پہلے اپنے جنوں کی خبر لو 
پھر مرے عشق کو آزمانا 
نوٹ !
میرے خیال میں شاید ہی دنیا کے کسی گوشے میں خیانت کی ایسی مکروہ و گندا مثال مل سکے گی۔ جو حضرات دیوبند کے دامن تقدس کی جھالر بنی ہوئی ہے ۔ کوئی سوچے تو سہی !
کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز بات ہے کہ اپنی خرافات کا اعتراف نہ کرتے ہوئے اس پر پردہ ڈالنے کے لئے چند در چند غلطیوں کا ارتکاب کرنا ، اور جرآت و دیدہ دلیری کا یہ عالم کہ الامان والحفیظ ۔ فرضی کتاب ، من گھڑت عبارات جعلی پریس تک کا اعلان کردینا -!
سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کی جسارت وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے کان کبھی شرم و حیا جیسے الفاظ سے آشنا تک نہ ہوئے ہوں ۔
اس کے باوجود زہد و تقوٰی اور اتباع سنت کا وہ بلند و بانگ نعرہ جس سے تصنع اور ریا کے صنم اکبر کا بھی کلیجہ دہل جائے ۔ اب ناظرین ہی انصاف فرمائیں کہ اگر متقی و پرہیز گار ایسے ہی لوگوں کو کہا جاتا ہے تو غیر متقی کس کو کہا جائے گا ۔
خون کے آنسو حصہ 2 صفحہ 24،25 (


لطیفہ نمبر 28 !
مولانا مدنی کے نزدیک معیار حق و باطل صرف برطانیہ ہے ۔
وہ علمی زاویہ نظر سے مسائل کا تجزیہ نہیں کرتے۔
مولانا مودودی کا دعوٰی :-
مندرجہ بالا عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا ( ٹانڈوی) کی نگاہ میں حق و باطل کا معیار صرف برطانیہ بن کر رہ گیا ہے ، وہ مسئلہ کو نہ تو علمی زاوئہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ حقائق اپنے اصلی رنگ و روپ میں نظر آسکیں نہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے زاویئہ نظر سے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔
( مسئلہ قومیت صفحہ 53،54 )


لطیفہ نمبر 29:
مولانا مدنی اپنی نجی باتوں کو خدا اور رسول کی طرف منسوب کرتے وقت خدا کی باز ُپرس سے خوف نہیں کھاتے ۔
انھوں نے حدیث کے الفاظ کو مفہوم نبوی کے خلاف دوسرے من چاہے مفہوم پر چسپاں کیا ۔ مولانا مودودی کا بے لاگ تبصرہ :-
ًمولانا ( مدنی) آخر فرمائیں تو کہ جس متحدہ قومیت کو وہ رسول خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اس میں آج کل کی متحدہ قومیت کے عناصر ترکیبی میں سے کون سا عنصر پایا جاتا ہے ، اگر وہ کسی ایک عنصر کا پتہ نہیں دے سکتے اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں دے سکتے تو کیا مولانا کو خدا کی باز پُرس کا خوف نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند برس بعد :-
الفاظ کا سہارا لے کر مولانا ( حسین احمد) نے اپنا دعوٰی ثابت کرنے کی کوشش تو بہت خوبی کے ساتھ کر دی مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ حدیث کے الفاظ کو مفہوم نبوی کے خلاف کسی دوسرے پر چسپاں کرنا اور اس مفہوم کو نبی کی طرف منسوب کردینا ۔ ( من کذب علّی متعمّدا ) کی زد میں آ جاتا ہے ۔
مسئلہ قومیت صفحہ 60،61 (

لطیفہ نمبر 30
مولانا مدنی ، علم و فضل ، کلچر تہذیب ، پرسنل لا وغیرہ الفاظ کے معنی سے نا آشنا ہیں ۔ انہوں نے مسند مقدّس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی ، اور مسلمانوں کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا اور غار عمیق میں ڈھکیل دیا ۔ میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا مودودی کا ارشاد :-
یہ بات میں خوب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں کہ مولانا حسین احمد مایں ہمہ علم وفضل ، کلچر ، تہذیب ، پرسنل لا وغیرہ الفاظ بھی جس طرح استعمال کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ان کے معنی و مفہوم سے نا آشنا ہیں ۔ میری یہ صاف گوہی ان حضرات کو یقیناً بُری معلوم جو رجال کو حق سے پہنچاننے کے بجائے حق کو رجال سے پہنچاننے کے خوگر ہیں اس کے جواب میں چند اور گالیاں سننے کے لئے میں نے اپنے آپ کو پہلے تیار کر لیا ہے ۔
مگر جب میں دیکھتا ہوں کہ مذہبی پیشوائی کی مسند مقدس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی جا رہی ہے ، ان کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا جا رہا ہے اور خندقوں سے بھری ہوئی راہ کو صراط مستقیم بتا کر انہیں اسکی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے تو میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کر سکتا ۔ 
مسئلہ قومیت صفحہ 64،65 (

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.