جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا
ابتدائیہ: جاننا چاہئے
کہ سیدنا الانبیاء و المرسلین ‘ رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کے زمانہ مبارکہ سے لے کر اب تک ایک ٹولہ امنا باﷲ و بالیوم الاخر
اور نشہد انک لرسول اﷲ ﷺ کا
دم بھرتا ہے۔ کیفیت فی قلوبہم مرض اور طریقہ کار یخدعون اﷲ و الذین امنوا رکھتا ہے
جس پر قرآن مجید سے منافقت کالقب پاتا ہے۔ اسی قلبی مرض دھوکہ دہی اور منافقت کا
اظہار گزشتہ دنوں کیماڑی ٹائون کراچی میں ایک پملفٹ بعنوان ’’میرابریلویت سے دیوبندیت تک کاسفر‘‘ مسلمانوں پر کفر و شرک اور بدعت کا فتویٰ لگانے والوں کی
جانب سے تقسیم کرکے کیا گیا ہے جس میں عالم اسلام کے مشہور و معروف بزرگ‘ ولی اﷲ‘عاشق رسول اﷲﷺ‘ شیخ الاسلام و المسلمین مجدد دین و ملت سیدی اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان فاضل محدث بریلوی علیہ رحمتہ الرحمن کے ملفوظات میں موجود مکمل
بات نہیں کی۔ ایک عبارت کو اس کے اصل قائل کے ذکر کئے بغیر اس میں مجرمانہ خیانت
کرتے ہوئے تحفظ ناموس رسالت کے پاسبان سیدی اعلیٰ حضرت سے مسلمانوں کو متنفر کرنے
اور اصل حقائق سے گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
اصل عبارت
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیات حقیقی حسی دنیاوی ہے ان
پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے۔ پھر فوراً ان کو
ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے اس حیات پر وہی احکام دنیویہ میں ان کا ترکہ بانٹا
نہ جائے گا‘ ان کی ازواج کو نکاح حرام‘ نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں وہ اپنی قبور
میں کھاتے پیتے نماز پڑھتے ہیں بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں کہ
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں‘ وہ
ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔
(ملفوظات‘ حصہ سوم ص ۳۱۰‘ مشتاق بک کارنر لاہور)
نقلی عبارت
’’انبیاء
کی قبور میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔
(ملفوظات احمد رضا‘جلد سوم ص ۲۵۷)
قارئین کرام! بلکہ بدعتی مولف نے اپنے مذکور پمفلٹ کے ذریعے
ہمیں یہ بتایا ہے کہ اثبات حیات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا مسئلہ جو قرآن واحادیث طیبہ سمیت تمام خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام اور
تابعین ‘ آئمہ
مجتہدین‘ مفسرین‘ محدثین‘ مفتیان دین سے ثابت ہے اور اس پر ان
کا اجماع ہے۔ اسے ٹھکراتے ہوئے دیو (شیطان) کی نسبت والے ٹولے دیوبندیت میں گھس
گیاجس پر ہمیں عرض کرنا پڑا کہ جب دل میں خباثت و شقاوت آہی گئی ہے۔ تو اﷲ کےاس
پیغام ازلی ’’حتی یمیز الخبیث من الطیب‘‘ کے ثبوت کے بعد وعید فی الدنیا
فبشرہم بعذاب الیم اور فی الاخرۃ فی الدرک الاسفل من النار کے
عنقریب مستحق ہوں گے۔
دیوبندی اعتراض کا آپریشن
اس میں ہم آپ کے سامنے ملفوظات کی مکمل اصل عبارت اور دیوبندی
پمفلٹ میں نقل عبارت درج کرتے ہیں تاکہ حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا
ہوجائے۔لہذا سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اﷲ عنہ قرآن و حدیث اور اجماع امت کا
خلاصہ ارشاد فرماتے ہیں۔
قارئین کرام! یقینا آپ بھی اصل اور نقل عبارت میں زمین و
آسمان کے فرق کے ساتھ بدعتی مولف کی مکاری و عیاری‘ کذب بیانی اور جہالت و منافقت
سے واقف ہوچکے ہوں گے۔ مثلا …
دیوبندی منافقت
جیسا کہ علامہ زرقانی علیہ الرحمہ کی عبارت کو فاضل بریلوی کی
بتانا اور اﷲکے محبوبوں پر صیغہ‘ درودوسلام‘ علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کی جلوہ
گاہ کے ساتھ لفظ ’’مطہرہ‘‘ کو ذکر نہ کرنا‘ جبکہ دونوں باتیں ملفوظات کی اصل
عبارت میں موجود ہیں۔
لمحہ
فکریہ
ناطقہ اسے کیا کہے عقیدت و محبت کا نشان یا عداوت و منافقت کا
اعلان ۔
دیوبندی جہالت
بدعتی مولف نے ملفوظات شریف کا حوالہ دیتے ہوئے ’’حصہ سوم‘‘
کو ’’جلد سوم‘‘لکھا جبکہ پوری
دنیا میں اب تک تو ملفوظات ایک جلد چار حصوں پر مشتمل ہےاور اسی عبارت والے صفحے
کے اوپر ایک جانب واضح الفاظ میں ’’حصہ سوم‘‘ لکھا ہوا موجود ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔
اس حقیقت سے دیوبندی مکاری و عیاری ‘ منافقت و جہالت شرما کر
ٹپک پڑی ہے۔اس دیوبندی ادا پر ہم خاص انہی کے لئے یہ عرض کرتے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ
ہےروتا ہے‘ آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا ؟
آپریشن کا دوسرا مرحلہ
برادران اسلام ملفوظات شریف کی اصل مکمل بات پڑھنے کے بعد آپ
پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہوگی کہ اس عبارت میں گستاخی کا شبہ تک
نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عالم اسلام کے یہ بزرگ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی علیہ الرحمہ متوفی ۱۱۲۲ء اپنی شرح جو صدیوں پہلے لکھی گئی ہے اس میں ہرگز
ہرگز معترضہ عبارت تحریر نہ فرماتے اور نہ ہی تحفظ ناموس رسالت کے پاسبان سیدی
اعلیٰ حضرت قدس سرہ ان کے حوالے سے بیان فرماتے۔
نوٹ: علامہ
زرقانی علیہ الرحمہ نے وہ عبارت
شارح بخاری شریف امام احمد بن قسطلانی
متوفی ۹۲۳ھ کی سیرت رسولﷺ
‘ معجزات و شان اور اثبات حیات انبیاء علیہم
الصلوٰۃ والسلام پر قرآن کی آیات و
احادیث طیبہ سمیت کثیر صحابہ عظام رضی
اﷲ عنہم سے ثابت مدلل کتاب ’’مواہب الدنیہ‘‘
پر شرح لکھتے ہوئے تحریر فرمائی ہے جو ’’شرح
زرقانی علی المواہب الدنیہ‘‘
کے نام سے صدیوں سے شائع ہوتی آرہی ہے جس کو آج تک کوئی مائی کا لال غلط ثابت نہ
کرسکا اور پھر سیدی فاضل بریلوی تو فقط ناقل ہیں اور ناقل پر اعتراض کرنا جہالت
اور اصول سے بغاوت ہے جیسا کہ…
دیوبندی بغاوت
ہر مکتبہ فکر کے تعلیمی نصاب میں شامل اصول مناظرہ کی مستند و
معتبر شرح’’مناظرہ رشیدیہ‘‘
مصنف علامہ رشید جونپوری علیہ الرحمہ میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ ’’ان بعض
الاشیاء لا یجوز طلبہ من الناقل کالدلیل علی المنقول‘‘
(کچھ ایسی
چیزیں جس پر دلیل طلب کرنا ناقل سے درست نہیں۔ جیسے عبارت منقولہ پر دلیل کا طلب
کرنا)
حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد حق و صداقت کی یہ آواز آتی ہے۔
آپریشن کا تیسرا مرحلہ
اس کے باوجود منافقین سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو مورد
الزام ٹھہراکر گستاخ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن علامہ زرقانی علیہ الرحمہ جو
اصل قائل ہیں‘ ان سے دیدہ و دانستہ طور پر چشم پوشی کرتے ہوئے ان کے بارے میں کوئی
فتویٰ نہیں دیتے جو انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ مخالفین نے نہ تو اعلیٰ حضرت
علیہ الرحمہ کے پیش کردہ حوالے کو جھٹلایا نہ اس کا انکار کیا اور نہ ہی علامہ
زرقانی علیہ الرحمہ سے اس کو غلط ثابت کرسکے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس احمقانہ
حرکت سے نہ صرف سیدی اعلیٰ حضرت بلکہ علامہ زرقانی اور ان کی یہ شرح منظر عام پر
آنے کے بعد تمام بزرگان اسلام‘ مفسرین کرام‘محدثین عظام میں سے جنہوں نے بھی اس شرح کو پڑھا‘ اس کو صحیح
کہا‘ استفادہ کیا۔ علامہ زرقانی علیہ الرحمہ کو بزرگ مانا‘ شرح کے ناشر و معاون سب
کےسب دیوبندی الفاظ میں سب سے بڑے گستاخ قرار پاتے ہیں۔ معاذ اﷲ ’’یہ ہے دیوبندی
دھرم‘‘ اﷲ کی پناہ… بلکہ اس کی زد میں خود اکابر و اصاغر علمائےدیوبند اور ان کو
ماننے والی تمام دیوبندیت بھی انہی کے الفاظ میں ’’سب سےبڑے گستاخ‘‘ کیونکہ یہ بھی
سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی علیہ الرحمہ کوبزرگ مانتے اور ان کی شرح سے استفادہ
حاصل کرتے ہیں لہذا "اس
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"۔
آپریشن کا آخری مرحلہ
اس میں آپ کے سامنے ہم مزید جہالت و منافقت سامنے لاتے ہوئے
عرض کرتے ہیں کہ رہا مسئلہ لفظ ’’شب باشی‘‘ کا تو اس کا معنی اردو لغت فیروز
اللغات میں(رات کا قیام‘ رات گزارنا اور لفظ شب باش کا رات رہنے والا) نیز اکثر
اہل علم اپنی گفتگو میں کہتے ہیں… فلاں نے فلاں کے یہاں شب باشی کی لہذا لغت
سےثابت ہوا کہ لفظ شب باشی کے معنی میں نہ تو کوئی خرابی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی
گستاخانہ بات پائی جاتی ہے اور پھر شب کا معنی تو رات ہے اور قبرمیں بھی رات دن
ہوتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے جبکہ رات دن کا تعلق سورج کےطلوع اور غروب ہونے سے ہے
لہذا کہا جاسکتا ہے کہ ملفوظات والی عبارت میں لفظ شب باشی کا مطلب اﷲ تعالیٰ کے
اذن و قدرت سے ازواج مطہرات کا اپنےسرتاجوں سے ملنا و ملاقات کرنا ہی ہے اور پھر
شب باشی والی عبارت کے غلط ہونے پر بدعتی مولف نے کوئی بھی دلیل نہیں دی ہے جس سے
ثابت ہوا ہے کہ بدعتی مولف کا بغیر کسی دلیل و ثبوت کے سیدی اعلیٰ حضرت کو گستاخ
کہنا غلط بلکہ بدعتی مولف کا اپنے منہ خود گستاخ بننا ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت
ہے کہ جو مسلمان کو گالی دیتا یا پھر اس پر کفر و شرک کا فتویٰ لگاتا ہے اور
وہ بات اس شخص میں نہیں پائی گئی جس بناء پر کفر و شرک کا فتویٰ لگایا گیا تھا تو وہ فتویٰ خود کہنے والے کی طرف
لوٹتا ہے لہذا صحیح احادیث کےمطابق سیدی اعلیٰ حضرت پر گستاخ والا فتویٰ خود بدعتی
مولف کے گلے کا ہار بن گیا۔
دعوت فکر
تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ مخالفین اس طرح کے الزام عائد
کرکے مسلمانوں کےساتھ منافقت کیوں کرتے ہیں؟ وہ اس لئے تاکہ ولی اﷲ‘ عاشق رسولﷺ
‘ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے مسلمانوں کو متنفر کرکے اپنے اس غلیظ و خبیث عقیدہ
میں مبتلا کرسکیں جو حضرت محمد مصطفی جان رحمتﷺ
کے بارے میں ان کا ہے۔ پڑھیئے اﷲ کے حبیب ہمارے پیارے نبی رسول اﷲﷺ
کی طرف منافقین کے پیشوا اسماعیل دہلوی یہ بات منسوخ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ… ’’میں بھی مر کر ایک دن مٹی میں
ملنے والاہوں‘‘
(تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان، صفحہ نمبر ۱۳۷ )۔۔۔۔معاذاللہ ثمہ معاذ اللہ
تقویۃ الایمان کتاب کی شان دیوبندی قطب ربانی رشید احمد گنگوہی یہ بتاتا ہےتقویتہ
الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے۔ اس کا پاس رکھنا‘ پڑھنا‘ عمل کرنا عین اسلام
ہے (فتاویٰ رشیدیہ)
اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کافر کہنے والوں کے بارے میں
فتویٰ دیا کہ جو صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے وہ اہلسنت و جماعت سے خارج نہیں ہوگا
(فتاویٰ رشیدیہ)
اور دیوبندی قطب اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے کہتا ہے سن لو
حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے، اور بقسم میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر اس زمانے کی نجات موقوف ہے میری اتباع پر۔
(تذکرۃ الرشید،جلد ۲، صٖفحہ ۱۷)
آپ ہی اپنی جفائوں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو
شکایت ہوگی ۔
قارئین کرام! اس کے بعد آپ کے سامنے دیوبندی حقائق پیش کئے
جاتے ہیں جس پر ہمیں تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تھانوی اور لفظ شب باشی
اشرف
علی تھانوی اپنی کتاب (جمال الاولیأ) میں لکھتا ہے محمد الحضری مجذوب ابدال
میں سے تھے۔ آپ کی کرامتوں میں سے یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ تیس شہروں میں ٖخطبہ
اور نماز جمعہ بیک وقت پڑھائے اور کئی کئی شہروں میں ایک ہی شب میں شب باش ہوتے
تھے۔ اب حضرات دیوبندیہ تھانوی کو مجذوب ابدال کےمتعلق لفظ شب باش کہنے پر کن
الفاظ سے نواز کر شاباشی دیں گے۔
دیوبندی قطب ربانی کی شب باشی
دیوبندی قطب ربانی
رشید احمد گنگوہی کہتا ہے میں نے ایک
بار خواب میں دیکھاتھا کہ مولوی
محمد قاسم نانوتوی عروس (دلہن) کی
صورت میں ہیں اور میرا ان سے نکاح ہوا سو جس طرح زن و شوہر میں ایک کو دوسرے سے
فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے فائدہ پہنچا ہے ۔
(تذکرۃ الرشید مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)
اور پھر اشرف علی تھانوی نے (ارواح
ثلاثہ) میں لکھاحضرت گنگوہی نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ
فرمایا ہے کہ میری زبان سے غلط نہیں نکلوائے گا۔
گنگوہی و نانوتوی کی دن باشی
دیوبندی
اشرف علی تھانوی
اپنی کتاب ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر ۱۲۸ میں لکھتا ہے
حضرت رشید احمد گنگوہی نے حضرت قاسم نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ میں یہاں ذرا لیٹ
جائوں‘ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے مگر پھرفرمایا
تو بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے ‘ حضرت گنگوہی بھی اسی چارپائی پرلیٹ گئے اور
مولانا کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق
اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے۔ مولانا ہرچند فرماتے ہیں کہ میاں کیا کررہے ہو‘
لوگ کیا کہیں گے ‘ حضرت نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے تو کہنے دو۔
آپ کی داستان سن سن
کر حالت ہنسی سب پہ طاری ہے۔
آخری کیل
ویسے تو ہمارے مخالفین ہم مسلمانوں کی بات بات پر شرک و بدعت
کا فتویٰ داغتے ہیں جیسا کہ دیوبندی پمفلٹ میں بھی ہے۔ بحمدﷲ یہی کفر و شرک اور
بدعت کا فتویٰ مخالفین کے گلے کا ہار بن گیا کیونکہ ان کے دھرم میں جو صفت قرآن میں
اﷲ تعالیٰ کے لئے بتائی گئی ہے مثلا انت مولانا اس کو غیر اﷲ میں بتانا شرک اور اﷲ
کے ولیوں سے اپنے کو منسوب کرکے قادری ‘ چشتی کہلوانا بدعت ہے (تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان)
ان دونوںباتوں کا ارتکاب بدعتی مولف نے اپنے پمفلٹ کے عنوان
کے تحت اپنے نام سے پہلے لفظ مولانا اور آخر میں چشتی لکھ کر اور دیو (شیطان) کی
نسبت والے دیوبندی ٹولے نے تقسیم کرکے کیا۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم
فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
اختتامیہ:
الحمدﷲ ہم نے دیوبندی پمفلٹ ’’میرا بریلویت سے دیوبندیت کا سفر‘‘
کی حقیقت آپ کے ہاتھوں میں پہنچا دی لہذا بحکم قرآن کونوا مع الصادقین
(سچوں کے ساتھ ہوجائو) دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کے
صدقے ہم تمام
مسلمانوں کو دیو کے مکروفریب سے محفوظ فرمائے۔
آمین
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.