اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ
الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ ؕ
دفع زیغ زاغ
(کوے کی کجی کو دُور کرنا)
ملقب بلقب
تاریخی
رامی
زاغیان(۲۰ ۱۳ھ)
(کوّا والوں پر تیرا نداز ی کرنے والا)
الحمد ﷲ الذی احلّ لنا
الطیبات وحرّم علینا الخبیثات وجعل الفواسق لایمیل لاکلہا الاکل فاسق فان الجنس
للجنس شواق والشبہ الی الشبہ باشواق والصلوۃ والسلام علی من بین الحلال والحرام
واحل قتل الفواسق فی الحل والحرم للحلال ولحرام فلا یستطیبہا من بعد ماجاء ہ من
العلم الا من زاغ والی الخبث والفسق مثلہا راغ ، وعلٰی الہ وصحبہ وعلماء حزبہ
وعلینا معھم وبھم ولھم اجمعین الی یوم الدین اٰمین یا ارحم الراحمین ۔
تمام تعریفیں
اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جس نے ہمارے لیے پاکیزہ اشیاء حلال اور گندی اشیاء حرام
فرمائی ہیں اور خبیث اشیاء کی طرف خبیث ہی مائل ہوتا ہے، ہر کوئی اپنے ہم جنس اور
اپنی مثل کا طلبگار ہوتا ہے اور درود و سلام ہو اس پر جس نے حلال و حرام کو بیان
فرمایا اور خبیث جانوروں کا قتل حل و حرم میں محرم و غیر محرم کے لیے حلال کیا اس
کے بعد انہیں حلال نہ جانے گا مگر وہ جس نے کجروی اختیار کی اور اپنے جیسے خبیث و
فاسق کی طرف راغب ہوا، اور آپ کے آل واصحاب وعلمائے امت پر اور ان کے صدقے ان کے
ساتھ ہم سب پر تاقیامت، اے بہتر رحم فرمانے والے۔ آمین۔
فقیر غلام
محی الدین عرف محمد سلطان الدین حنفی قادری برکاتی سلہٹی عاملہ اﷲ بلطفہ الحفی
الوفی( اﷲ تعالٰی اس کے ساتھ اپنی بھرپور مخفی مہربانی کے ساتھ معاملہ فرمائے۔(ت)
خدمتِ
برادران دین میں عرض رسا، اس زمانہ فتن و محن میں کہ علم ضائع اور جہل ذائع ہے بعض
شوخ طبیعتیں پیرانہ سالی میں بھی نچلی نہیں بیٹھتیں، آئے دن ایک نہ ایک بات ایسی
نکالتی رہتی ہیں جن سے مسلمانوں میں اختلاف پڑے فتنہ پھیلے اپنا کام بنے نام چلے،
جناب کرامی القاب وسیع المناقب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے پہلے مسئلہ امکانِ
کذب نکالا کہ معاذ اﷲ اﷲ عزوجل کا سچا ہونا ضرور نہیں جھوٹا بھی ہوسکتا ہے، پھر
ابلیس لعین کے علم کو رسول اﷲ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زیادہ بتایا۔
ان کے یہ دونوں مسئلے براہین قاطعہ کے صفحہ ۳ و صفحہ ۴۷ پر ہیں پھر بحکم آنکہ ۔ ع
قدم عشق
پیشتر بہتر
(عشق کا قدم
آگے بہتر ہے)
ایک مُہری
فتوے میں تصریح کردی کہ اﷲ تعالٰی کو بالفعل جھوٹا ماننا فسق بھی نہیں اگلے امام
بھی خدا کو ایسا مانتے ہیں جو خدا کو بالفعل جھوٹا کہے اسے گمراہ فاسق کچھ نہ کہنا
چاہیے ہاں ایک غلطی ہے جس میں وہ تنہا نہیں بلکہ بہت اماموں کا پیرو ہے ۔ حضرت کا
یہ ایمان ان کے مہری فتوے میں ہے جو برسوں سے بمبئی میں وغیرہ میں مع رد بارہا چھپ
گیا اور علماء نے صریح حکم کفر دیا اور جناب کرامی القاب سے جواب نہ ہوا ، یونہی
دو مسئلہ اولین کے ردَ میں علماء کے متعدد رسائل سالہا سال سے چھپ چکے اور لاجواب
رہے۔ا دھر سے کان ٹھنڈے ہوئے تھے کہ حضرت کی اختراعی طبیعت نے کوّا پسند کیا اس کی
حلت کا غوغا بلند کیا پھر بھی غنیمت ہے کہ کفرو ایمان سے اتر کر حلال و حرام میں
آئے مسلمانوں کے قلوب میں اس پر بھی عام شورش و نفرت پیدا ہوئی، اگر حق
سبحانہ و تعالٰی توفیق عطا فرماتا تو بصیر
اسی سے اندازہ کرلیتا کہ کوّے کو اسلامی طبیعتیں کیسا سمجھتی ہیں، عام قلوب میں اس
کی حلت سُن کر ایسی شورش پیدا ہوئی آخر بیچیز ے نیست ، قمری یا کبوتر کو حلال
بتانے پر بھی کبھی اختلاف پیدا ہوا، علماء و عامہ نے اسے نیا مسئلہ سمجھ کر تعجب
کی نگاہ سے دیکھا؟ ہندوستان پر انہیں چند سال میں قحط کے کتنے حملے ہوئے؟ یہ سیاہ
پوش صاحب ہر گلی کوچے میں کثرت سے ملتے ہیں عام مسلمین جن کی طبائع میں من جانب اﷲ
اس فاسق پر ند کی خباثت و حرمت مذکور ہے ، ان کا خیال تو ادھر کیوں جاتا مگر اس
وقت تک جناب کو بھی اس مسئلہ کا الہام نہ ہوا، ورنہ اور نہیں تو آپ کے معتقدین قحط
زدوں کو تو مفت کا حلال طیب گوشت ہاتھ آتا اور چار طرف کاؤں کاؤں کا شور بھی کچھ
کم پاتا، اب حالِ وسعت و فراخی میں آپ کو سوجھی کہ کوّا حلال ، نہ صرف حلال بلکہ
حلال طیب ہے، متعدد بلاد میں اہلِ علم نے اس کے رد لکھے، یہاں تک کہ بعض معتقدین
جناب گنگوہی صاحب نے بھی ان کے خلاف تحریریں کیں، آنحضرت عظیم البرکۃ مجدد دین و
ملت حضرت عالمِ اہلسنت مدظلہ العالی کے حضور میر ٹھ سہارنپور گلاوٹی کانپور وغیرہا
دس بلاد نزدیک و دور سے اس کے بارے میں سوالات آئے اکثر جگہ مختصر جوابات عطا ہوئے
کہ یہ کوّا فاسق ہے خبیث ہے، حرام بحکم قرآن و حدیث ہے، اور بایں لحاظ کہ متعدد
بلاد میں اہل علم کااس طرف متوجہ ہونا حلت کے رد لکھنا صحیح خبروں سے معلوم تھا
اور یہاں کثرت کا ربیرون از شمار تصنیف کتبِ دین و رَدّ طوائف مبتدعین کے علاوہ
بنگال سے مدراس اور برہما سے کشمیر تک کے فتاوٰی کا روزانہ کام ایک ایک وقت میں دو
دو سو استفتاء کا اجتماع وازدحام، لہذا باین لحاظ کہ لوگ اس مجہلہ تازہ کا رد
کررہے ہیں خود زیادہ توجہ فرمانے کے حاجت نہ جانی، اسی اثناء میں متعدد تحریرات
مطبوعہ طرفین نظر سے گزریں، ان کے ملاحظہ سے واضح ہو اکہ یہ مسئلہ بھی اعلٰیحضرت
دام ظلہم کے التفات خاص کی حد تک پہنچ گیاہے۔ بعض تحریراتِ معتقدین جناب گنگوہی
صاحب میں یہ بھی تھا کہ یہ مسئلہ انکے علماء سے طے کرلیا جاتا یہ امر پسندیدہ خاطر
عاطر آیا اور ایک مفاوضہ عالیہ چالیس سوالاتِ شرعیہ پر مشتمل جناب گنگوہی صاحب کے
نام امضافرمایا، یہ سوالات حقیقۃً حرمتِ غراب کے دلائل بازغ اور اوہامِ طائفہ جدیدہ
غرابیہ کے رَدِّ بالغ تھے جو ذی علم بدستیاری انصاف و فہم انہیں مطالعہ کرے اس پر
حقیقتِ حال اور حلتِ زاغ کے جملہ اوہام کا زیغ وضلال روشن ہوجائے ، جناب مولوی
گنگوہی صاحب بھی سمجھ لیے کہ واقعی سوالات لاجواب اور خیالات زاغیہ سب نعیق غراب
بلکہ نقش بر آب ہیں مفاوضہ عالیہ بصیغہ رجسٹری رسید طلب مرسل ہوا تھا ضابطے کی
رسید تو دیتے ہی براہ عنایت اس کے ساتھ ایک کارڈ بھی بھیجا کہ آپ کا طویل مسئلہ
پہنچا میں نے نہ سنا نہ سننے کا قصد ہے،انا ﷲ وانا
الیہ راجعون،( بے شک ہم اﷲ تعالٰی کے مال ہیں اور ہم کو اس کی
طرف پھرنا ہے۔ ت) ہزار افسوس نام علم و حالت علماء پر بے سمجھے بوجھے ایک نیا
مسئلہ نکالنا مسلمانوں میں اختلاف ڈالنا اور جب علماء مطالبہ دلیل و افادہ حق
فرمائیں یوں چپ سادھ لینا ارشادِ قرآن واذ ا خذ اﷲ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ
للناس ۱ ؎۔( اور یاد کرو جب اللہ
تعالٰی نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان
کردینا۔ ت)
(۱القرآن
الکریم ۳ /۱۸۷)
کو بھلا دینا
ایسے ہی شیوخ الطائفہ کو زیبا ہے جنہیں خود ان کا معتقد فرقہ اپنا پیر مغاں لکھتا
ہے۔ افسوس معتقدین کی بھی نہ چلی کہ ہمارے علماء سے طے کرلو۔ طے کس سے کیجئے وہاں
تو آواز ندارد۔ سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ فلاں فلاں پرچے جو حلتِ زاغ میں
چھپے آپ کی رائے و رضا سے ہیں یا نہیں ان کے مضامین آپ کے نزدیک مقبول ہیں یا
مردود۔ جناب گنگوہی صاحب نے خیال فرمایا کہ مقبول کہتا ہوں تو سب بار مجھی پر آتا
ہے مردود بتاؤں تو اپنا ہی ساختہ پر داختہ باطل ہوا جاتا ہے لہذا صاف کانوں پر
ہاتھ دھر گئے کہ میں نے اس وقت تک اس مسئلہ میں کوئی تحریر موافق نہ مخالف اصلاً
نہ سُنی ، نہ سننے کا قصد ہے۔ مجھے تو آج تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس بارے میں
کسی طرف سے کوئی تحریر چھپی ہے چلیے فراغت شد۔
نہ ہم سمجھے
نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی
جبیں سے
حضرت جناب
گنگوہی صاحب اور اُن سے قربت رکھنے والے خوب جانتے ہوں گے کہ یہ کیسا صریح سچ
ارشاد ہوا ہے مگر وہاں اس کی کیا پروا ہے جو اپنے معبود کو جھوٹا بالفعل کہنا سہل
جانیں، بندوں پر جھوٹ بولنا آپ ہی واجب بالدوام مانیں۔ عالم اہل سنت دام ظلہ
العالی نے فوراً اس کا رڈ کا رَد رجسٹر رسید طلب کے ساتھ روانہ فرمایا فراست
المومن سے گمان تھا کہ گنگوہی صاحب پہلا مفاوضہ انجانی میں لے چکے ہیں اور قوت
سوالات دیکھ کر تحقیقِ مسئلہ شرعیہ سے بچتے ہیں عجب نہیں کہ اس بار رجسٹری واپس
فرمائیں لہذا واضح قلم سے لفافے پر یہ الفاظ تحریر فرمادیئے تھے : دینی مسئلہ ہے
صرف تحقیق حق مقصود ہے کوئی مخاصمہ نہیں اگر رجسٹری واپس کردی تو حق پرستی کے خلاف
ہوگا اور عجز پر دلیل صاف ، مگر بندگانِ خدا صادق کی فراست ایمانی بحمداﷲ تعالٰی
صادق ہی ہوتی ہے وہی گل کھلا کر جناب مولوی گنگوہی صاحب نے انکاری ہو کر مفاوضہ
واپس کردیا۔ اہالی ڈاک نے لکھ دیا کہ حضرت کو انکار ہے لہذا واپس انّاﷲ وانّا الیہ راجعون ( بے شک ہم اللہ کے مال ہیں اور اسی کی طرف ہم
کو پھرنا ہے۔ت)
فقیر محض
بنظر تحقیق حق ورفعِ اختلاف مسلمین وہ مفاوضات اور کارڈ بعینہ شائع کرتا اور اب
چھاپ کر جناب مولوی گنگوہی صاحب سے سوالات شرعیہ کا جواب مانگتا ہے، جناب گنگوہی
صاحب نام مناظرہ سے خائف ہولیے تھے۔ کہ سبحٰن السبوح میں حضرت عالم اہلسنت مدظلہ
العالی کا حملہ شیرا نہ دیکھ چکے تھے یہ فقیر محض بطور استفادہ مسئلہ شرعیہ آپ سے
جواب سوالات پوچھتا ہے جب آپ کے نزدیک کوّا حلال ہے اور لوگ اس حلال خدا کو حرام
سمجھے ہوئے ہیں اور خاص آپ سے اس دینی مسئلہ کی تحقیق چاہتے ہیں تو جواب نہ دینا
کیا معنی رکھتا ہے ۔ پہلے بھی مفاوضہ عالیہ نے آپ کو سنادیا تھا اور اب فقیر بھی
گزارش کیے دیتا ہے کہ خاص آپ کا جواب درکار ہے اسی سے رفعِ نزاع ممکن ہے زید و عمر
و سے غرض نہیں ایں و آں پر التفات نہ ہوگا آپ سے مسائل شرعیہ کا سوال ہے آپ پر
جواب واجب ہے آخر ماہ رمضان المبارک تک چالیس دن کی مہلت نذر ہے اگر عید ہوگئی اور
جناب نے ہر سوال کا مفصل جواب اپنا مہری نہ بھیجا تو واضح ہوگا کہ آپ کو حلال و
حرام کی پروا نہیں آپ مسائل شرعیہ پوچھنے والوں کے جواب سے عاجز ہیں آپ بے سمجھے
مسائل منہ سے نکالتے اور مسلمانوں میں اختلاف ڈالتے اور جواب کے وقت خموشی پالتے
ہیں، اور اگر آپ نے جواب تفصیلی بھیجے اور اسی قدر یا استفادہ مکرر سے فقیر کو
اطمینان ہوگیا تو میں وہ نہیں کہ جو چاہوں مان لوں اور عجز کے وقت سکوت کی امان
لوں میں وعدہ دیتا ہوں کہ حلالِ خدا کو کبھی حرام نہ کہوں گا آپ کی طرف سے ایک
تحقیق حاصل ہونے کا ممنون ہوگا آئندہ اختیار بدست مختار، حسبنا اﷲ ونعم الوکیل
وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا و مولانا محمد والہ بالتبجیل ۔
نقل مفاوضہ
اول حضرت اہلسنت مدظلہ بنام جناب مولوی گنگوہی صاحب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ
الکریم
بنظر خاص
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ،السلام علی من اتبع
الہدٰی(سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ت) حلتِ غراب
کے دو پرچے خیر المطابع میرٹھ کے چھپے کہ کسی صاحب ابوالمنصور مظفر میرٹھی کے نام
سے شائع ہوئے ایک کا عنوان تردید ضمیمہ اخبار عالم مطبوعہ ۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء دوسرے کی
پیشانی تردید ضمیمہ شحنہ ہند میرٹھ مطبوعہ ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء بعض احباب نے بھیجے اس
کا یہ فقرہ واقعی لائق پسند ہے کہ شرعی مسئلہ کا صرف علماء میں طے ہونا۔ لہذا بغرض
رفع شکوک عوام و تمیز حلال و حرام خاص آپ سے بعض امور مسئول اور ایک ہفتے میں جواب
مامول، چار روز آمدورفت ڈاک کے ہوئے اگر تین دن کامل میں بھی آپ نے جواب لکھا تو
چار دہم شعبان روز چار شنبہ تک آجانا چاہیے کہ آج شنبہ ہفتم شعبان ہے، اور اگر اس
مہلت میں نہ ہوسکے تو اس کا مضائقہ نہیں ع۔
نکو گوئی اگر
دیر کوئی چہ غم
( بات اچھی
کہے اگر دیر سے کہے تو کیا غم ہے ت)
مگر اس تقدیر
پر بوالپسی ڈاک وعدہ جواب و تعیینِ مدت سے اطلاع ضرور ہے ورنہ سکوت متصور ہوگا۔
جواب میں اختیار ہے کہ اپنے جن جن معاونین سے چاہیے استعانت کیجئے بلکہ بہتر ہوگا
کہ سب کو جمع کرکے شورے مشورے سے جواب دیجئے کہ دس کی سوجھ بوجھ ایک سے کچھ اچھی
ہی ہوگی۔ مگر بہرحال مجیب خود آپ ہی ہوں ۔ زید و عمرو کے نام سے جواب جواب کو جواب
ہوگا نہ جواب کہ مقصود تو ان امور میں آپ کی رائے
معلوم ہونا ہے زید و عمرو کی خوش نوائیاں تو اخباروں اشتہاروں میں ہو ہی
چکیں ، تحریر پر مہر بھی ضرور ہو کہ جحود جاحد کا احتمال دور ہو، مسئلہ مسئلہ
دینیہ ہے اور مسئلہ دینیہ میں بے غور کامل و فحص بالغ آنکھیں بند کرکے منہ کھول
دینا سخت بددیانتی، تو ضرور ہے کہ آ پ اس مسئلہ کے تمام اطراف و جوانب پر نظر ڈال
چکے اور جمیع مالہ و ما علیہ پر تال چکے ہوں گے تحقیق تنقیح تطبیق ترجیح سب ہی کچھ
کرلی ہوگی تو ان سوالوں کے جواب میں آپ کو دقت یا معذوری چشم کا عذر نہ ہوگا
خصوصاً اس حالت میں کہ عالمگیری جیسی بیس۲۰ کتابیں آپ کے سینے شریف میں بند ہیں
جیسا کہ مشتہر صاحب نے ادعا کیا ہر سوال
کا صاف صاف جواب ہو، اگر کسی امر میں خفا رہا یا جواب سوال سے پورا متعلق نہ ہوا
یا کسی جواب پر کوئی سوال تازہ پیدا ہوا تو دوبارہ سوال کرلیا جائے گا کہ مقصود
وضوح حق ہے نہ خالی ہار جیت کی زق زق۔واﷲ الھادی الٰی صراط
الحق( اور اﷲ تعالٰی ہی راہِ حق کی ہدایت دینے والا
ہے۔ت)
سوال اوّل :
پہلے یہی معلوم ہو کہ دونوں پرچہ مذکورہ اور وہ کاغذات جن کے طبع کا پرچہ اخیرہ
میں وعدہ دیا آپ کی رائے و اطلاع و رضا سے ہیں یا بالائی لوگوں نے بطورِ خود شائع
کیے ان کے سب مضامین آپ کو قبول ہیں یا کل مردود یا بعض، علی الثالث مردود کی
تعیین، بحال سکوت وہ پرچے آپ ہی کے قرار پائیں گے، خبر شرط ست خبر شرط ست خبر شرط
ست من آنذر فقد اعذر ( خبر شرط ہے، خبر شرط ہے، خبر شرط ہے، جس نے ڈرایا اس نے عذر
پیش کردیا۔ت) اور اگر صرف اتنا جواب دیا کہ ان کا نفس حکم منظور تو اس کے معنی یہ
ہوں گے کہ ان کے دلائل وابحاث آپ کے نزدیک مردود و مطرود ہیں، ورنہ قبول میں تخصیص
حکم نہ ہوتی۔ اور نسبت دلائل و ابحاث اجمالی بات کہ مثلاً بعض یا اکثر صحیح ہیں
کافی نہ ہوگی۔ وہ لفظ یاد رہے کہ علی الثالث مردود کی تعیین۔
سوال دوم :
شامی و طحطاوی و حلبی وغیرہا میں کہ عقعق وابقع وعذاف واعصم وزاغ کی طرف غراب کی
تقسیم ہے صحیح و حاصر ہے یا غلط وقاصر ، علی الثانی اس میں کیا کیا اغلاط کتنا
قصور ہے اور ان پر کیا دلیل۔
سوال سوم :
غراب جب مطلق بولا جائے ان متعارف متنازع فیہ کووّں کو شامل ہے یا نہیں کیا غراب
کا ترجمہ کوّا نہیں۔
سوال چہارم :
اقسام خسمہ میں ہر ایک کی جامع مانع تعریف کیا ہے خصوصاً ابقع وعقعق کی رسم صحیح
کہ طردا وعکساً ہر طرح سالم ہو مع بیان ماخذ۔
سوال پنجم :
اگر تعریفات میں کچھ اختلاف واقع ہوئے ہیں تو ان میں کوئی ترجیح یا تطبیق ہے یا
اختیار ہے کہ جزافاً جو چاہیے سمجھ لیجئے علی الاول آپ نے کیا کیا اختلاف پائے اور
ان میں کس ذریعے سے ترجیح یا تطبیق دے کر کیا قولِ منقح نکالا۔
سوال ششم :
متنازع فیہ کوّا اقسام خسمہ سے کس قسم میں ہے، جو قسم معین کی جائے اس کی تعیین
اور مابقی سے امتیاز مبین کی دلیل کافی بملاحظہ جملہ جوانب مبین کی جائے۔
سوال ہفتم :
یہ کوے جس طرح اب دائرو سائر ہیں کہ ہر جگہ ہر شہر و قریہ میں بکثرت وافرہ ہمیشہ
ملتے ہیں اور ان کا غیر شہروں میں نادر، کیا اس پر کوئی دلیل ہے کہ ان کی یہ شہرت
و کثرت اور امصار میں ان کے غیر کی ندرت اب حادث ہوگی فقہائے کرام اصحاب متون
وشروح و فتاوٰی کے زمانے میں نہ تھی وہ حضرات ان کووں سے واقف تھے یا نادر الوجود
ہونے کے باعث ان کا حکم بیان فرمانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے جوان کے زمانے میں کثیر
الوجود تھے ان کے حکم بیان کیے آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ جو شق چاہیے اختیار
کرلیجئے مگر ان کے سوا کوئی راہ چلئے تو ان دونوں کے بطلان اور اس کی صحت پر اقامت
برہان ضرور ہوگی۔
سوال ہشتم :
متون وشروح وفتاوٰی میں اختلاف ہو تو ترجیح کسے ہے، اصل مذہب صاحبِ مذہب رضی اللہ
تعالٰی عنہ وہ ہے جو متون لکھیں یا وہ کہ بعض فتاوے یا شروح حاکی ہوں۔ علماء نے
ہدایہ کو بھی متون میں شمار فرمایا ہے یا نہیں، یاد کرکے کہیے۔
سوال نہم :
غداف جب اقسام غراب میں مذکور ہو اس سے نسر یعنی گدھ مراد ہے یا کیا۔
سوال دہم :
کیا کوئی کوا شکاری بھی ہے کہ زندہ پرندوں کو پنجے سے شکار کرکے کھاتا ہے، اگر ہے
تو اس کا کیا نام ہے اور وہ ان اقسام خمسہ سے کس قسم میں ہے یا ان سے خارج کوئی
نئی چیز ہے علی الاول وہ قسم مطلقاً شکاری ہے، یا بعض افراد علی الثانی شکاری
وغیرہ شکاری ایک نوع کیوں ہوئے۔
سوال یازدہم:
جیفہ و شکار جدا جدا چیزیں ہیں یا ہر شکار کرکے کھانے والا جیفہ خوار ہے۔
سوال دوازدہم
: پہاڑی کوّا کہ اس کوے سے بڑا اور یکرنگ سیاہ ہوتا اور گرمیوں میں آتا ہے کیا ان
کوؤں کی طرف آپ کے نزدیک وہ بھی حلال ہے یا حرام علی الاول کس کتاب میں حلال لکھا
ہے۔ علی الثانی اس کی حرمت کی وجہ کیا ہے۔
سوال سیزدہم
: بعض کتب طبیہ میں جو عقعق کو مہوکا لکھا اور وہ ایک اور جانور کوے کے مشابہ ہے ،
نجاست وغیرہ کھاتا ہے اور شہر میں کم آتا ہے اور ہدایہ و تبیین و فتح اﷲ المعین
میں جس قدر باتیں عقعق کی نسبت تحریر فرمائی ہیں سب اس میں موجود ہیں آپ کے پاس ا
س کی تکذیب پر کیا دلیل ہے۔
سوال چہار
دہم حدیث :خمس
من الفواسق یقتلن فی الحل والحرم ۔ ۱
؎ پانچ جانور خبیث ہیں انہیں
حل و حرم میں قتل کیا جائے گا۔ت) سے تحریم فواسق پر استدلال مذہب حنفی کے مطابق و
مقبول ہے یا باطل و مخذول ۔
( ۱ ؎ صحیح
مسلم کتاب الحج باب یندب للمحرم وغیرہ الخ
، قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۸۱)
(سنن ابن ماجہ کتاب
المناسک باب مایقتل المحرم الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۳۰)
(کنز العمال حدیث ۱۱۹۴۴ موسسۃ الرسالہ بیروت ۵/ ۳۷)
سوال پانزدہم
: قولِ صحابہ اصولِ حنفی میں حجتِ شرعی ہے یا نہیں، خصوصاً جب کہ اس کا خلاف دیگر
صحابہ سے مسموع نہ ہو رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔
سوال شانزدہم
: آپ حمار یعنی خرکو حلال جانتے ہیں یا حرام، اگر حرام ہے تو علت حرمت کیا ہے، حالانکہ وہ صرف دانہ گھاس وغیرہ
پاک ہی چیزیں کھاتا ہے یا لااقل خلط تو کرتاہے۔
سوال ہفدہم :
کیا جلالہ کہ کثرتِ اکل نجاسات سے بُولے آئی ہو حرام و ممنوع ہے یا نہیں جب کہ
کبھی گھاس بھی کھالیتی ہو، اگر نہیں تو
یوں، حالانکہ نجاست اس کے رگ و پے میں ایسی ساری ہوگئی کہ باہر سے بو دینے
لگی تنہا اکل نجاسات بھی اور اس سے زیادہ کیا وصف موثر فی التحریم پیدا کرے گا۔
اور اگر ہے تو کیوں حالانکہ خلط تو پایا گیا۔
سوال ہیجدہم
: ترک استفصال عندالسؤال دلیل عموم ہے یا نہیں، ذرا فتح القدیر دیکھی ہوتی ۔
سوال نوزدہم
: جس شے میں علتِ حلت و حرمت جمع ہوں حلال ہوگی یا حرام یا مشتبہ،
علی الثالث
اس پر اقدام کیسا ، اور وہ طیبات میں معدود ہوگی یا نہیں۔
سوال بستم :
نہ جاننے والا ا یک حکم شرعی عالم سے استفسار کرے شرعاً اس مسئلہ میں تفصیل ہو کہ
بعض صور جائز بعض ناجائز ، تو ایک حکم مطلق بیان کردینا اضلال ہے یا نہیں۔
سوال بست
ویکم: حل اگر معلول قرار پائے تو علت حلت عدم جمیع علل حرمت ہے یا صرف کسی وصف
وجودی کا ثبوت، کیا شرع میں اس کی کوئی نظیر ہے کہ امروجودی کے محض تحقق کو مناط
حل قرار دے دیا ہو جب تک اس کا وجود ارتفاع جمیع و جود خطر کو مستلزم نہ ہو۔
سوال بست و
دوم : کوے کہ بالاتفاق حرام ہیں، فقہائے کرام نے ان کی تحریم کی تعلیل صرف اکل محض
نجاست سے کی ہے یا اور بھی کوئی علت ارشاد ہوئی ہے۔
سوال بست
وسوم : کیا اکل میں خلط نجس و طاہر ارتفاع جملہ وجود تحریم کو مستلزم ہے کہ جہاں
خلط پایا جائے وہاں کوئی وجہ تحریم نہیں وہسکتی کہ باوصف وجود ملزوم انتفائے لازم
قطعاً معلوم۔
سوال بست و
چہارم : غذا پر نظر کرنا اور یہ اصل کلی باندھنا کہ جو جانور صرف نجاست کھائے حرام
اور جو نرا طاہر یا دونوں کھائے حلال ہے خاص اس صورت میں جب دیگر وجوہ حرمت سے کچھ
نہ ہو یا یونہی عموم و اطلاق پر ہے کہ صرف غذا دیکھیں گے باقی سبعیت یا فسق یا خبث
وغیرہا کسی بات پر نظر نہ ہوگی۔ شق ثانی ماننے والا عاقل مصیب ہے یا یا جاہل
دیوانگی نصیب۔
سوال بست
وپنجم : قاعدہ مذکورہ امام کے کسی کلام سے استنباط کیا گیا ہے یا خود امام نے اس
کلیے پر نص فرمایا ہے علی الثانی ثبوت علی الاول وہ کلام امام کیسی چیز سے متعلق
تھا اور قاعدہ مستنبط اسی کے نظائر سے متعلق ہوسکے گا یا اپنے ماخذ سے بھی عام
ہوجائے گا۔ علی الثانی صحت استنباط کیونکر۔
سوال بست
وششم: وصف ابقع یعنی دورنگا ہونا خود موثر فی التحریم ہے یا سلباً و ایجاباً مدار
حرمت یا علامت ملزومہ یا لازمہ تحریم یا ان سب سے خارج ہے، جو کہیے سمجھ کر کہیے۔
سوال بست و
ہفتم : پانی کو مطہر کہنا ٹھیک ہے یا نہیں کیا اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ پانی
تو مائے مضاف بھی ہے اس سے وضو کب جائز ہے اگر نہیں ہوسکتا تو کیوں، حالانکہ مضاف
بھی مائے مطلق نہ سہی مطلق ماء میں تو ضرور داخل ہے اور اس کلام میں پانی مطلق ہی
تھا ۔ یعنی لابشرط شیئ نہ مقید باطلاق یعنی بشرط لا۔
سوال بست و
ہشتم : اگر شارح یا محشی کسی کلام کو ایسے محل سے متعلق کردے جو اصول مسلمہ شرعیہ
کے خلاف ہو تواس کی یہ توجیہ خطائے بشری ٹھہرے گی یا اس کے سبب اصلِ شرعی ہی رد کردی
جائے گی۔
سوال بست
ونہم : کیا حنفیہ کلام شارع میں مفہوم صفت معتبر رکھتے ہیں۔
سوال سیم:
مذہبِ حنفی میں کوے کی کوئی نوع فی نفسہ بھی حرام ہے جسے حرمت لازم ہویا حقیقیۃً
سب انواع حلال ہیں حرام کی حرمت صرف بعارض و زوال پذیر ہے علی الثانی ہمارے ائمہ
سے ثبوت علی الاول علتِ حرمت کا بیان۔
سوال سی
ویکم: غیر حوا کی میں نوعیتِ صوت حیوانات کا خاصا شاملہ ہے یا نہیں حتی کہ منطقیوں
نے جب ادراک ذاتیات کا راستہ نہ پایا اسے فصول قریبہ سے کنایہ بنایا اور حیوان
ناطق حیوان صاہل حیوان ناہق کو انسان و فرس و حمار کی حد ٹھہرایا، ان شہروں میں
گھوڑا ہنہناتا کتا بھونکتا ہے کیا کہیں اس کا عکس بھی ہے کہ کتا ہنہناتا گھوڑا
بھونکتا ہے۔
سوال سی و
دوم : کیا وجہ تسمیہ میں تعدد محال ہے یا ایک وجہ دوسرے کے معارض سمجھی جائے، کیا
اس میں اطرّادِ شرط ہے ریش کو جرجیر اور پیٹ کو قارورہ کہیں گے۔
سوال سی وسوم
: کوئی کوّا آپ نے دیکھا یا کسی معتمد سے دیکھنا سنا ہے کہ سوائے نجاست کے کبھی
دانے وغیرہ کسی پاک چیز کو اصلاً نہ چھوئے، یہاں دو قسم کے کوے دیکھے جاتے ہیں، یہ
اور کگار، کیا کگار دانہ کھاتے نہیں دیکھا جاتا۔
سوال سی و
چہارم : عق عق عق عق اور غاق غاق یا ہندی کہئے کچ کچ کچ کچ اور کاؤں کاؤں، کیا یہ
دونوں حکایتیں متباین آوازوں کی نہیں، کیا کوئی سمجھ وال بچہ بھی کاؤں کاؤں کرنے
والے کو کہے گا کہ عق عق عق عق کہہ رہا ہے۔
سوال سی
وپنجم : کیا لون حیوانات اختلاف بلاد سے مختلف نہیں ہوتا اگرچہ بنظر حالت معہودہ
اسی سے شناحت حیوان کرائیں مثلاً تو تے کی رسم میں سبز رنگ، حالانکہ سپید بھی ہوتا
ہے، تو کیا صرف موضع لون میں اختلاف نوعِ حیوان کو بدل دے گا حالانکہ نوعیتِ لون
بھی نہ بدلی، خصوصاً جہاں خود کلمات راسمین تعیینِ موضع میں ایک وجہ پر نہ آئے
ہوں، بہت نے مطلق کہا بعض نے ایک طرح تخصیص محل کی بعض نے دوسری طرح، تو کیا صرف
ان بعض مخصصین میں بعض کا قول دیکھ کر خصوص موضع میں ایک فرق قریب پر تبدّلِ ذات
حیوان کا زعم جنون ہے یا نہیں۔
سوال سی
وششم: کراہت و ممانعت کہ بوجہ اکل نجاست ہولذاتہ ہوتی ہے یا اسی وصف کے سبب، یہاں
تک کہ اگر وصف زائل ہو کراہت زائل ہو، ہمارے ائمہ نے دجاجہ مخلاۃ وبقرہ جلالہ میں
بعد حبس اور امام ابو یوسف کی روایت میں عقعق کی نسبت کیا فرمایا ہے۔
سوال سی
وہفتم : جامع الرموز کتب ضیغہ نامعتمدہ سے ہے یا نہیں، وہ اگر کسی بات میں ہدایہ
وکافی وتبیین وایضاح و لباب وجوہرہ و غیرہا متون و شروح معتمدہ و معتبرہ کے معارض
مانی جائے تو انکے مقابل کچھ بھی التفات کے قابل ٹھہر سکتی ہے بلکہ ان سب عمائد کی
تصریحات جلیلہ سے اگر کوئی معتبر کتاب بھی مخالفت کرے جس کا مصنف نہ مجتہد فی
الفتوٰی مانا گیا نہ ان میں اکابر کا ہم پایہ ، تو ترجیح کس طرف ہے، راجح کو چھوڑ
کر مرجوح پر فتوٰی دینے کو علما نے جہل و خرقِ اجماع بتایا یا نہیں۔
سوال سی
وہشتم : جانوروں میں فسق کے کیا معنے ہیں، بازو شکرہ و گربہ و کلب معلم بھی فاسق
ہیں یا نہیں، علی الاول ثبوت علی الثانی ان میں اور زاغ میں کیا فرق ہے جس کے سبب شرع
مطہر نے کوے کو فاسق بتایا نہ ان کو۔
سوال سی ونہم
: ظہر کا ترجمہ کمر کہاں کی زبان ہے، کیا اگر کوے کی کمر پر سپیدی نہ ہو تو نہ وہ
فاسق ہے نہ خبیث بلکہ مطلقاً حلال طیب ہے یہ کس کا مذہب ہے، کمر کی سپیدی کو حلت
حرمت میں کیا اور کتنا اور کیوں دخل ہے۔
سوال چہلم :
ایذا کہ حیوانات میں فسق ہے اس سے مطلقاً ایذا مراد ہے انسان کو ہو یا حیوان کو
ابتداً ہو یا مقاومۃًطبعاً عادۃً ہو یا نادراً وکیفما کان شکاری جانور ہونا بھی اس
ایذا میں شرعاً داخل ہے یا نہیں، علی الاول ثبوت درکار کہ علماء نے ایذائے مناط فی
الفسق میں اسے مطلقاً داخل کیا یا باز وغیرہ شکاری پرندوں کو خود اسی بنا پر کہ وہ
شکاری ہیں فاسق بتایا ہو، شرع کی کس دلیل کس امام معتمد کی تصریح سے ثابت ہے کہ
طیور و بہائم میں مناطِ فسق و مناطِ سبعیت واحد ہے، کیا فسق و سبعیت میں یہاں کچھ
فرق نہیں، نیز غیر طیور و بہائم میں مناط کس قسم کی ایذا ہے اور وہ یہاں صلوح
مناطیت سے کیوں معزول ہوئی۔
تنبیہ :
بہت سوالوں
میں کئی کئی سوال، بہت میں متعدد شقوق ہیں نمبر وار، ہر سوال کی پوری باتوں کا
جواب درکار۔واٰخردعوٰنا
اَنِ الحمد ﷲ رب العٰلمین وصلی اﷲ علٰی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ اجمعیناور ہماری دعا کا اختتام اس پر ہے کہ تمام تعریفیں اﷲ
تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے، اور اﷲ تعالٰی درود نازل فرمائے
ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفیٰ پر اور آپ کی تمام آل پر (ت)
فقیر احمد
رضا قادری عفی عنہ ۷ شعبان معظم ۱۳۲۰
ہجریہ علٰی صاحبہاافضل الصلوۃ والتحیۃ۔
نقل کارڈ
مولوی گنگوہی صاحب بجواب مفاوضہ عالیہ
از بندہ
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
بعد سلام
مسنون آنکہ آپ کی تحریرطویل دربارہ مسئلہ زاغ بندہ کے پاس پہنچی بندہ نے اس وقت تک
کوئی (عہ۱) اس مسئلہ میں نہ کوئی موافق تحریر سنی ہے نہ
مخالف ۔اور نہ آئندہ ارادہ سننے کا ہے اور نہ مسئلہ حلۃ غراب موجودہ دیار(عہ۱) میں
مجھے کسی قسم کا شبہ یا خلجان ہے جس کے رفع کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہو ایامِ
طلب علمی سے یہ مسئلہ بندہ کو معلوم ہے اسی وقت بغرضِ اطمینان اپنے اساتذہ کرام سے
بھی پوچھ لیا تھا ورنہ کتبِ متداولہ درسیہ سے اس کی حلت خود ظاہر ہے اور متدبر کو
ذرا غور سے واضح ہوجاتا ہے۔ بحث مباحثہ مناظر ہ مجادلہ کا نہ مجھے شوق ہوا نہ اس
قدر فرصت ملی البتہ نفس مسئلہ حلت وحرمت مجھ سے بارہا سینکڑوں ہزاروں مرتبہ مجھسے
( عہ۲ ) کسی نے پوچھا اور میں نے بتلادیا اب نہ معلوم پچاس ۵۰ سال کے بعد یہ غل
شور کیوں ہوا میں نے آپ کا مسئلہ بھی نہ سنا ہے اور نہ سننے کا قصد ہے مگر چونکہ
آپ (عہ۳) نے ٹکٹ نہیں بھیجا اس لیے اسکو واپس نہیں کیا صرف یہ کارڈ آپ کے رفعِ
انتظار کے لیے بھیجا ہے ورنہ اس کی بھی حاجۃ نہ تھی مجھے (عہ۴ ) اس وقت سے پہلے یہ
بھی خبر نہ ہوئی تھی کہ اس مسئلہ میں کوی تحریر کسی طرف سے چھپی ہے البتہ مجھے
سینکڑوں آدمیوں نے پوچھا ہے میں نے اسی قدر جس قدر ہدایہ ( عہ۵ ) وغیرہ میں درج ہے
لکھ دیا ہے۔ والسلام۔
عہ۱: املائے شریف میں کوی کا لفظ یونہی مکرر ہے اور ہونا ہی
چاہیے تھا کہ محبوب تازہ یعنی کوے کے ہمشکل ہے اس کی لذت نے اسے قند کردیا ۔ حبک
الشیئ یعمی ویصم ۔ ۱ ؎ کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھا بہرا کردیتی ہے۔۱۲
( ۱ ؎ سنن
ابی داؤد کتاب الادب باب فی الہوٰی آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۴۳)
(مسند احمد ابن حنبل بقیہ حدیث ابی الدرداء المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۱۹۴)
( مسند احمد ابن
حنبل بقیہ حدیث ابی الدرداء المکتب الاسلامی بیروت ۶/ ۴۵۰)
عہ۱:
غراب کی تانیث عجب محاورہ ہے شاید یہی خیال باعثِ الفت ہوا ہو کالا سر تو
کبھی دیکھا ہی تھا اگرچہ ؎
ترا برف
بارید برپرزاغ نشاید
چوبلبل تماشائے باغ
(کوّے کے
پروں پر اگر برف برس جائے تب بھی وہ بلبل کی طرح تماشائے باغ کے لائق نہیں ہوتا)
عہ۲:
یہ مجھسے مکررہے ( کوے مجھ سے کوی مجھ سے) دوبارہ فرمایا ہے گویا وہ کمال
محبت میں عرب کا محاورہ ادا کرکے ارشاد ہوا ہے کہ۔
الغراب
منّی وانا من الغراب ۱۲
کوّا مجھ
سے اور میں کوّے سے ہوں۔(ت)
عہ۳:
سوالات جواب آنے کو بھیجے تھے نہ کہ واپس دینے کو،اگر فقط ٹکٹ کی ناچاری
جواب دینے کی سدِّ راہ ہے تو آپ جواب بیرنگ دیں بلکہ رجسٹری کراکر جودوانی اُٹھے
اتنے کا ویلو بھیجیں دو آنے وہ اور تین اور نذرانے کے مَیں حاضر کروں۔۱۲
عہ۴: وہ دیکھئے جھلک دے گئی۔اس وقت سے
پہلے کا لفظ صاف بتارہا ہے کہ اب مفاوضہ عالیہ سننے سے خبر ہوئی حالانکہ آپ فرماتے
ہیں میں نے سُنا ہی نہیں ۱۲۔
عہ۵:
ہدایہ میں صریح روشن بیان واضح تبیان سے آپ کا رد لکھا ہے مگر زیغ زاغ میں
ہدایہ سو جھے بھی ۱۲۔
مفاوضہ دوم
حضرت عالم اہلسنت مُدَّظِلہ دررَدّ کارڈ
گنگوہی صاحب
رُدَّ حِلُّہ،(عہ۱)
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
علٰی رسولہ الکریم
بنظر خاص
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی،سَلٰم علی المسلمین اجمعین (سلام ہو مسلمانوں پر۔ ت)
آپ کا کارڈ مشعررسید مسائل مرسلہ فقیر آیا،عجلت ارسال رسید باعثِ مسرت ہوئی مگر
ساتھ ہی جواب دینے سے انکار پر حسرت،میری آپ کی مخالفت اصول عقائد میں ہے جس میں
فقیر بحمدربہ القدیر جل جلالہ یقیناً حق و ہدٰی پر ہے۔الحمدﷲ
الذی ھدنٰا ھٰذا وما کنّا لنھتدی لولا ان ھدٰنا اﷲ لقد جاء ت رسل ربنا بالحق ۔ ۱ ؎لاامکان فیہ المکذب ولا
احتمال فیہ للریب فضلا عن ادعاء فعلیتہ الکفر المطلق ۔تمام
تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت عطا فرمائی اور ہم ہدایت نہ
پاتے اگر اﷲ تعالٰی نے ہمیں ہدایت نہ دی ہوتی،تحقیق ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق
کے ساتھ آئے،یہ حق ہے اس میں جھوٹ کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی شک کا کوئی احتمال
ہے چہ جائیکہ اس میں جھوٹ کی فعلیت ووقوع کا دعوٰی کیا جائے جو کفر خالص ہے (ت)
عہ۱:
یعنی رَد کیا گیا کوّے کو اُن کا حلال کہنا ۱۲
(۱ ؎ القرآن
الکریم ۷/ ۴۳)
مگر یہ مسئلہ
دائرہ محض فرعی فقہی ہے فقہ میں فقیر بھی بحمدہ تعالٰی حنفی ہے اور آپ بھی اپنے آپ
کو حنفی کہتے ہیں،تو ان مسائل کو اُن جلائل پر قیاس کرکے پہلو تہی کرنےکی حاجت
نہیں۔
آپ کا جواب:
کہ نہ مسئلہ حلت غراب موجودہ دیار میں مجھے کسی قسم کا شبہ یا خلجان ہے جس کے دفع
کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہو،سوئے اتفاق سے سخت بے محل واقع ہوا۔ فقیر نے کب کہا
تھا کہ آپ کوّے کے مسئلے میں حالتِ شک میں ہیں بلکہ صاف لفظ تھے کہ بغرض رفع شکوک
عوام و وتمیز حلال و حرام خاص آپ سے بعض امور مسئول اور آپ کی نسبت یہ الفاظ
تھے،ضرور ہے کہ آپ اس مسئلے کے تمام اطراف جوانب پر نظر ڈال چکے اور جمیع مالہ
ماعلیہ پر تال چکے ہوں گے تحقیق تنقیح تطبیق ترجیح سبھی کچھ کرلی ہوگی۔ جن سے صاف
روشن تھا کہ آپ کو حلت میں شاک و متردد نہ جانا،نہ آپ کے خلجان کے لیے یہ مراسلہ
بھیجا ۔ آپ کو شک نہیں عوام کو تو شکوک ہیں،مسلمانوں میں اختلاف پڑا ہے،آتش خِصام
شعلہ زا ہے،ایک طائفہ آپ کا مقلد آپ کے فتوے سے حلت کا معتقد ہے،تو کیا رفع نزاع
بین المسلمین سے آپ کو غرض نہیں۔ نگاہِ انصاف صاف ہو تو یہ جواب بے محل ہی نہیں
بالکل برعکس آیا،آپ اس مسئلے میں حالتِ شک میں ہوتے تو یہ جواب کچھ قرین قیاس ہوتا
کہ میں اس میں کیا کہوں میں تو خود تردد و شک میں پڑا ہوں اور جب کہ آپ کو حکم
شرعی تحقیق ہے شبہہ و خلجان اصلاً باقی نہیں تو جو آپ کے خیال میں خلاف حق پر ہیں
حلالِ خدا کو حرام جانتے ہیں آپ پر لازم ہے کہ حق ان پر واضح کیجئے نہ کہ بعد سوال
بھی جواب نہ دیجئے،دیکھئے تو خود آپ کے معتقدین اُسی مذکور اشتہار پرچہ دوم میں
کیا کہتے ہیں: حق میں بطلان کے ملانے کی کوشش جن کی طرف سے ہوئی ان کو جواب دینے
اور عین وقت پر دودھ پانی علیحدہ کردینا فرض منصبی۔
آپ اس مراسلہ
فقیر کو مسئلہ دائرہ میں سوالِ سائل سمجھے یا مناظرہ مقابل یا لاولا یعنی کچھ نہ
کھلا ۔ برتقدیر اول اس جواب کا حسن آپ خود جان سکتے ہیں جسے یہ سمجھے کہ دلیل شرعی
سے مسئلہ شرعیہ کی تحقیق پوچھتا ہے اس کا یہ کیا جواب ہوا کہ ہمیں تحقیق ہے۔ جی وہ
آپ کی اس تحقیق ہی کو تو پوچھتا ہے کہ کیا ہے ان شبہات کا اس میں کیونکر انتفا ہے
نہ یہ کہ آپ کو تحقیق ہے یا نہیں۔ ماوھل کے مقاصد میں فرق نہ کرنا عامی سے بھی
بعید ہے نہ کہ مدعیان علم۔ برتقدیر ثالث جو کلام آپ نے نہ سنا نہ سمجھا اس پر
جزافاً یہ جواب کیسا بے سنے سمجھے کیونکر معلوم ہو کہ اس نے کیا کہا اور آپ کو
جواب میں کیا کہنا چاہیے۔
رہی تقدیر
ثانی یعنی گمان مناظرہ اس پر بھی یہ نہایت عجاب،کیا حلتِ غراب موجود پر کوئی نص
قطعی آپ کے پاس تھی یا جانے دیجئے خاص اُن کووں کا نام لے کر ائمہ مذہب نے حکمِ حل
دیا تھا جس کے سبب آپ کو ایسا تیقن کلی تھا کہ مناظرہ کا کلام بھی سننے کا دماغ نہ
ہوا،کبر ے یقینی ہونا درکنار یہاں سرے سے اپنے صغری ہی پر آپ کسی کتاب معتمد کا نص
نہیں دکھاسکتے ،مثلاً عقعق کو کتابوں میں اختلافی حلال ضرور لکھا مگر یہ کس کتاب
میں ہے کہ کوّے جن میں گفتگو ہے عقعق ہیں،یہ تو آپ یا آپ کے اساتذہ نے اپنی اٹکلوں
ہی سے ٹھہرالیا ہوگا،پھر اٹکلوں پر ایسا تیقن کہ مطلق
شبہہ نہیں اصلاً خلجان نہیں مزید تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں مناظر کی بات سنیں گے
بھی نہیں یعنی چہ ۔کیاکلمۃ الحق ضالۃ المؤمن ۱
؎۔ (حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ت) نہیں،
( ۱ ؎ جامع
الترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل
الفقہ علی العبادۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۳)
(سنن ابن ماجہ
ابواب الزہد باب الحکمۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی
ص ۳۱۷)
کیا آپ یا آپ
کے اساتذہ کی اٹکل میں غلطی ممکن نہیں،آپ کے معتقدین تو اسی اشتہار غراب پرچہ
اولٰی میں آپ کی خطائیں نگاہِ عوام میں ہلکی ٹھہرانے کے لیے حضرات انبیاء علیہم
الصلوۃ والثنا تک بڑھ گئے کہ حضرت مولانا گنگوہی بشر ہیں اور بشریت سے اولیاء کیا
معنی انبیاء علیہم السلام بھی خالی نہیں حالانکہ ایسی جگہ اکابر کو ضرب المثل
بنانا سوئے ادب ہے اور قائل مستحق تعزیز شدید،
شفا شریف میں
ہے:الوجہ
الخامس ان لا یقصد نقصا ولایذکر عیبا ولا سبالکن ینزع بذکر بعض اوصافہ علیہ الصلوۃ
والسلام اویستشہد ببعض احوالہ علیہ الصلوۃ والسلام الجائزۃ علیہ فی الدنیا علٰی
طریق ضرب المثل والحجۃ لنفسہ اولغیرہ اوعلٰی التشبہ بہ او عند ھضمیۃ نالتہ اوغضاضۃ
لحقتہ کقول القائل ان قیل فی السوء فقد قیل فی النبی او کُذِّبْتُ فقد کُذِّبَ
الانبیاء ،اوانا اسلم من السنۃ الناس ولم تسلم منہم انبیاء اﷲ،وانما کثرنا بشاھدھا
مع استثقا لنا حکایتہا لتساھل کثیر من الناس فی ولوج ھذا الباب الضنک وقلۃ علمھم
بعظیم مافیہ من الوزریحسبونہ ھینا وھو عند اللہ عظیم ، فان ھذہ کلھا وان لم تتضمن
سبا ولااضافت الی الملئکۃ والانبیاء نقصا ولا قصد قائلھا غضا فما وقر النبوۃ ولا
عظم الرسالۃ حتی شبہ من شبہ فی کرامۃ نالھا او معرۃ قصدا لانتفاء منھا او ضرب مثلا
بمن عظم اللہ خطرہ فحق ھذا ان درئ عنہ القتل الادب والسجن وقوۃ تعزیرہ بحسب شنعہ
مقالہ ۱ اھ مختصرا ۔بے ادبی
کی پانچویں صورت یہ ہے کہ قائل نہ تو توہین کا ارادہ کرے نہ ہی کوئی برائی یا
دشنام زبان پر لائے مگر ذکر بعض اوصاف نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف جھکے
یا بعض احوال کو کہ حضور پر دنیا میں روا تھے دستاویز بنائے ضرب المثل کے طور پر
یا اپنے یا دوسرے کے لیے حجت لانے یا حضور سے تشبیہ دینے کو یا اپنے یا دوسرے پر
سے کسی نقص یا قصور کا الزام اٹھاتے وقت جیسے قائل کا کہنا کہ مجھے برا کہا گیا تو
نبی کو بھی تو لوگ برا کہتے تھے یا مجھے جھٹلایا تو لوگوں نے انبیاء کی بھی تو
تکذیب کی ہے یا میں لوگوں کی زبان سے کیا بچوں کہ انبیاء تک ان سے سلامت نہ
رہے۔(امام فرماتے ہیں ہم نے یہ الفاظ باآنکہ ان کی نقل ہم پر گراں تھی اس لیے
بکثرت ذکر کیے کہ بہت لوگ اس تنگ دروازے میں گھس پڑنے کو سہل سمجھے ہوئے ہیں اور اس
میں جو سخت وبال ہے اس سے کم واقف ہیں اسے آسان جانتے ہیں اور وہ اللہ کے نزدیک
سخت بات ہے)تو یہ اقوال اگرچہ دشنام پر مشتمل ہیں نہ ان میں انبیاء و ملائکہ علیہم
الصلوۃ والسلام کی طرف کسی نقص کی نسبت ہے نہ قائل نے تنقیص شان کا ارادہ کیا پھر
بھی اس نے نہ نبوت کا ادب کیا نہ رسالت کی تعظیم کہ جن کے شرف کو اللہ تعالٰی نے
عظمت دی ان کے ساتھ ایں وآں کو تشبیہ دی کسی فضیلت میں کہ اسے ملی یا کسی نقص کا
الزام اٹھانے کو یا ان کے ذکر پاک کو ضرب المثل بنایا تو ایسے سے اگر قتل دفع بھی
کریں تو وہ تعزیر و قید اور اپنے قول کی برائی کے لائق سخت سزا کا مستحق ہے۔(ت۱۲)
( ۱ ؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی القسم الرابع الباب الاول فصل الوجہ
الخامس الشرکۃ الصحافیۃ ۲/ ۲۲۸ تا ۲۳۰)
خیر یہ باتیں
تو وہ جانتے ہیں جنہیں حق سبحٰنہ و تعالٰی نے اپنے محبوبانِ کرام علیہم الصلوۃ
والسلام حسنِ ادب بخشا ہے،کلام اس میں ہے کہ انبیاء تک کا آپ کی خاطر یوں ذکر لایا
جائے تو سخت عجب ہے کہ آپ کا خیال اس سے بڑھ کر اپنے آپ یا اپنے اساتذہ کو بالکل
بشریت سے خالی بتائے،میرے پاس آپ کی مہری تحریر ہے جس میں آپ نے بزعم خود یہ مان
کر کہ کتبِ فقہ میں اُلّو کو حلال لکھا ہے پھر ان کے حکم کو محض غلط کہا اور فقہاء
کو بے تحقیق کیے حکمِ شرعی لکھ دینے کی طرف نسبت کردیا،اسی کو یاد کرکے آپ نے
مناظرہ کا کلام بگوشِ ہوش سنا ہوتا کہ جیسے اگلے فقہائے کرام نے آپ کے زعم میں
اُلو کی حلت بے تحقیق لکھ دی،شاید یوں ہی کوّے کے باب میں آپ کو اور آپ کے اساتذہ
کو دھوکا لگا اور بے تحقیق حرام کو حلال سمجھ لیا ہو،یا آپ اور آپ کے اساتذہ بشریت
سے بالکل خالی سہی یہ خطا بھی فقہاء ہی کے ماتھے جائے شاید انہیں نے اُلّو کی طرح
کوے کو بھی حلال لکھ دیا ہو۔ مناظرہ کے کلام سے کشفِ خطا ہو،اس کی بدولت حق کی معرفت
عطا ہو۔ غرض اصلاً نہ سننا اور یہ جواب دے دینا کہ ہمیں تحقیق ہے کسی وجہ پر کوئی
معنی نہیں رکھتا،مجھے معلوم نہیں کہ یہلاتسمعو ا
لھٰذا( اس کو نہ سُنو ت)
کا صیغہ آپ
کی طبیعت کا تقاضا یا معتقدین کا مشورہ تھا،آپ نے سُنا ہو جب ہر قل کے پاس فرمانِ
اقدس پہنچا اور اس نے پڑھنا چاہا اور اس کا بھائی یا بھتیجا مانع آیا تو اس نے کیا
جواب دیا ہے،یہ کہاانک لضعیف الرأی اترید ان ارمی الکتاب قبل ان اعلم
مافیہ تو
ضرور ناقص العقل ہے کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں بے مضمون معلوم کیے خط ڈال دوں ۔ ۱
؎ ،ہر قل اگرچہ نبوت اقدس سے آگاہ تھا مگر
اسے اظہار نہ کرتا تھا ایک عام تہذیب کی بات بتا کر اس احمق کا رَد کیا مدعی تہذیب
و عقل اسلامی کو ایک نصرانی کی فہم و انسانیت سے کم نہ رہنا چاہیے ہاں ینّاقِ ازرق
احمر احمق کی رائے پسند ہو تو جدا بات ہے،
( ۱ ؎ شرح الزرقانی علی المواہب
اللدنیہ المقصدالثانی الفصل السادس دارالمعرفۃ بیروت ۳/ ۳۳۹)
رہا آپ کا
فرمانا کہ بحث مباحثہ مناظرہ مجادلہ کا نہ مجھے شوق ہوا نہ اس قدر فرصت ملی،اور
اسی بنا پر یہ جبروتی حکم کہ میں نے آپ کا مسئلہ بھی نہ سنا ہے اور نہ سننے کا قصد
ہے،براہین قاطعہ تو خاص ردو مجادلہ کا رسالہ ہے اس کی تقریظ میں آپ لکھتے ہیں،احقر
الناس رشید احمد گنگوہی نے اس کتاب کو اول سے آخر تک بغور دیکھا ۔ ۲ ؎ مناظرہ
ومباحثہ کا شوق نہ ہونا اگر تحریرات مناظرہ نہ دیکھنے کو مستلزم تو اتنے حجم کا
طومار حرف بحرف بغور آپ نے کیونکر دیکھا اور مستلزم نہیں تو فقیر کا ایک ورق کا
رسالہ سننے سے کیوں اجتناب ہوا۔ اگر کہیے کہ وہ رسالہ پسند تھا یہ ناپسند لہذا اسے
بغو ردیکھا اسے بیغوری سے بھی نہ سُنا تو صراحۃً واژگونہ ہے پسند و ناپسند دیکھنے
سننے پر متفرع ہے بے دیکھے سنے رجماً بالغیب استحسان واستہجان کس خواب کی تعبیر
سمجھا جائے ۔ علاوہ بریں مناظرہ میں خود آپ کے چند اوراقی رسائل مثل رَدّ الطغیان
ورسالہ تراویح وہدایۃ الشیعہ چھپے ہیں مگر یہ کہیے کہ بحمداﷲ تعالٰی فرق بین ہے
،جس پر یہ شوق و بے شوقی مبتنی ہے یعنی نہ ہر جائے مرکب الٰی آخرہ۔
( ۱ ؎ البراہین القاطعۃ تقریظ مولوی رشید احمد ،مطبع
لے بلا سا ڈھور،ص ۲۷۰)
آپ کا فرمانا
کہ میں نے آپ کا مسئلہ نہ سنا۔
خاطر سے یا
لحاظ سے میں مان تو گیا
مگرکارڈ
دیکھنے والے اس پر چرچتے اور کہتے ہیں،یہ فرمانا کہ بندہ نے اس وقت تک کوئی اس
مسئلہ میں نہ کوئی موافق تحریر سنی ہے نہ خلاف نہ آئندہ ارادہ سننے کا ہے مجھے اس
وقت سے پہلے یہ بھی خبر نہ ہوئی تھی کہ اس مسئلہ میں کوئی تحریر کس طرف سے چھپی
ہے،اُسی امر کی پیشبندی ہے جو مراسلہ کے سوال اول میں معروض ہوا تھا کہ دونوں پرچہ
مذکورہ آپ کی رائے سے ہیں یا بالائی لوگوں نے بطور خود شائع کیے ۔ علی الثانی اُن کے
سب مضامین آپ کو قبول ہیں یا کل مردود یا بعض بحال سکوت وہ پرچے آپ ہی کے قرار
پائیں گے۔ ظاہر یہی ہے کہ آپ نے ضرور یہ شقوق سنیں اور ان سے مفر اصلاً نظر نہ آئی
سو اس صورت کے کہ سرے سے کانوں پر ہاتھ دھر لیے کہ میرے کان تک ان کی خبر بھی نہ
پہنچی،مضمون سننا تو بڑی بات ہے میں کیسے کہہ دوں کہ مقبول ہیں یا مردود،اور واقعی
قبول کرنے میں سارا بار اپنے سر آتا تھا اورنہ قبول کرنے میں معتقدین کا دل دکھتا
بلکہ غالباً اپنا ہی ساختہ پر داختہ باطل ہوتا تھا ناچار سوا اس انکار کے علاج کیا
تھا ورنہ کیونکر قرین قیاس ہو کہ آپ کا مسئلہ آپ کا معاملہ آپ کا فرقہ آپ کا سلسلہ
شہروں شہروں وہ شور و غلغلہ اور آپ کانوں کان خبر نہیں،طرفہ یہ کہ آپ خود اسی کارڈ
میں فرمارہے ہیں ،نفس مسئلہ مجھ سے ہزاروں مرتبہ مجھ سے کسی نے پوچھا اور میں نے
بتلادیا اب نا معلوم پچاس ۵۰ سال کے بعد یہ غل شور کیوں ہوا۔ غل شور کی خبر ہے مگر
یہ نہیں معلوم کہ وہ غل کیا اور کس پیرایہ میں ہے۔ لطف یہ کہ معتقدین معرض بیان
میں سکوت سے عرفاً اقرار دے چکے کہ ان کے مضامین آپ ہی کی تعلیم ہیں ضمیمہ شحنہ
ہند کے اس بیان پر کہ یہ لچر اعتراضات مجوزین اکل زاغ ہذا کے ہیں جو غالباً ان کے
کسی تعلیم دہندہ نے ہدایت فرمائی ہے جن کے ارشاد کے موافق بحکم۔ع بمے سجادہ رنگین کن گرت
پیر مغاں گوید،۱ (شراب کے ساتھ مصلّٰی رنگین کرلے اگر
پیر مغاں کہے ت)
( ۱ ؎ دیوان حافظ ،سب رنگ کتاب گھر دہلی ص ۲۹)
اس موذی خبیث
زاغ کا کھانا اس فریق نے اختیار کیا ہے آپ کو معلوم ہو کہ یہ پیر مغاں باتفاق
فریقین آپ ہیں خود آپ کے معقتدین پرچہ اولٰی میں فرماتے ہیں: شک نہیں کہ حضرت
مولانا گنگوہی بشر ہیں لیکن یہ کون سعادت مندی ہے کہ بلاسوچے سمجھے ایسے پیر مغاں
فقیہ مسلم پر اعتراض کر بیٹھے ،واہ رے زمانہ غافل و مدہوش مغبچوں میں یہ شور و
خروش اور پیر مغان در خوابِ خرگوش،خیر یہ تو آپ جانیں یا آپ کے مرید،کلام اس میں
ہے کہ ضمیمہ شحنہ کا یہ کلام تردید والوں نے دیکھا اور آپ کا تبریہ نہ کیا اب ظاہر
تو یہ ہے کہ جو ظاہر تھا وہ ظاہر ہولیا۔عنہاں کے ماند آں رازے
الخ ( وہ راز پوشیدہ کیسے رہ سکتا ہے۔ت)
کتبِ متداولہ
درسیہ سے کّوا حلال ہونے کا اِدعا اُسی وقت تک سز اہے کہ جواب سوالات سے دامن
کھینچا ہے ،نمبر وار ہر سوال کا صاف صاف جواب بے پیچ و تاب دیتے ہی تو بعونہ
تعالٰی کھلا جاتا ہے کہیا غراب البین یا لیت بینی و بینک بعد المشرقین (
اے فراق کے کوے کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق مغرب جتنا فاصلہ ہوتا۔ت)
آپ فرماتے
ہیں: صرف یہ کارڈ آپ کے رفع انتظار کے لیے بھیجا ہے ورنہ اس کی بھی حاجت نہ تھی۔
میں کہتا ہوں حاجت تو کوّا کھانے کی بھی نہ تھی اب کہ واقع ہولیا مسائل شرعیہ کا
جواب دینے کی ضرورت ہے تقریر بالا یاد کیجئے خیر یہ تو آپ کے عذر کا ضروری جواب
تھا جس سے مقصود مسئلہ شرعیہ میں وضوحِ حق کا فتحباب تھا اگرچہ آپ بنظرِ مخالفت
اسے اپنے کارڈ کا رد سمجھیں بلکہ گلوے کارڈ پر کا ردجانیں،مجھے اس سے بحث نہیں
مجھے اپنی نیت معلوم ہے میں آپ سے پھر گزارش کرتا ہوں کہ مسلمانوں میں فتنہ
پھیلانے سے رفعِ اختلاف بھلا ہے آپ کا معتقد گروہ دوسرا قرآن سے کہے تو نہیں
سنتا،آپ کی بے دلیل کی سنتا ہے اور وہ خود بھی اشارے اشارے میں کہہ چکا کہ ہمارے
مولوی سے طے ہوجانا اولی ہے،اور اب تو آپ کو پچاس برس سے یہ مسئلہ چھان رکھنے کا
ادعا ہے،اپنے اساتذہ سے بھی تحقیق کرلینا لکھا ہے،دوسرے آپ سے صرف وضوحِ حق کے لیے
سوالات شرعیہ کررہا ہے،اور حق سبحنہ وتعالٰی نے قرآن عظیم میں حق صاف بیان فرمانے
کا عہد لیا ہے۔قال
تعالٰی:واذاخذ اﷲ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ۱
؎ ۔اور یاد کرو جب اﷲ تعالٰی نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم
ضرور اسے لوگوں سے بیان کردینا۔(ت)
( ۱ ؎ القرآن ا لکریم ۳/ ۱۸۷)
پھر سوالات
نہ سُننے اور جوابات نہ دینے کی وجہ کیا ہے آپ مناظرہ کا خوف نہ کیجئے میں اطمینان
دلاتا ہوں کہ یہ سوالات مخاصمانہ نہیں ضرف ظہورِ حق کے لیے ہیں،آپ کا کارڈ پانچویں
دن بعد ظہر آیا آج رجسٹری کا وقت نہیں یہ خط ان شاء اﷲ کل رجسٹری شدہ حاضر ہوگا سہ
شنبہ ۱۶ شعبان تک جواب جملہ سوالات تین روز آئندہ میں آنے کا مژدہ یا تعیین مدت کا
وعدہ ملے ورنہ فقیر اتمامِ حجت کرچکا ہے۔ سوالاتِ شرعیہ کا جواب نہ دینے اور مسلمانوں
میں اختلاف ڈال کر الگ ہو بیٹھنے کا مطالبہ حشر میں ہوا تو جب ہوگا یہاں بھی عقلاً
اس پہلو تہی کو جواب سے عجز پر محمول کریں گے آئندہ اختیار بدست مختار،جواب میں
جملہ شرائط مراسلہ سابقہ ملحوظ رہیں اور سوال اول کا جواب دینے کو وہ دونوں پرچے
اور جو تحریرات چھپی ہوں امرِ دین ورفع نزاعِ مسلمین کے لیے ایک گھڑی بھر کی کلفت
اٹھا کر براہین قاطعہ کی طرح اول سے آخر تک بغور سن لیجئے اور جلد جواب دیجئے۔واﷲ
یقول الحق ویھدی السبیل وحسبنا اﷲ ونعم الوکیلوصلی اللہ تعالٰی علی
السید الجلیل والہ وصحبہ اولی التبجیل امین والحمدﷲ رب العلمین ۔
اور اللہ
تعالٰی حق ارشاد فرماتا ہے اور راستہ دکھاتا ہے اور ہمیں اﷲ تعالٰی کافی ہے اور وہ
کیا اچھا کار ساز ہے،اﷲ تعالٰی درود نازل فرمائے بزرگی والے سردار پر اور آپ کی آل
اور آپ کے صحابہ پر جولائقِ تعظیم ہیں۔ اے اﷲ ۔ ہماری دعا قبول فرما اور تمام
تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے جو کل جہانوں کا پرورگارہے۔(ت)
فقیر احمد رضا قادری عفی
عنہ
یاز دہم شعبان معظم ۱۳۲۰ھ
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.