غنیة الطالبین حضور پیران ِ پیر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصیف ہرگز نہیں ہے حقائق ودلائل اہل ِ ایمان کی خدمت میں پیش ہیں ملاحظہ فرماکر فیصلہ خود کردیں؛ غنیہ الطالبین کتاب جوکہ بغداد کے ایک واعظ عبدالقادر کی تالیف ہے غلط طور پر حضور پیران ِ پیر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب کردی گئی ہے۔آپ لوگ ماشاء اللہ پڑھے لکھے اور دین ِ محمدی کو دل وجان سے تسلیم کرنے والے ہیںذرا غور کرنا کہ کیا حضور غوث پاک قرآن وحدیث کے خلاف کوئی بات کرسکتے ہیں ہرگز نہیں اس کتاب میں یہ لکھا ہواہے کہ؛ حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کی قربانی کرنے کا حکم ملااور حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق اپنے بیٹے سے مشورہ کیا کہ اے بیٹے بتاؤ تمہارا کیا مشورہ ہے تو آپ کے بیٹے حضرت اسحاق نے عرض کیکہ اے ابا جان آپ کو جوحکم ملا ہے کیجئے آپ مجھے فرمانبردار اور صابر پائیں ؛ اگر یہ نام نہاد ملاں اور پیر اس عبارت پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ صریح کفر وبغاوت ہے قرآن مجید سے اور دین اسلام محمدی سے۔ اس سے حضرت اسماعیل کی قربانی کا انکار لازم آتا ہے نیز حضرت ہاجرہ کی صفا ومروہ کے درمیان سعی اور چاہ زمزم جو حضرت اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے قدرت خداوندی سے ظاہر ہوا تا ان کا انکار کرناپڑے گا جو کہ یہودیوں کا مذہب ہے
اس کتاب کے بارے علمائے حق اور دیگر مسلک کے علماء کیا کہتے ہیں-1- شاہ عبدالحق محدث دھلوی کا قول ہے جوکہ غنیہ الطالبین کے ترجمہ میںلکھا اور ترجمہ فارسی زبان کا ہے کہ ہرگز ثابت نہیں کہ یہ غوث پاک کی تصنیف ہے اگر چہ اس کتاب کا منسوب ہونا غوث پاک کی طرف شہرت بھی رکھتی ہے حافظ ابن ِ حجر فتاویٰ میں لکھتے ہیں؛خاص کر آپ ا س کتاب میں غوطہ زنی سے اجتناب کریںجو کچھ اس میں ہے اس کتاب کوغوث اعظم کی طرف منسوب کرنے میں کسی نے سازش کی ہے اور جلد اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا اورغوث اعظم ایسی باتوں سے مبراء ہیںعلامہ حمزہ شنواری لکھتے ہیں ؛غنیہ الطالبین جیسی کمزور کتاب کا ان کی طرف منسوب سرکار غوث الوریٰ کی توہین کے مترادف ہے مزید لکھتے ہیں ہمارے سلسلہ نظامیہ کے تمام بزرگ اس پر متفق ہیں کہ :غنیہ الطالبین:کو حضور غوث پاک نے نہیں لکھا(وجود و شہود) فخرالمتکلمیں مولانا علامہ محمد عبدالعزیز پرہاروی لکھتے ہیں؛یعنی آپ کو کودھوکہ نہ ہوجائے غینہ الطالبین کے بارے میںیہ کتاب غوث الاعظم کی طرف منسوب کی گئی ہے اور یہ نسبت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میںموضوع احادیث زیادہ ہیں(النبراس شرح عقائد)سلطان الفقر حضرت فقیرنورمحمدسروری قادری کلاچوی فرماتے ہیں ہم یہاں اس کتاب میں اس حقیقت کے اظہار پر مجبور ہیںکہ کتاب حضرت محبوب سبحانی قدس سرہ کی تصنیف نہیںہے پھر موصوف آگے لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ہماری اس حق گوئی پر اعتراض یہ کریںگے کہ پھر یہ کتاب غنیہ الطالبین کیوں اور کس طرح آپ کے نام سے منسوب ہوگئی در اصل بات یہ ہے کہ چند کتابیں آج تک موجود ہیں اورمعلوم بھی ہیں جو معمولی عالموںکی تصانیف وتالیف ہیں لیکن دوکانداروںکتب فروشوںناشروںنے ان کی محض خریداری بڑھانے کی خاطرانہیں کسی مشہور ومعروف اور برگزیدہ ہستی کے نام منسوب کردیاہے فتوح الحرمین فارسی نظم کی ضخیم کتاب ہے جسے حرمین شریفین کی تعریف و توصیف میں حضرت جامی نے تصنیف فرمایا ہے لیکن اس کو حضرت محبوب سبحانی کے نام منسوب کردیا گیا ہے یہ کتاب ہردکاندار سے چھپی ہوئی ملتی ہے اور ہر شخص اسے دیکھ سکتا ہے نیز ایک دیوان محض غلط طور پر حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی اجمیری کے نام منسوب کیا گیا ہے اس کی تمام غزلیںحضرت علامہ معین کاشفی کی کتب معارج النبوة سے لی گئی ہیںاور اسے دیوان حضرت معین الدین چشتی اجمیری کا غلط نام دیا گیا ہے اس کتاب میں ہردو حضرات کے اسم معین کی مماثلت توموجود ہے لیکن کتاب فتوح الحرمین میں وہ مماثلت بھی مفقود ہے (مخزن الاسرار) علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں ؛علاوہ ازیں غنیہ الطالبین میں حنفیہ کوفرقہ مرجیہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں ایسے مسائل شامل ہیں جو جمہور اہلسنت کے معتقدات کے خلاف ہیں مثال کے طور پراس میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کو قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ معتزلہ کا مسلک ہے اور اس نظریہ کا اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جناب غوث اعظم کی ذات ستودہ صفات اس بد عقیدگی سے بہت بلند وبالا ہے (توضیح البیان) حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی نے ھدیة السالکین فی غنیہ الطالبین میںلکھا ہے رضوان رسالہ ماہنامہ لاہور سے شائع ہوتا ہے اس میں ہمارے مسلک کے مطابق جواب مندرج ہے جسے ہم عن ومن لکھ رہے ہیںوہ فتویٰ مع سوال وجواب یہ ہے دسوال : غینہ الطالبین حضور غوث پاک کی کتاب ہے یاکہ نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں یہ ان کی تصنیف نہیں ہے(مولوی فرید) جواب:تحقیق یہی ہے کہ غنیہ الطالبین حضور پرنور غوث الثقلین شنہنشاۂ بغداد کی تصنیف نہیں ہے یہ کتاب کیا ہے ذخیرہ ٔ موضوعات ہے احناف پر وہ کیچڑ اچھالا گیا ہے کہ حضور پرنور کی طرف جس کی نسبت قطعا نارواہے جس نے حضورکی دیگر کتابوںکو بنظرغائر دیکھا ہے وہ اس کتاب کو آپ سے منسوب کرنا درست نہیں سمجھے گا یہ صرف میری تحقیق نہیں بلکہ کئی اور محقق بھی میرے ساتھ ہیں سلطان العارفین امام الواصلین شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی غنیہ الطالبین کے فارسی ترجمہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں؛: ہرگز نہ ثابت شدہ کہ ایں تصنیف آںجناب است اگرچہ انتساب مآب حضرت شہرت دارد(ہدیة السالکین) علمائے دیوبند کے پیشوا عبدالحی لکھنوی نے الرفیع والکمیل فی الجرح والتعدیل میںلکھا ہے، ان الغنی لیس من تصانیف الشیخ محی الدین رضی اللہ عنہ انہ ط نثبت ان الغنیہ من تصانیفہ وان اشتھر انتسابھا الیہ،غنیہ الطالبین حضرت شیخ محی الدین جیلانی کی ہرگز تصنیف نہیں ان کی تصانیف میں اس کا نام ونشان نہیں ملتا ۔اگر چہ اس کا انتساب انکی طرف مشہور ہے علاوہ ازیں جامع الفتاویٰ جلد اول میں لکھا ہوا ہے کہ؛ بڑے بڑے علمائے دین مورخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب (غنیة الطالبین)حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی نہیں ہے یہ کوئی اور عبدالقادر ہے ۔ فتاوی نظامیہ ص235 ج2 متمولہ جامع الفتاوی
اس کتاب کے بارے علمائے حق اور دیگر مسلک کے علماء کیا کہتے ہیں-1- شاہ عبدالحق محدث دھلوی کا قول ہے جوکہ غنیہ الطالبین کے ترجمہ میںلکھا اور ترجمہ فارسی زبان کا ہے کہ ہرگز ثابت نہیں کہ یہ غوث پاک کی تصنیف ہے اگر چہ اس کتاب کا منسوب ہونا غوث پاک کی طرف شہرت بھی رکھتی ہے حافظ ابن ِ حجر فتاویٰ میں لکھتے ہیں؛خاص کر آپ ا س کتاب میں غوطہ زنی سے اجتناب کریںجو کچھ اس میں ہے اس کتاب کوغوث اعظم کی طرف منسوب کرنے میں کسی نے سازش کی ہے اور جلد اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا اورغوث اعظم ایسی باتوں سے مبراء ہیںعلامہ حمزہ شنواری لکھتے ہیں ؛غنیہ الطالبین جیسی کمزور کتاب کا ان کی طرف منسوب سرکار غوث الوریٰ کی توہین کے مترادف ہے مزید لکھتے ہیں ہمارے سلسلہ نظامیہ کے تمام بزرگ اس پر متفق ہیں کہ :غنیہ الطالبین:کو حضور غوث پاک نے نہیں لکھا(وجود و شہود) فخرالمتکلمیں مولانا علامہ محمد عبدالعزیز پرہاروی لکھتے ہیں؛یعنی آپ کو کودھوکہ نہ ہوجائے غینہ الطالبین کے بارے میںیہ کتاب غوث الاعظم کی طرف منسوب کی گئی ہے اور یہ نسبت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میںموضوع احادیث زیادہ ہیں(النبراس شرح عقائد)سلطان الفقر حضرت فقیرنورمحمدسروری قادری کلاچوی فرماتے ہیں ہم یہاں اس کتاب میں اس حقیقت کے اظہار پر مجبور ہیںکہ کتاب حضرت محبوب سبحانی قدس سرہ کی تصنیف نہیںہے پھر موصوف آگے لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ہماری اس حق گوئی پر اعتراض یہ کریںگے کہ پھر یہ کتاب غنیہ الطالبین کیوں اور کس طرح آپ کے نام سے منسوب ہوگئی در اصل بات یہ ہے کہ چند کتابیں آج تک موجود ہیں اورمعلوم بھی ہیں جو معمولی عالموںکی تصانیف وتالیف ہیں لیکن دوکانداروںکتب فروشوںناشروںنے ان کی محض خریداری بڑھانے کی خاطرانہیں کسی مشہور ومعروف اور برگزیدہ ہستی کے نام منسوب کردیاہے فتوح الحرمین فارسی نظم کی ضخیم کتاب ہے جسے حرمین شریفین کی تعریف و توصیف میں حضرت جامی نے تصنیف فرمایا ہے لیکن اس کو حضرت محبوب سبحانی کے نام منسوب کردیا گیا ہے یہ کتاب ہردکاندار سے چھپی ہوئی ملتی ہے اور ہر شخص اسے دیکھ سکتا ہے نیز ایک دیوان محض غلط طور پر حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی اجمیری کے نام منسوب کیا گیا ہے اس کی تمام غزلیںحضرت علامہ معین کاشفی کی کتب معارج النبوة سے لی گئی ہیںاور اسے دیوان حضرت معین الدین چشتی اجمیری کا غلط نام دیا گیا ہے اس کتاب میں ہردو حضرات کے اسم معین کی مماثلت توموجود ہے لیکن کتاب فتوح الحرمین میں وہ مماثلت بھی مفقود ہے (مخزن الاسرار) علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں ؛علاوہ ازیں غنیہ الطالبین میں حنفیہ کوفرقہ مرجیہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں ایسے مسائل شامل ہیں جو جمہور اہلسنت کے معتقدات کے خلاف ہیں مثال کے طور پراس میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کو قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ معتزلہ کا مسلک ہے اور اس نظریہ کا اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جناب غوث اعظم کی ذات ستودہ صفات اس بد عقیدگی سے بہت بلند وبالا ہے (توضیح البیان) حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی نے ھدیة السالکین فی غنیہ الطالبین میںلکھا ہے رضوان رسالہ ماہنامہ لاہور سے شائع ہوتا ہے اس میں ہمارے مسلک کے مطابق جواب مندرج ہے جسے ہم عن ومن لکھ رہے ہیںوہ فتویٰ مع سوال وجواب یہ ہے دسوال : غینہ الطالبین حضور غوث پاک کی کتاب ہے یاکہ نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں یہ ان کی تصنیف نہیں ہے(مولوی فرید) جواب:تحقیق یہی ہے کہ غنیہ الطالبین حضور پرنور غوث الثقلین شنہنشاۂ بغداد کی تصنیف نہیں ہے یہ کتاب کیا ہے ذخیرہ ٔ موضوعات ہے احناف پر وہ کیچڑ اچھالا گیا ہے کہ حضور پرنور کی طرف جس کی نسبت قطعا نارواہے جس نے حضورکی دیگر کتابوںکو بنظرغائر دیکھا ہے وہ اس کتاب کو آپ سے منسوب کرنا درست نہیں سمجھے گا یہ صرف میری تحقیق نہیں بلکہ کئی اور محقق بھی میرے ساتھ ہیں سلطان العارفین امام الواصلین شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی غنیہ الطالبین کے فارسی ترجمہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں؛: ہرگز نہ ثابت شدہ کہ ایں تصنیف آںجناب است اگرچہ انتساب مآب حضرت شہرت دارد(ہدیة السالکین) علمائے دیوبند کے پیشوا عبدالحی لکھنوی نے الرفیع والکمیل فی الجرح والتعدیل میںلکھا ہے، ان الغنی لیس من تصانیف الشیخ محی الدین رضی اللہ عنہ انہ ط نثبت ان الغنیہ من تصانیفہ وان اشتھر انتسابھا الیہ،غنیہ الطالبین حضرت شیخ محی الدین جیلانی کی ہرگز تصنیف نہیں ان کی تصانیف میں اس کا نام ونشان نہیں ملتا ۔اگر چہ اس کا انتساب انکی طرف مشہور ہے علاوہ ازیں جامع الفتاویٰ جلد اول میں لکھا ہوا ہے کہ؛ بڑے بڑے علمائے دین مورخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب (غنیة الطالبین)حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی نہیں ہے یہ کوئی اور عبدالقادر ہے ۔ فتاوی نظامیہ ص235 ج2 متمولہ جامع الفتاوی
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.