Friday, January 25, 2013

اِمام محمد الزرقانی اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


۔ اِمام محمد الزرقانی (1055۔ 1122ء)

اِمام ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف المالکی الزرقانی (1645۔ 1710ء) سیرتِ طیبہ کی معروف کتاب المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ کی شرح میں فرماتے ہیں :
استمرّ أهل الإسلام بعد القرون الثلاثة التي شهد المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم بخيريتها، فهو بدعة. وفي أنها حسنة، قال السيوطي : وهو مقتضي کلام ابن الحاج في مدخله فإنه إنما ذم ما احتوي عليه من المحرمات مع تصريحه قبل بأنه ينبغي تخصيص هذا الشهر بزيادة فعل البرّ وکثرة الصدقات والخيرات وغير ذلک من وجوه القربات. وهذا هو عمل المولد مستحسن والحافظ أبي الخطاب بن دحية ألف في ذالک ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه الملک المظفر صاحب إربل بألف دينار، واختاره أبو الطيب السبتي نزيل قوص وهؤلاء من أجلّة المالکية أو مذمومة وعليه التاج الفاکهاني وتکفل السيوطي، لردّ ما استند إليه حرفاً حرفاً والأول أظهر، لما اشتمل عليه من الخير الکثير.
يحتفلون : يهتمون بشهر مولده عليه الصلوة والسلام ويعملون الولائم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور به، ويزيدون في المبرات ويعتنون بقراء ة قصة مولده الکريم ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عميم.
’’اہلِ اِسلام ان ابتدائی تین اَدوار (جنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیرالقرون فرمایا ہے) کے بعد سے ہمیشہ ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ عمل (اگرچہ) بدعت ہے مگر ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے (جیسا کہ) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، اور ’’المدخل‘‘ میں ابن الحاج کے کلام سے بھی یہی مراد ہے اگرچہ انہوں نے ان محافل میں دَر آنے والی ممنوعات (محرمات) کی مذمت کی ہے، لیکن اس سے پہلے تصریح فرما دی ہے کہ اس ماہِ مبارک کو اَعمالِ صالحہ اور صدقہ و خیرات کی کثرت اور دیگر اچھے کاموں کے لیے خاص کر دینا چاہیے۔ میلاد منانے کا یہی طریقہ پسندیدہ ہے۔ حافظ ابو خطاب بن دحیہ کا بھی یہی مؤقف ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب التنویر فی المولد البشیر والنذیر تالیف فرمائی جس پر مظفر شاہِ اِربل نے انہیں ایک ہزار دینار (بطور انعام) پیش کیے۔ اور یہی رائے ابوطیب سبتی کی ہے جو قوص کے رہنے والے تھے۔ یہ تمام علماء جلیل القدر مالکی ائمہ میں سے ہیں۔ یا پھر یہ (عمل مذکور) بدعتِ مذمومہ ہے جیسا کہ تاج فاکہانی کی رائے ہے۔ لیکن امام سیوطی نے ان کی طرف منسوب عبارات کا حرف بہ حرف رَدّ فرمایا ہے۔ (بہرحال) پہلا قول ہی زیادہ راجح اور واضح تر ہے۔ بایں وجہ یہ اپنے دامن میں خیر کثیر رکھتا ہے۔
’’لوگ (آج بھی) ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور اس کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کثرت کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں اور مولود شریف کے واقعات پڑھنے کا اِہتمام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی خصوصی برکات اور بے پناہ فضل و کرم اُن پر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 261، 262

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.