Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-4]


متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 

لطائف دیو بند 

تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔


لطیفہ نمبر 16 :- 
مولانا تھانوی کی صورت کا تصور نماز میں کرنا جائز ہے 
مولانا موصوف کے فتوے کا حاصل :-
کسی نے خط میں لکھا کہ اگر آپ ( مولانا تھانوی ) کی صورت کا تصور کر لوں تو نماز میں جی لگتا ہے ، فرمایا جائز ہے ۔،
( 
ملفوظات اشرف العلوم بابۃ ماہ رمضان 1355 ھ ص 84 ) 
مگر مولانا اسمٰعیل دہلوی فرماتے ہیں :- 
نماز میں زنا کے وسوسے سے اپنی بی بی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت کو لگا لینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے بُرا ہے ۔ 
)صراط مستقیم مترجم ، اردو مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیو بند ص 97 (

پھر فرماتے ہیں :- 
غیر کی تعظیم اور بزرگی جو نماز میں ملحوظ ہو وہ شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے :- 
)صراط مستقیم ص 97 ایضاً (

غور فرمائیے !!!!!!!!
فخر عالم کا خیال و تصور نماز میں لانا اور جمانا ، گدھے اور بیل کے خیال سے بد تر اور شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگرمولانا تھانوی کی صورت نماز میں جی لگانے کے لئے بہ جہت تعظیم بسانا اور ان کی صورت کے تصور و خیال کو بحالت نماز قائم رکھنا ، نہ گدھے اور بیل کے خیال سے بد تر اور نہ شرک کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے ، ورنہ علمائے دیو بند کے ‘‘حجۃ اللہ فی الارض ‘‘ یہ نہ لکھتے کہ ‘‘‘ جائز ہے ‘‘‘ 
اس کا قدرتی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول کے تصور و خیال کو نماز میں شرک کہہ دیا جائے تا کہ عظمت شان میں کچھ تو کمی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مولانا تھانوی کے لئے اسی امر کو جائز قرار دیا جائے تا کہ حق پرستی کو کچھ تو دھچکا پہو نچے ۔ اس مقام پر اس شعر کو پڑھنا نا مناسب نہ ہو گا ۔
نگاہ لطف کی اک اک ادا نے لوٹ لیا 
وفا کے بھیس میں اک بے وفا نے لوٹ لیا

لطیفہ نمبر 17 :-
ایک ذاکر صالح کو مکشوف ہوا کہ احقر ( مولانا تھانوی ) کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں ، انھوں نے مجھ سے کہا ۔ میرا ذہن معاً اسی طرف منتقل ہوا کہکمسن عورت ہاتھ آئے گی ، اس مناسبت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ بہت کم عمر تھیں وہی قصّہ یہاں ہے ۔
رسالہ الامداد ، ماہ صفر 1335 ھ (

متذکرہ بالا خط کشیدہ جملوں پر مولانا مشتاق نظامی کا تبصرہ مجھے بے حد پسند آیا جو اپنی افادیّت کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ نذر ناظرین کروں ،
علامہ نظامی فرماتے ہیں ،
‘‘ کجا ام المؤمنین 
سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ، جن کی فراست دینی اور تفقّہ فی الدین پر اجل صحابہ و خلفائے راشدین کو اعتماد و بھروسہ تھا ، جن کی شان عفّت پر آیات کا نزول ہوا،صحابہ کے پُر پیچ مسائل کی گر ہو ں کو جن کے ناخن تدبیر نے کھول دیا ہو جس نے بلا واسطہ درسگاہ نبوت سے فیض حاصل کیا ہو جس کے مقدس اور پاکیزہ حجرہ میں بارہا جبرئیل امین وحی لے کر حاضر ہوئے ہوں ۔ ہاں وہی ! سیدہ عائشہ جن کے لئے قرآن مجید کا ارشاد محکم ہے کہ الَنَبِیُّ او لٰے بالمؤمنین مِن اَنفُسِھم و اَزوَاجُہ امّھاتُھم ، 
اور کہاں مولانا مولانا تھانوی کی بیگم جن کے آتے ہی مولانا تھانوی کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہو گئی ۔ کہاں محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حرم محرّم اور کہاں مولانا تھانوی کی بیگم ۔ 
۔۔۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک 
وہ سیدہ عائشہ ! جن کا تذکرہ قرآن مجید میں ، جن کا ذکر جمیل احادیث رسول میں ، جن کے محاسن اخلاق تاریخ اسلام میں غرضیکہ جن کا تذکرہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں ، مسجد و خانقاہ میں ، جن کا تذکرہ صدیقین صالحین ، شہداء ، ائمہ مجتہدین، اکابر محدثین ، علماء و اولیاء کی زبانوں پر غرضیکہ وہ عائشہ جن کا تذکرہ فرش پر ، عرش پر ، ملائکہ کی بزم قدس میں حتٰی کہ بارگاہ الوہیت میں ۔ 
افسوس ہے 
تھانوی صاحب کی ناپاک و نجس ذہنیت پر ‘‘ چھوٹا منھ اور بڑی بات ‘‘ اپنی خباثت باطنی کی بناء پر فرماتے ہیں !
‘‘
وہی قصہ یہاں بھی ہے ‘‘ جیسا کہ محبوب کردگار اور سیدہ عائشہ کی شادی کا تھا ۔ 
معاذ اللہ ثمّہ معاذ اللہ 
آنجناب کی بازاری بولی تو ملاحظہ فرمائیے کہ :
میں سمجھ گیا کوئی کمسن عورت ہاتھ آئے گی 
‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس جملہ میں ‘‘ ہاتھ آئے گی ‘‘ کا ٹکڑا خصوصیت سے قابل توجہ ہے ، اہل ادب اور اہل زبان اچھی طرح واقف ہیں کہ اس کا موقع استعمال کیا ہے اور ‘‘کمسن عورت ہاتھ آئے گی ‘‘ کا جملہ مولانا تھانوی کے لذت نفسانی و جذبہ شہوانی پر کس حد تک غماز ہے ۔ 
خون کے آنسو حصہ اول ص213 ، 214 (

لطیفہ نمبر 18 :-
بانی دارالعلوم دیوبند لا اُبالی آدمی تھے پھر بھی مقام نبوت سے بیچے بات نہیں کرتے تھے ۔
ارواح ثلاثہ کا اعلان 

فرمایا ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے ، مولانا گنگوہی کا تو قدم قدم پر انتظام اور مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ لا اُبالی کہین کی چیز کہیں پڑی ہے کچھ پرواہ ہی نہیں ۔ 
اس وقت ایک گروہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کہ ہم بھی آپ کے ہمراہ حج کو چلیں گے آپ نے فرمایا زاد راہ بھی ہے ۔ 
انھوں نے کہا کہ ایسے ہی توکّل پر چلیں گے مولانا نے فرمایا ۔ جب ہم جہاز کا ٹکٹ لیں گے تو تم منیجر کے سامنے توکّل کی پوٹلی رکھ دینا بڑے آئے توکّل کرنے ، جاؤ اپنا کام کرو ۔ پھر ان لوگوں نے حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا تو آپ نے اجازت دے دی ۔ 
ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر ست 
راستے میں جو کچھ ملتا وہ سب لوگوں کو دے دیتے اور ساتھیوں نے کہا کہ حضرت آپ تو سب ہی دے دیتے ہیں کچھ تو اپنے پاس رکھئیے تو فرمایا 
اِنََّما اَنا قَاسِمُ وَاللہ یُعطِی ۔ الخ 
) ارواح ثلاثہ ص297 (

میں اہل علم طبقے سے گزارش کروں گا کہ وہ سینے پہ ہاتھ رکھ کے ، انصاف و دیانت کے ساتھ فرمائیں کہ کیا یہ وہی مقدس الفاظ نہیں جو حضرت ختمی مرتبت کی زبان پاک سے اپنے بارے میں نکلے تھے ۔ ہاں ہاں جو بات سید المر سلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بارے میں ارشاد فرمائی تھی ، بانی دارالعلوم دیو بند اُسے اپنی ذات پر چسپاں کر رہے ہیں ۔ 
کیا اس مقام پر مولانا نانوتوی رسول اعظم کی ہمسری کے مدعی نہیں ہوتے وہ حدیث جسے سرور کائنات نے اپنے بارے میں فرمایا ہو ، اس کو اپنے اوپر فٹ کرنا یا اپنی ذات کو اس حدیث کا مصداق ٹھرانا کیا ارشادات مصطفویہ سے بغاوت اور تحریف فی الدین نہیں ۔ 
کسے خبر تھی کہ لے چراغ مصطفوی 
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بُو لہبی !

لطیفہ نمبر 19 :-
بانی دارالعلوم دیوبند دُلہن کے روپ میں ، مولانا گنگوہی کے نکاح میں پھر دونوں حضرات نے وہ لطف حاصل کیا ، جو شب وصل میں زوجین آپس میں حاصل کرتے ہیں ۔ ایک دلچسپ اور ذوق مباشرت سے بھرا خواب ۔ 
مولانا رشید احمد گنگوہی نے ایک بار ارشاد فرمایا ، میں نے ایک بار خواب دیکھا تھا کہ مولوی محمد قاسم دُلہن کی صورت میں ہیں اور میرا اُن سے نکاح ہوا ہے سو جس طرح زن و شوہر کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے فائدہ پہونچا ہے ۔ 
تذکرۃ الرشید حصہ دوم صفحہ 289 (
یہ بات اپنی جگہ پر دوسری ہے کہ خدا جانے مولانا گنگوہی کتنے گندے خیالات ذہن میں رکھ کر سوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اتنی بات تو سب کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ مولانا نانوتوی کا ذوق مباشرت بڑا ہائی (high) تھا ۔ مباشرت کی گرما گرمی اور دھوم دھام ہوئی تو بانی دارالعلوم دیوبند سے بتشنگی شہوت بُجھائی تو دیوبند حضرات کے ‘‘ قاسم العلوم و الخیرات ‘‘ سے خواب ہو تو ایسا ہو ۔ اور اسٹینڈرڈ بھی ہو تو مولانا نانوتوی جیسا ۔
ممکن ہے اس حیا سوز عقد کو خواب و خیال کہہ کر ٹال دیا جائے مگر ذیل کے واقعہ کو کہاں لے جائیے گا ۔

لطیفہ نمبر 20 
خانقاہ گنگوہ کے بھرے مجمع میں مولانا گنگوہی کا مولانا نانوتوی سے لپٹنے کی فرمائش مولانا گنگوہی کا ان سے چپکنا اور مولانا نانوتوی کا انکار کرتے ہوئے جگ ہنسائی سے ڈرانا ۔ اس پر مولانا گنگوہی کا جواب کہ لوگ کہیں گے کہنے دو ۔ 
پرواہ نہیں جب کوئی خدا سے بندوں سے پرواہ کرنا کیا (
دن دھاڑے گنگوہ کی خانقاہ میں اکابر دیوبند کے معاشقہ کی ٹریننگ :
ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا حضرت گنگوہی ، حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایا ۔ یہاں ذرا سا لیٹ جاؤ ۔ 
حضرت نانوتوی کچھ شرما سے گئے مگر حضرت گنگوہی نے پھر فرمایا تو بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے اور مولانا قاسم نانوتوی کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ اُن کے سینہ پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے ۔ مولانا قاسم نانوتوی ہر چند فرماتے رہے کہ میاں کیا کر رہے ہو ۔ یہ لوگ کیا کہیں گے ۔ حضرت ( گنگوہی) نے فرمایا لوگ کہیں گے کہنے دو ۔ 
ارواح ثلٰثہ ص289 (

یہ وہی قاسم نانوتوی ہیں جنہوں نے بڑی قراءت سے فرمایا تھا :- 
انما انا قاسم واللہ یُعطی :
مگر آج انہیں حضرت گنگوہی نے نہ صرف خواب میں بلکہ گنگوہ کی خانقاہ میں بھرے مجمع کے سامنے دن کی روشنی میں بھی چار خانہ چت کر دیا ۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.