۔ اِمام جلال
الدین سیوطی (849۔ 911ھ)
امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی (1445۔ 1505ء) کا شمار
ان جلیل القدر محققین و مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے تناظر میں بیش بہا معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کتاب
’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب اِمام سیوطی رحمۃ اللہ
علیہ کی ایک اور کتاب ’’الحاوی للفتاوی‘‘ کا حصہ ہے۔ اِس حصہ میں نقلی و عقلی
دلائل کے ساتھ تقریبِ میلاد کا شرعی جواز دینے کے علاوہ میلاد کی تاریخی، مذہبی،
فقہی اور شرعی حیثیت کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں اور کئی ائمہ کرام کے
اِرشادات نقل کیے گئے ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کے چند اہم اقتباسات درج کیے جاتے ہیں
:
1.
إن أصل عمل المولد الذي هو اجتماع الناس، وقراء ة ما تيسر من القرآن، ورواية
الأخبار الواردة في مبدأ (أمر) النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وما وقع في مولده
من الآيات، ثم يُمدّ لهم سماطاً يأکلونه، وينصرفون من غير زيادة علي ذلک من البدع
(الحسنة) التي يثاب عليها صاحبها؛ لما فيه من تعظيم قدر النبي صلي الله عليه وآله
وسلم ، وإظهار الفرح والاستبشار بمولده (صلي الله عليه وآله وسلم) الشريف.
’’رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں
کے جمع ہو کر بہ قدرِ سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت
ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں منقول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔
پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور
وہ اس بدعتِ حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد
پر اِظہارِ فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 41
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 199
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 199
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236
2. إن ولادته صلي الله عليه وآله وسلم أعظم النعم علينا، ووفاته أعظم
المصائب لنا، والشريعة حثّت علي إظهار شکر النعم والصبر والسکون والکتم عند
المصائب، وقد أمر الشرع بالعقيقة عند الولادة وهي إظهار شکر وفرح بالمولود، ولم
يأمر عند الموت بذبح ولا بغيره. بل نهي عن النياحة وإظهار الجزع، فدلّت قواعد
الشريعة علي أنه يحسن في هذا الشهر إظهار الفرح بولادته صلي الله عليه وآله وسلم
دون إظهار الحزن فيه بوفاته.
’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہمارے لیے
نعمتِ عظمیٰ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت
ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیبت پر صبر و سکون
کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا
حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار
کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا
بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے
کہ ماہِ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی کا
اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 54، 55
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203
3. وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي
الله عنه أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد
أن جده عبد المطلب عقّ عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک
علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي
إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا
أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه
القربات، وإظهار المسرات.
’’يوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالے سے ایک اور
دلیل جو مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل
کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا
عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ
کر چکے تھے۔ اور عقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی چیز پر محمول
کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوبارہ اپنا عقیقہ کرنا آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا شکرانے کا اِظہار تھا اس بات پر کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے شرف
کا باعث بنایا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر
عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.