Friday, January 25, 2013

سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کا جشنِ میلاد


سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کا جشنِ میلاد

شاہ ابوسعید المظفر (م 630ھ) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی تھے۔ سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
الملک المظفر أبو سعيد کوکبري بن زين الدين علي بن تبکتکين أحد الأجواد والسادات الکبراء والملوک الأمجاد، له آثار حسنة وقد عمر الجامع المظفري بسفح قاسيون، وکان قد همّ بسياقة الماء إليه من ماء برزة فمنعه المعظم من ذلک، واعتل بأنه قد يمر علي مقابر المسلمين بالسفوح، وکان يعمل المولد الشريف في ربيع الأول ويحتفل به احتفالاً هائلاً، وکان مع ذلک شهماً شجاعاً فاتکاً بطلاً عاقلاً عالماً عادلاً رحمه اﷲ وأکرم مثواه. وقد صنّف الشيخ أبو الخطاب بن دحية له مجلداً في المولد النبوي سمّاه ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه علي ذلک بألف دينار، وقد طالت مدته في الملک في زمان الدولة الصلاحية، وقد کان محاصراً عکا وإلي هذه السنة محمود السيرة والسريرة. قال السبط : حکي بعض من حضر سماط المظفر في بعض الموالد کان يمد في ذلک السماط خمسة آلاف رأس مشوي. وعشرة آلاف دجاجة، ومائة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلوي.
’’شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں۔ اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی۔ وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے۔ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ اس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھا۔ سبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9 : 18
2. محبي، خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر، 3 : 233
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 42. 44
4. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
5. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53، 54
اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
وکان يحضر عنده في المولد أعيان العلماء والصوفية فيخلع عليهم ويطلق لهم ويعمل للصوفية سماعًا من الظهر إلي العصر، ويرقص بنفسه معهم، وکانت له دار ضيافة للوافدين من أي جهة علي أي صفة. وکانت صدقاته في جميع القرب والطاعات علي الحرمين وغيرهما، ويتفک من الفرنج في کل سنة خلقًا من الأساري، حتي قيل إن جملة من استفکه من أيديهم ستون ألف أسير، قالت زوجته ربيعة خاتون بنت أيوب. وکان قد زوجه إياها أخوها صلاح الدين، لما کان معه علي عکا. قالت : کان قميصه لا يساوي خمسة دراهم فعاتبته بذلک، فقال : لبسي ثوبًا بخمسة وأتصدق بالباقي خير من أن ألبس ثوبًا مثمنًا وأدع الفقير المسکين، وکان يصرف علي المولد في کل سنة ثلاثمائة ألف دينار، وعلي دار الضيافة في کل سنة مائة ألف دينار. وعلي الحرمين والمياه بدرب الحجاز ثلاثين ألف دينار سوي صدقات السر، رحمه اﷲ تعالي، وکانت وفاته بقلعة إربل، وأوصي أن يحمل إلي مکة فلم يتفق فدفن بمشهد علي.
’’میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں۔ اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اﷲ تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9 : 18
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 44
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 362، 363
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236
شاہِ اِربل تقریباتِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ امام ابن کثیر نے اتنی خطیر رقم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کی تحسین کی ہے اور ایک لفظ بھی تنقید اور اِعتراض کے طور پر نہیں لکھا۔ یاد رہے کہ ایک دینار دو پاؤنڈ کے برابر تھا اور اس طرح میلاد پر خرچ کی گئی رقم چھ لاکھ پاؤنڈ تک جا پہنچی تھی۔ دینار اور پاؤنڈ کا یہ موازنہ آج کے دور کا نہیں بلکہ آج سے آٹھ سو (800) سال قبل کا ہے۔ اگر آج کے زمانہ سے تقابل کیا جائے تو اُن دنوں ایک دینار کم و بیش ایک چوتھائی تولہ سونے کے برابر ہوتا تھا جو آج پاکستانی کرنسی میں قریباً چار ہزار روپے (4,000) روپے بنتا ہے اور اگر ایک دینار کی اُسی حساب سے قدر نکالی جائے تو یہ آج تقریبًا چالیس (40) پاؤنڈ بنتی ہے۔ اور اگر حساب کرتے ہوئے چالیس (40) کو تین لاکھ (300,000) سے ضرب دی جائے تو یہ رقم ایک اَرب بیس کروڑ (1,200,000,000) پاکستانی روپے کے لگ بھگ ہوگی۔ اور یہ محض ایک تخمینہ ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.