Tuesday, February 12, 2013

Firqa Jadeed Naam Nihad Ahle Hadith Ke Wasawas [Part-1]


الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا  محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین

فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب

فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ،
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پھنس جاتا هے ،
ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے ۔

وسوسہ 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول اللهﷺ  کی ؟؟
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ،  بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائی میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائی ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائی سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا :
فَسْـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکْرِ اِنۡ کُنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳
اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں (سورہ النحل : 43)

عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جیسا کے حدیث ہے:
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس،‏‏‏‏ قال حدثني مالك،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عبد الله بن عمرو بن العاص،‏‏‏‏ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا . ‏"‏‏.
‏ قال الفربري حدثنا عباس قال حدثنا قتيبة حدثنا جرير عن هشام نحوه‏.‏

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انھوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔
کتاب العلم صحیح بخاری حدیث نمبر: 100

اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان ٠

وسوسہ 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تھیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ۔
اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے
 ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بھی ملے وه سر آنکھوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جھوٹا قول کیوں نہ هو ،
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ،

تاریخ ابن خلدون میں هے:
( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها )
فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تھیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت
( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ،

اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ،
2- تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑھ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰
ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰
ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (مئوطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (مئوطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰
اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکھ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے (کتاب الآثار) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکھ احادیث متن وسند کے ساتھ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تھیں ،
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ،
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث.
 وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس
. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة
. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا.
قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد


وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تھے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟
جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مستند امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکھے هیں ، جرح ایک بھی نہیں لکھی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکھنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جید و مستقل کتاب ہی لکهھی هے ۰
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکھتے هیں کہ
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع التحرير ۰
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکھے هیں ،جرح کا ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ،
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے
 ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکھے هیں ،جرح کا ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ۰
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے ۔

وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تھے ، ان کو علم حدیث میں کوئی تبحر حاصل نہیں تھا ؟؟
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑھتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ،
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹھایا هے
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تھے
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹھا ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابرعلم حاصل کیا هے ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب
( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 )میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا
تهذيب التهذيب ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے (آ خرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تھے ؟؟
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟

وسوسه   5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تھے ؟؟
یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتھ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بھی باطل وکاذب هے ،
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور روایت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹھنا شرط نہیں هے ،
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ،
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1۔ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں ،
حافظ ذهبی نے اپنی کتاب تذکره الحُفاظ ) میں ،
حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بھی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ،
حافظ عراقی ،
امام دارقطنی ،
امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ،
7۔      امام سیوطی ،
8۔   حافظ ابوالحجاج المِزِّی ،
حافظ ابن الجوزی ،
10۔ حافظ ابن عبدالبر ،
11۔حافظ السمعانی ،
12۔امام نووی ،
13۔ حافظ عبدالغنی المقدسی ،
14۔ امام جزری ،
15۔ امام تُوربِشتی ،
16۔امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17۔امام یافعی شافعی ،
18۔علامہ ابن حجرمکی شافعی ،
19۔علامہ احمد قسطلانی ،
20۔علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین
بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جھوٹ ؟؟

وسوسه 6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئی  کتاب نہیں لکھی ، اور فقہ حنفی کے مسائل لوگوں نے بعد میں ان کی طرف منسوب کرلیئے هیں ؟؟
جواب = اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بهی کرتے هیں منکرین حدیث کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکهیں لهذا احادیث کا کوئ اعتبارنہیں هے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے هیں کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکهوایا لہذا اس قرآن کا کوئ اعتبارنہیں هے ، فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہ دیا کہ انهوں نے توکوئ کتاب نہیں لکھی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئ اعتبار نہیں هے ، یاد رکهیں کسی بھی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین هونے کے لیئے کتاب کا لکهنا ضروری نہیں هے ، اسی طرح کسی مجتهد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لیئے اس امام کا کتاب لکھنا کوئ شرط نہیں هے ، بلکہ اس امام کا علم واجتهاد محفوظ هونا ضروری هے ، اگرکتاب لکهنا ضروری هے تو خاتم الانبیاء صلی الله نے کون سی کتاب لکھی هے ؟ اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث هیں ، مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کے شیوخ هیں کیا ان کی حدیث و روایت معتبر هونے کے لیئے ضروری هے کہ انهوں نے کوئ کتاب لکهی هو ؟ اگر هر امام کی بات معتبر هونے کے لیئے کتاب لکھنا ضروری قرار دیں تو پھر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ،
لہذا یہ وسوسہ پھیلانے والوں سے هم کہتے هیں کہ امام بخاری اور امام مسلم کے تمام شیوخ کی کتابیں دکھاو ورنہ ان کی احادیث کو چھوڑ دو ؟؟
اور امام اعظم رحمہ الله نے توکتابیں لکھی بھی هیں ، ( الفقه الأكبر )
 امام اعظم رحمہ الله کی کتاب هے جو عقائد کی کتاب هے ، « الفقه الأكبر » علم کلام وعقائد کے اولین کتب میں سے هے ، اور بہت سارے علماء ومشائخ نے اس کی شروحات لکھی هیں ، اسی طرح کتاب ( العالم والمتعلم ) بھی امام اعظم رحمہ الله کی تصنیف هے ، اسی طرح ( كتاب الآثار ) امام محمد اور امام ابویوسف کی روایت کے ساتھ امام اعظم رحمہ الله هی کی کتاب هے ، اسی طرح امام اعظم رحمہ الله کے پندره مسانید هیں جن کو علامہ محمد بن محمود الخوارزمي نے اپنی کتاب ((جامع الإمام الأعظم )) میں جمع کیا هے ، اور امام اعظم کی ان مسانید کو کبار محدثین نے جمع کیا هے ، بطور مثال امام اعظم کی چند مسانید کا ذکرکرتاهوں ،
1 = جامع مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة =
تأليف أبي المؤيد محمد بن محمود بن محمد الخوارزمي،
مجلس دائرة المعارف حیدرآباد دکن سے 1332هـ میں طبع هوئ هے دو جلدوں میں ، پھر ، المكتبة الإسلامية ، پاکستان سے 1396هـ میں طبع هوئ ، اور اس طبع میں امام اعظم کے پندره مسانید کو جمع کردیا گیا هے ،
2 = مسانيد الإمام أبي حنيفة وعدد مروياته المرفوعات والآثار =
مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي ، نے 1398هـ میں شائع کی هے ،
3 = مسند الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه =
تقديم وتحقيق صفوة السقا ، مکتبه ربيع ، حلب شام 1382هـ.
میں طبع هوئ
4 = مسند الإمام أبي حنيفة النعمان =
شرح ملا علي القاري، المطبع المجتبائي،
5 = شرح مسند أبي حنيفة
ملا علي القاري، دار الكتب العلمیہ ، بيروت سے 1405 ھ
میں شائع هوئ
6 = مسند الإمام أبي حنيفة
تأليف الإمام أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، مكتبة الكوثر ، رياض سے 1415هـ شائع هوئ ،
7 = ترتيب مسند الامام ابي حنيفة على الابواب الفقهية ،
المؤلف: السندي، محمد عابد بن أحمد
اس مختصرتفصیل سے فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کا یہ وسوسہ بھی کافورهوگیا کہ امام ابوحنیفہ نے کوئ کتاب نہیں لکھی ۰
اس موضوع کے تحت ان شاء الله فرقہ اهل حدیث کے مشہوروساوس وافترءآت واکاذیب کا رد وجواب ذکرکیا جائے گا
وسوسه7 = فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر هے یا قرآن و حدیث پر ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بهی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم هوتا هے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بھی باطل وفاسد هے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح هے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح هے ، اب اصل سوال یہ بنتا هے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماهرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاهل فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ اهل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ هے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل ناسمجھ لوگ نام نہاد خودساختہ جاهل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے هیں ،
اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح هے ۰

وسوسه8 = کیا فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتھ امام ابوحنیفہ سے ثابت هے؟؟
جواب = یہ وسوسہ بهی عوام میں پهیلایا جاتا هے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتهہ بغض کی وجہ سے ، آپ کبهی بهی نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئ بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی کی مخالفت هے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لیئے هندوستان میں پیدا کیا گیا ،
باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ هے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا هرمفتی بہ اورمعمول بها مسئلہ سند ودلیل کے ساتهہ ثابت هے ، اور سند سے بهی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر هے ، اوراهل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر هے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتهادات امام ابوحنیفہ اورآپ کے تلامذه کے هیں ،
اورعلماء امت نے مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکهی هیں ، مثال کے طور پر کتاب (( بداية المجتهد ونهاية المقتصد )) علامہ القاضي أبي الوليد ابن رشد القرطبي المالکی کی هے ، اس میں مذاهب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتهہ موجود هیں ، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائ بہترین اورمقبول کتاب هے ، اسی طرح ایک کتاب (( الفقه على المذاهب الأربعة )) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی هے ، اسی طرح ایک کتاب (( رحمة الأمة في اختلاف الأئمة )) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشي الشافعي الدمشقی کی هے ،
اسی طرح امام شعرانی کی کتاب (( المیزان )) وغیرذالک اسی طرح بہت سارے کتب ورسائل علماء اهل سنت کے موجود هیں جس میں مذاهب اربعہ کے مسائل موجود هیں ، توامام اعظم ابوحنیفہ کے مسائل وفقہ بهی ثابت هے اسی لیئے توعلماء اهل سنت امام اعظم ابوحنیفہ کے اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ، تمام علماء متاخرین ومتقدمین ( اگلے پچهلے ) سلف وخلف سب دیگرائمہ کے ساتهہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مذهب اور اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں یہ وسوسہ کہ فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں هے بالکل باطل وفاسد هے ،
اور هم اس وسوسہ کے پهیلانے والے نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے جہلاء سے سوال کرتے هیں کہ تم قرآن مجید کی هر هر آیت حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند کے ساتهہ ثابت کرو الحمد سے والناس تک پڑهتے جاو اور ایک ایک آیت کی سند بهی پیش کرتے جاو ، نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے اگلے پچهلے سب جمع هوجائیں تب بهی پیش نہیں کرسکتے ، اگرنام نہاد فرقہ اهل حدیث کے یہاں تواتر کی کوئ حیثیت نہیں هے صرف سند ضروری هے توپهرسارے قرآن کا کیا کروگے ؟؟ لهذا هم کہتے هیں کہ قرآن مجید کی ایک ایک حرف ایک ایک آیت محفوظ هے اورثابت بالتواتر هے ، بعینہ اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل تواترکے ساتهہ ثابت هیں ، اورالحمد لله دلائل کے اعتبارسے فقہ حنفی اقرب الی الکتاب والسنہ هے ، اور اس بات کا اقرار صرف علماء احناف هی نہیں بلکہ غیرعلماء احناف نے بهی کیا هے

وسوسه9 = ائمہ اربعہ کے درمیان مسائل میں اختلاف هے اورقرآن وسنت میں کوئ اختلاف نہیں هے لہذا اختلاف وشک سے بچنے کے لیئے ان ائمہ کوچهوڑنا ضروری هے ،

یہ وسوسہ اس طرح بھی پیش کیا جاتا هے کہ
ائمہ اربعہ کی تقلید کی وجہ سے اختلافات پیدا هوئے لهذا ان اختلافات سے تنگ آکرهم نے ان کی تقلید چهوڑدی

جواب = یہ وسوسہ بهی ایک عام ان پڑهہ آدمی کوبہت جلد متاثرکرلیتا هے ، لیکن درحقیقت یہ وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، اس لیئے کہ فروعی مسائل میں اختلاف صرف ائمہ اربعہ کے مابین هی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی تها جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں کہ ( ترمذی ، ابوداود ، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، وغیره ) کتب احادیث میں سینکڑوں نہیں هزاروں مسائل مختلف فیہ مسائل موجودهیں ، اب اس اصول کی بنا پر صحابہ کو بهی چهوڑنا پڑے گا ، لیکن ان شاء الله اهل سنت والجماعت ان وساوس باطلہ کی بنا پر نہ توصحابہ کرام کی اتباع کوچهوڑیں گے اور نہ ائمہ اربعہ کی اتباع کو یہ اور بات هے کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے عوام الناس کو نہ صرف یہ کہ ائمہ اربعہ کی اتباع سے دور کیا بلکہ صحابہ کرام کی اتباع سے بهی دور کیا ، اورمختلف وساوس کی وجہ سے عوام الناس کوفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے جاهل شیوخ نے اپنی اتباع اورتقلید پرمجبور کردیا ،
1 =
اگرصرف اختلاف کی وجہ سے ائمہ اربعہ اور فقہ کو چهوڑنا ضروری هے ، تو پهر قرآن مجید کے قرآءت میں بهی اختلاف هے سات مختلف قرآئتیں هیں ، اسی طرح احادیث کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک حدیث کو صحیح اور دوسرا ضعیف کہتا هے جیسا کہ اهل علم خوب جانتے هیں ، اسی طرح حدیث کے راویوں کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ رُواة کے بارے میں بهی محدثین کے مابین اختلاف هے ، ایک محدث ایک راوی کو صادق ومصدوق عادل وثقہ کہتا هے تودوسرا اس کوکاذب وکذاب غیرعادل غیرثقہ کہتا هے ، اسی طرح محدثین کے مابین الفاظ حدیث میں اختلاف واقع هوا هے ایک سند میں ایک طرح کے الفاظ دوسری سند میں مختلف الفاظ هوتے هیں ، حاصل یہ کہ محدثین کرام کے مابین الفاظ حدیث ، سند ومتن حدیث ، رُواة حدیث ، درجات حدیث ، وغیره میں اختلاف واقع هوا هے ، لہذا اگر صرف فروعی اختلاف کی وجہ ائمہ اربعہ اور فقہ کوچهوڑنا ضروری هے توپهرسب کچهہ چهوٹ جائے گا ، تو پهرحدیث بهی گئ اور قرآن بهی اورصحابہ کرام کو بهی چهوڑنا پڑے گا کیونکہ ان کے مابین بهی فروعی مسائل اختلاف موجود هے ، اب فقہ بهی گئ قرآن وحدیث بهی اورصحابہ بهی توباقی کیا بچا ؟؟
توباقی بچ گیا نفس اماره اور ابلیس اوراس کی ذریت ،
فرقہ ناریہ نام نہاد اهل حدیث انهی وساوس کے ذریعہ عوام الناس کو قرآن وحدیث ، صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ کی راهنمائ سے نکال کر نفس وشیطان کی اتباع میں لگا دیتے هیں ،
2 =
یہ وسوسہ اس طرح بهی هم باطل کرتے هیں ، کہ چوده سوسال میں امت مسلمہ میں کتنے بڑے بڑے ائمہ ، محدثین ، مفسرین ، فقہاء ، علماء گذرے هیں ، ان علماء امت نے اپنے قول وفعل زبان وقلم سے دین اسلام کی اورعلوم دینیہ کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی حتی کہ دین کا کوئ گوشہ ایسا نہیں هے جوسلف صالحین کی خدمات جلیلہ سے خالی هو ، لیکن ان حضرات ائمہ میں سے کسی ایک نے بهی ایک کتاب ورسالہ تودرکنار بلکہ ایک صفحہ بهی کسی کتاب میں نہیں لکها ، جس میں یہ کہا گیا هو کہ اے لوگو دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید واتباع گمراهی هے لہذا ان کے قریب بهی نہ جاو ( معاذالله )
حتی کہ هندوستان میں انگریزی دور میں ایک فرقہ جدید پیدا کیا گیا ، اس فرقہ نے گورنمنٹ سے اپنےلیئے ( اهل حدیث ) کا نام الاٹ کرایا ، اوردیگروساوس کی طرح مذکوره وسوسہ بهی اسی فرقہ نے پهیلایا ،
اور عجیب بات یہ هے کہ عام آدمی کوتو یہ کہتے هیں کہ ائمہ اربعہ اور ان کی فقہ میں اختلاف هے لہذا ان کو چهوڑدو اور فرقہ اهل حدیث میں شامل هوجاو ، اب اس عام جاهل آدمی کو کیا پتہ کہ جس فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے اندر میں شامل هورها هوں ان میں آپس میں مسائل وعقائد میں کتنا شدید اختلاف هے ،
فرقہ نام نہاد اهل حدیث کی اندرونی خانہ جنگی پراگرکوئ مطلع هوجائے توان کی اتباع وتقلید تو کجا ان کے قریب بهی نہ پهٹکے گا ، فرقہ نام نہاد اهل حدیث کے مشائخ واکابر کے آپس میں اختلاف پرمبنی مسائل وعقائد اگرمیں ذکرکروں توبات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اگرکوئ آدمی ان کے آپس کی خانہ جنگی اور دست وگریبانی کی ایک جهلک دیکهنا چاهے تودرج ذیل چند کتب کا مطالعہ کرلیں ،
(
فتاوی ثنائیه ، فتاوی ستاریه ، فتاوی علماء اهل حدیث ، فتاوی نذیریه ،
عرف الجادی ، نزل الابرار ، فتاوی اهل حدیث ، لغات الحدیث ، فتاوی برکاتیه

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.