امام
شہاب الدین ابو العباس قسطلانی (851۔ 923ھ)
صاحبِ ’’ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری‘‘ امام شہاب الدین ابو
العباس احمد بن ابی بکر قسطلانی (1448۔ 1517ء) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منانے کے متعلق لکھتے ہیں :
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ فقال : في
النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل ليلة اثنين، وأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار
برأس أصبعه. وأن ذلک بإعتاقي لثويبة عندما بشّرتني بولادة النبي (صلي الله عليه
وآله وسلم ) وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي : فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه
جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال
المسلم الموحّد من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبّته صلي الله
عليه وآله وسلم ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات
النعيم.
ولا زال أهل الإسلام يحتفلون بشهر مولده عليه السلام، ويعملون
الولائم، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون السرور ويزيدون في المبرات.
ويعتنون بقراء ة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم.
ومما جُرّب من خواصه أنه أمان في ذالک العام، وبشري عاجلة بنيل
البغية والمرام، فرحم اﷲ امرءًا اتّخذ ليالي شهر مولده المبارک أعيادًا، ليکون أشد
علة علي من في قلبه مرض وأعيا داء.
’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا
: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن
(میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ میری ان
دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ
(تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے
مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جزری کہتے ہیں : پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی
تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی
ہے، تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا
عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم!
میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں
گے۔
’’ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادتِ باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ دعوتوں کا
اِہتمام کرتے ہیں اور اِس ماہِ (ربیع الاول) کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام
ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور
میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہر طور فیض
یاب ہوتا ہے۔
’’محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد
منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی
فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماہِ
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتوں کو (بھی) بہ طور عید منا کر اس کی
شدتِ مرض میں اضافہ کیا جس کے دل میں (بغضِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
سبب پہلے ہی خطرناک) بیماری ہے۔‘‘
1. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147، 148
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260. 263
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233، 234
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260. 263
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233، 234
اِمام قسطلانی کی مذکورہ عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل
میں محافلِ میلاد منعقد کرنا، واقعاتِ میلاد پڑھنا، دعوتیں کرنا اور کثرت کے ساتھ
صدقہ و خیرات کرنا، اَعمالِ صالحہ میں زیادتی کرنا اور خوشی و مسرت کا اِظہار کرنا
ہمیشہ سے سلف صالحین کا شیوہ رہا ہے۔ اور ان اُمور کے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ کے فضل
اور اُس کی رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.