Monday, January 07, 2013

کالعدم تنظیمیں نئے نام سے سرگرم عمل


پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کے کرم‘ رسول پاکﷺ کی نگاہ فیض اور بیس لاکھ علماء اہلسنت وعوام اہلسنت کی قربانیوں کی بدولت آزاد اور اسلامی ملک ہمیں نصیب ہوا تو دشمنان اسلام کو یہ اس قدر برا اور زہر قاتل لگنے لگا کہ انہوں نے اسی دن سے اس ملک کو برباد اور اندرونی طورپر کھوکھلا کرنے کاآغاز کردیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اس وطن عزیز کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی مخلص اور محب وطن حکمران نہ مل سکا۔ ہر جانے والا آنے والے سے بہتر گزرا۔ ہر حاکم نے ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے اپنے گھر اور کاروبار کو مضبوط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب تک ترقی نہ کرسکا۔
جب پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد قائداعظم محمد علی جناح اور علمائے اہلسنت کی قیادت میں کی جارہی تھیں‘ اسوقت ایک طاقت نام نہاد مذہبی علماء کی کانگریس کے ساتھ تھی جوکہ پاکستان بنانے کے مخالف تھے جن میں جماعت اسلامی‘ جمعیت علماء اسلام اور تبلیغی جماعت وغیرہ جماعتوں کے قائدین اور عوام شامل تھی جوکہ روز اول سے ہی پاکستان بنانے کے خلاف تھے مگر پاکستان بننے کے بعد ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پاکستان بنانے والے بن گئے اور بڑی بڑی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ رفتہ رفتہ ان جماعتوں سے عسکریت پسند پیدا ہونے لگے جوکہ جہاد کے نام پر پورے ملک میں انتشار پھیلانے لگے۔ انہیں سرگرم دیکھ کر پاکستان مخالف قوتیں خصوصاً بھارت‘ امریکہ اور روس نے ان نام نہاد جہادی و مذہبی جماعتوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ان جماعتوں کو اسلحہ اور بھاری رقوم انہی ممالک سے میسر آتی تھیں اور آتی ہیں۔
پاکستان میں حکومتیں آتی رہیں‘ عیاشی کرتے ہوئے جاتی رہیں‘ بالاخر جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں چند فسادی جماعتوں پر پابندی عائد کی جن میں سپاہ صحابہ (دیوبندی گروپ) جیش محمد (دیوبندی گروپ) لشکر جھنگوی (دیوبندی گروپ) تحریک نفاذ شریعت محمدی (دیوبندی گروپ) لشکر طیبہ (اہلحدیث گروپ) سپاہ محمد (شیعہ گروپ) اور تحریک جعفریہ پاکستان (شیعہ گروپ) شامل ہیں۔ جب تک مشرف حکومت تھی اس نے ان جماعتوں کو نکیل ڈالے رکھا تھا مگر مشرف اقتدار کے خاتمے کے بعد موجودہ وقت میں ان تمام جماعتوں نے نام بدل کر کام کرنا شروع کردیا۔ نام بدل کر کام تو مشرف دور میں بھی جاری تھا مگر مشرف حکومت کے بعد یہ جماعتیں کھل کر اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ چنانچہ ایک مقامی اخبار اس بارے میں اپنی سروے رپورٹ کچھ اس طرح پیش کرتاہے۔
’’امن وامان برقرار رکھنے اور فرقہ واریت کی روک تھام کے لئے پاکستان کے سابق صدر جنرل مشرف نے جن جماعتوں پر اپنے دور اقتدار میں پابندی عائد کی تھی‘ وہ دوبارہ سرگرم ہوچکی ہیں اور اب وہ کھل کر نئے نام کے ساتھ اپنے مذموم مقاصد پورے کررہی ہیں۔ موجودہ جمہوری حکومت نے اگر ان تنظیموں کو لگام نہ دی تو آنے والے وقتوں میں اس کا بہت برا اثر پاکستان پر پڑے گا‘‘
مقامی اخبار کے سروے میں سو فیصد سچائی ہے اور یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ تنظیمیں آج کل بہت سرگرم ہیں۔
1…کالعدم سپاہ صحابہ (دیوبندی گروپ) اس وقت اہلسنت و الجماعت اور سنی ایکشن کمیٹی‘‘ دونوں ناموں سے کام کررہی ہے۔
2… کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی (دیوبندی گروپ) اس وقت ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ کے نام سے کام کررہی ہے۔
3…کالعدم لشکر جھنگوی اب بھی اسی نام سے اپنے آپ کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
4… کالعدم لشکر طیبہ (اہلحدیث گروپ) پابندی لگنے کے بعد ’’جماعۃ الدعوہ‘‘ کے نام سے کام کررہی تھی اور اب ’’کالعدم جماعت الدعوہ‘‘ پر پابندی لگنے کے بعد ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘ کے نام سے کام کررہی ہے۔
5… کالعدم سپاہ محمد (شیعہ گروپ) اس وقت ’’شیعہ ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام سے کام کررہی ہے۔
6… کالعدم تحریک جعفریہ پاکستان (شیعہ گروپ) اس وقت ’’تحریک اسلامی‘‘ کے نام سے سرگرم ہے۔
یہ باتیں لکھنے کا مقصد ارباب اقتدار اور اعلیٰ عہدیداران کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اگر ان فرقہ پرستوں اور اسلحہ برداروں کو لگام نہ دی گئی اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نگرانی نہ رکھی گئی تو پھر ہر شہر میں فضل اﷲ‘ بیت اﷲ محسود اور صوفی محمد جیسے لوگ پیدا ہوں گے اور یہ تمام اسلحہ بردار ان کے ساتھ مل کر پورے پاکستان میں افراتفری‘ انتہا پسندی اور مسلمانوں کے گلے کاٹنے والا نظام لانے کی ناکام کوشش کریں گے لہذا حکومت ان کا جڑ سے خاتمہ کرے۔
ہماری حکومت بھی بڑی عجیب ہے۔ اس کا حال کچھ یوں ہے کہ آگ سہراب گوٹھ میں لگتی ہے اور حکومت پانی کیماڑی کی طرف پھینکتی ہے حالانکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں سے آگ لگے وہیں پر پانی بہایا جائے تاکہ آگ بڑھنے نہ پائے۔ حکومت ان اسلحہ برداروں کا علاج کرے ورنہ یہ آگ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ -

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.