۔ ملا علی
القاری کی تحقیق (م 1014ھ)
نام وَر حنفی محدّث اور فقیہ، ’’شرح الشفا‘‘ اور ’’مرقاۃ المفاتیح
شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ کے مصنف ملا علی بن سلطان ہروی قاری (م 1606ء) نے بھی
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک گراں قدر کتاب ’’المورد الروي فی مولد
النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونسبہ الطاھر‘‘ مرتب کی ہے۔ اِس میں میلادالنبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز اور عالم عرب و عجم میں اِنعقاد محافلِ میلاد کو
اسلامی و تاریخی تناظر میں انتہائی مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں
ایک مقام پر ملا علی قاری لکھتے ہیں :
وفي قوله تعالي : لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ(1) إشعار بذلک وإيماء
إلي تعظيم وقت مجيئه إلي هنالک. قال : وعلي هذا فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم
الشکر ﷲ تعالي من نحو ما ذکر، وأما ما يتبعه من السماع واللهو وغيرهما فينبغي أن
يقال ما کان من ذلک مباحًا بحيث يعين علي السرور بذلک اليوم فلا بأس بإلحاقه، وما
کان حرامًا أو مکروها فيمنع. وکذا ما کان فيه خلاف، بل نحسن في أيام الشهر کلها و
لياليه يعني کما جاء عن ابن جماعة تمنيه فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا
إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم بن جماعة لما کان بالمدينة النبوية علي
ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحيّة کان يعمل طعامًا في المولد النبوي ويطعم الناس
ويقول : لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدًا.
قلت : وأنا لما عجزت عن الضيافة الصورية کتبت هذه الأوراق لتصير
ضيافة معنوية نورية مستمرة علي صفحات الدهر غير مختصة بالسنة والشهر وسميته :
بالمورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم .(2)
’’فرمانِ باری تعالی۔ بے شک تمہارے پاس (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ میں یہی خبر و اشارہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت کی تعظیم بجا لائی جائے اور اس لیے ضروری ہے
کہ اظہارِ تشکر میں مذکورہ صورتوں پر اکتفا کیا جائے۔ جہاں تک سماع اور کھیل کود
کا تعلق ہے تو کہنا چاہیے کہ اس میں سے جو مباح اور جائز ہے اور اس دن کی خوشی میں
ممدو معاون ہے تو اُسے میلاد کا حصہ بنانے میں کوئی حرج نہیں اور جو حرام اور
مکروہ ہے اس سے منع کیا جائے۔ یونہی جس میں اختلاف ہے بلکہ ہم تو اس مہینے میں
تمام شب و روز میں یہ عمل جاری رکھتے ہیں جیسا کہ ابن جماعہ نے فرمایا۔ ہمیں یہ
بات پہنچی ہے کہ زاہد، قدوہ، معمر ابو اسحاق ابراہیم بن عبدالرحیم بن ابراہیم بن جماعہ
جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو
میلادِ نبوی کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے اور فرماتے : اگر میرے بس
میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔
’’میں کہتا ہوں : جب میں ظاہری دعوت و ضیافت سے عاجز ہوں تو یہ
اَوراق میں نے لکھ دیے تاکہ میری طرف سے یہ معنوی و نوری ضیافت ہو جائے جو زمانہ
کے صفحات پر ہمیشہ باقی رہے، محض کسی سال یا مہینے کے ساتھ ہی خاص نہ ہو۔ اور میں
نے اس کتاب کا نام ’’المورد الروي في مولد النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ رکھا
ہے۔‘‘
التوبة، 9 : 128
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 17
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 17
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ فقال : في
النار، إلا أنه خُفّف عنّي کل ليلة اثنتين، فأمصّ من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار
إلي رأس أصابعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي صلي الله عليه
وآله وسلم وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي : فإذا کان هذا أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه
جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فما حال المسلم
الموحد من أمته يُسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه
وآله وسلم ؟ لعمري! إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله العميم جنات
النعيم.
’’اور ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا
: اب تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن
(میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ
میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں)
اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب
اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جوزی (510۔ 579ھ) کہتے ہیں : پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں جب اُس ابولہب کے
عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت)
نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب
کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی
قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں
گے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم
ونسبه الطاهر : 42، 43
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.