Sunday, February 10, 2013

Lataif-e-Deoband [Part-3]


متلاشیان راہ حق کے لئے بیش قیمت تحفہ 
لطائف دیو بند 
تالیف :- غازی ملّت حضرت مولیٰنا سیّد محمد ھاشمی میاں کچھو چھو ی ۔



لطیفہ نمبر 11
مولانا تھانوی نے عقد ثانی لذّت نفس کے لئےکیا،مگر مریدین و معتقدین پر رنگ جمانے ، زہد و تقوٰی کا رعب گانٹھنے اور جگ ہنسائی سے خود کو بچانے کیلئے کافی بل کھائے اور پینترے بدلے ، فاضل دیوبند مولانا اکبر آبادی کا تبصرہ !!!!!!!!!!!!!
مولانا تھانوی جیسا کہ خود فرماتے ہیں ، دوسرا نکاح محبت دلی کے اقتضاء سے کرتے ہیں ، لیکن شہرت و جاہت خانگی چپقلش کی وجہ اور برادری میں چہ میگو ئیوں کی وجہ سے اس واقعہ کے سبب مولانا تھانوی کو جو ضعطئہ دماغی (complex) پیش آ گیا ہے اس کی وجہ سے اپنے فعل کی تاویل و توجیہ میں ّعجیب عجیب باتیں کہتے ہیں حالانکہ سیدھی بات یہ تھی کہ میں نے عقد ثانی کیا ہے اور یہ شرع میں نا جائز نہیں ہے ، بس بات ختم ہو جاتی ۔
لیکن مولانا کبھی تو فرماتے ہیں کہ بے ساختہ ذہن میں آیا کہ بہت سے درجات موقوف ہیں ، سقوط جاہ و بدنامی پر جس سے تو اب تک محروم ہے ، پس اس واقعہ میں حکمت یہ ہے کہ تو بدنام ہو گا اور حق تعالٰی درجات عطا فرمائیں گے ۔ کبھی مولانا تھانوی فرماتے ہیں ایک مصلحت یہ بھی ظاہر ہوئی کہ اس سے پہلے موت کی محبوبیت کی دولت نصیب نہ تھی ، الحمد للہ کہ اس واقعہ ( شادی) سے یہ دولت بھی نصیب ہو گئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ، مجھ کو ثواب آخرت سے طبعاً کم دلچسپی تھی ، اب معلوم ہوا کہ یہ ایک قسم کی کمی اور استغناء تھی ، الحمد للہ کہ اس کمی کا تدارک ہو گیا ۔ اس کے بعد مولانا تھانوی کا ارشاد ہے کہ حلم و تحمل کا ذوق نہ تھا ۔ خدائے تعالٰی کا احسان ہے کہ یہ کام بھی (بعد شادی) پورا ہو گیا ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مصلحتیں لکھیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا تھانوی نے عقد ثانی کیا کیا ، سلوک و معرفت اور طریقت و حقیقت کی صبر آزما منزلیں بیک جنبش قدم طے کر لی ہیں ، جو ملکات و فضائل اور کمالات روحانی و باطنی سالہا سال کے بعد مجاہدہ اور ریاضت شاقہ کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتے وہ عقد ثانی کرتے ہی فوراً مولانا کو حاصل ہو گئے ۔ (برہان دہلی 1952ء فروری ص105 )

* لطیفہ نمبر 12
مولانا تھانوی ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کا خیال لانا بھی خلاف عدل سمجھتے تھے ۔ مؤلف جامع المجد دین مولانا عبد الباری کا دعوٰی :- 
یہ بات سرتاپا غلط اور بے بنیاد ہے بلکہ اس سے نبی کریم کی تنقیص شان ہوتی ہے ۔ 

فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا تبصرہ :-
جناب مؤلف ( مولوی عبد الباری ندوی مؤلف جامع المجددین ) نے حضرت تھانوی کے انتہائی عدل بین الزوجین کی جو کیفیت بیان کی ہے ، وہ عقلی و منطقی اور نفسیاتی طور پر کس قدر غلط اور بے معنٰی ہے اور ساتھ ہی اس سے کس طرح آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص ہوتی ہے ، عقلی اور نفسیاتی طور پر اس کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی خیال پر کبھی روک ٹوک نہیں لگائی جا سکتی اس پر ہر گز پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا ، یعنٰٰی آپ کسی خیال کی نسبت لاکھ عہد کریں کہ اسے اپنے دل یا دماغ میں گھسنے ہی نہ دیں گے ۔ آپ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ ( چند سطر کے بعد )
خیال لام السلسبیل و دونھا
مسیرۃ شھر البرید المذبذب
(
ترجمہ) میری محبوبہ ام سلسبیل کا خیال میرے پاس آتا ہے حالانکہ میرے اور اس کے درمیان میں ایک تیز رفتار قاصد کی ایک مہینہ کی مسافت ہے ۔
ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ۔
عجبت لمسراھا وانی تخصلت
الٰٰی رباب السجن دونی مغلق
(
ترجمہ) میری محبوبہ کا خیال معلوم نہیں کس طرح میرے پاس چلا آیا جب کہ قید خانہ کا دروازہ میرے اوپر بند تھا ۔
اس بناء پر مؤلف کا یہ دعوٰی کہ حضرت تھانوی ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کا خیال لانا بھی خلاف عدل سمجھتے تھے ۔ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے ، جیسا کہ ہم نے ابھی ارشاد فرمایا !جناب مؤلف کے خیال میں غالباً حضرت تھانوی کے فضل و کمال کا اعتراف اس وقت ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ ایک نہایت معصومانہ انداز میں دوسرے حضرات پر فقرے نہ کسے جائیں اور ان پر طنز و تعریض نہ کی جائے لیکن نہایت افسوس اور بڑے شرم کی بات ہے کہ اس موقعہ پر وہ حبّک الشئی یعمی و یصم ، ( بسا اوقات کسی شئے کی محبت انسان کو اندھا و بہرہ بنا دیتی ہے ) کے مطابق اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص کر بیٹھے ہیں ، تاریخ و سیر اور احادیث کی کتابوں میں صاف طور پر مذکور ہے کہ حضرت سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو حضرت خدیجہ( رضی اللہ عنھا) سے اتنی محبت تھی کہ آپ دوسروں بیویوں کی باری کے دنوں میں حضرت خدیجہ کا ذکر سوز و گداز کے ساتھ اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ ازواج مطہرات کو بعض اوقات ناگواری تک ہو جاتی تھی حضرت خدیجہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے محبت تھی اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنھا) بھی اسے جانتی تھیں لیکن اس کے باوجود فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ کو نہیں دیکھا لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے ۔
(دو سطر بعد)
غور کیجئے مولانا تھانوی کے نزدیک تو دوسری بیوی کا خیال لانا بھی خلاف عدل ہے لیکن یہاں آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف خیال ہی نہیں لاتے بلکہ ذکر بھی فرماتے ہیں اور ذکر بھی ایک دو دفعہ نہیں بھول چوک سے نہین بلکہ ہمیشہ عمداً اور قصداً ۔
)
چند سطروں کے بعد (
اب اس کے مقابل مولوی عبد الباری صاحب مؤلف جامع المجد دین کا بیان پڑھئے کہ مولا نا تھانوی ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کا خیال لانا بھی خلاف عدل سمجھتے تھے ۔ اور بتائیے کہ العیاذ باللہ کیا اس جملہ کا حاصل یہ نہیں ہے کہ اس معاملہ میں مولانا تھانوی کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اونچا ہے کہ جو کام آپ نہ کر سکے وہ مولانا نے کر کے دکھا دیا ۔
برہان دہلی مارچ 52 ءاز ص167 تا ص 176 مختصراً (

لطیفہ نمبر 13 :-
وہ تشّدد پسند، درشت مزاج اور بد اخلاق تھے
قیام دیوبند کے زمانے میں بارہا جی چاہنے پر بھی میں ان سے ملتے ہوئے خوف کھاتا تھا ۔ جامع المجد دین کو پڑھکر میرا خیال پختہ یقین کے سانچے میں ڈھل گیا ۔
فاضل دیو بند مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی آپ بیتی :-
مولانا (تھانوی) کی تشدد پسندی اور درشت مزاجی کی جو روایات برابر سننے میں آتی رہتی ہیں ان کا اثر یہ ہوا کہ قیام دیو بند کے زمانے میں بارہا جی چاہنے کے با وجود مولانا کی خدمت میں حاضری کی جرات کبھی نہیں ہوئی ۔ جامع المجددین میں اسی طرح کے واقعات نظر سے گذرے تو یہ اثر اور قوی ہو گیا ۔
( برہان دسمبر 1952 ص 366 )


لطیفہ نمبر 14 :-

مولوی عبد الباری ندوی مؤلف جامع المجد دین کی ایک عبارت فاضل اکبر آبادی نقل کرتے ہیں :- 
حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کا سب سے نمایاں اور بڑا کمال راقم الحروف ( عبد الباری ندوی) کی نظر میں یہ تھا کہ علم و عمل میں حدود کی رعایت اس درجہ تھی کہ حضرات انبیاء کا تو ذکر نہیں ورنہ لوازم بشریت کے ساتھ اس سے زائد کا تصور دشوار ہے اور اس میں یقیناً اس نعمت کا دخل تھا کہ اللہ تعالٰی نے بسطۃً فی العلم کے ساتھ بسطۃً فی العمل کا بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا جسمانی خلقت ظاہر و باطنی حواس کی اور نتیجہ اعتدال مزاج کی لطافت میں بھی مجددامت کی ذات نبی امت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پر تو تھی ۔
(برہان فروری 52ء ص 112 ، 113 )

فاضل اکبر آبادی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد یوں تبصرہ فرماتے ہیں :-

حضرات انبیاء کا تو ذکر ہی نہیں ورنہ لوازم بشریت کے ساتھ اس سے زائد کا تصور دشوار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عبارت کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ تابعین و تبع تابعین اور ائمہ عظام و صدیقین و شہداء تو کیا ، مولانا تھانوی کا مقام صحابہ سے بھی اونچا تھا کیونکہ صحابی سب ایک ہی مرتبے کے نہیں تھے ۔ ان میں آپس میں بھی فرق مراتب تھا اور لوازم بشریت کے ساتھ اس سے زائد کا تصور ہی نہ ہونا یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے ، اس بناء پر مولانا تھانوی فرداً فرداً ہر ایک صحابہ سے اونچے نہ سہی ، بعض صحابہ سے جو دوسرے صحابہ کے مقابلے میں مفضول تھے ، ان سے لا محالہ تھانوی صاحب اونچے ہو ہی گئے ۔ 
( برہان دہلی فروری 1952ء ص 114 )


لطیفہ نمبر 15 :-
مولانا تھانوی کا پیر دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے ۔ 
مولوی عاشق الٰہی میرٹھی کی ‘‘ تقویۃ الایمان شکنی ‘‘ 
مولوی عاشق الٰٰہی میرٹھی دیوبندی نے کہا ، واللہ العظیم ، مولانا تھانوی کے پیر دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے ۔ 
تذکرۃ الرشید حصہ اول ص 113 (

) جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.