سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ بریلوی یا مسلک اعلٰی حضرت سے مراد کوئی نیا مسلک نہیں*، بلکہ صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، صالحین اور علماء امت جس مسلک پر تھے مسلک اعلٰی حضرت ، بریلوی کا اطلاق اُسی پر ہوتا ہے دراصل اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریبا دو صدی قبل برصغیر کی سرزمین پر کئی نئے فرقوں*نے جنم لیا اور ان فرقوں*کے علمبرداروں نے اہلسنت و جماعت کے عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دینے کی شرمناک روش اختیار کی ، خصوصا مولوی اسماعیل دہلوی نے وہابی مسلک کی اشاعت کے لئے جو کتاب تقویۃ الایمان کے نام سے مرتب کی اس میں علم غیب مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ، حاضرو ناظر ، شفاعت ، استعانت ، نداء یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اختیارات نبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ تمام عقائد کو معاذاللہ کفر و شرک قرار دے دیا ، جب کہ یہ سارے عقائد روز اول سے قران و سنت سے ثابت شدہ ہیں*، اسی طرح میلاد و قیام ، صلوٰۃوسلام ، ایصال ثواب ، عرس یہ سب معمولات جو صدیوں*سے اہلسنت و جماعت میں رائج ہیں*اور علمائے امت نے انھیں*باعث ثواب قرار دیا ہے ، لیکن نئے فرقوں*کے علمبرداروں*نے ان عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دیتے ہوئے اپنی ساری توانائی انہیں مٹانے پر صرف کی ، اسی زمانے میں علمائے اہلسنت نے اپنے قلم سے ان عقائد و معمولات کا تحفظ فرمایا اور تحریر و تقریر اور مناظروں*کے ذریعے ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دیا ۔
عقائد کی اسی معرکہ آرائی کے دور میں*بریلی کی سرزمین پر امام احمد رضا خان قدس سرہ پیدا ہوئے ، آپ زبردست عالم دین تھے اللہ تعالٰی نے آپ کو بے پناہ علمی صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا اور آپ تقریبا 100 سے زائد علوم میں مہارت رکھتے تھے خصوصا علم فقہ میں آپ کے دور میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا ، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مجدد و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی علمی صلاحیتوں*کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو آپ کے مخالف ہیں ، بہرحال آپ نے اپنے دور کے علمائے اہلسنت کو دیکھا کہ وہ باطل فرقوں کے اعتراضات کے جوابات دے کر عقائد اہلسنت کا دفاع کررہے ہیں*تو آپ نے بھی اس عظیم خدمت کے لئے قدم اٹھایا اور اہلسنت کے عقائد کے ثبوت میں دلائل و براہین کا انبار لگادیا ، ایک ایک عقیدے کے ثبوت میں کئی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ، ساتھ ہی ساتھ جو معمولات آپ کے زمانے میں رائج تھے ان میں سے جو قرآن و سنت کے مطابق تھے آپ نے ان کی تائید فرمائی اور جو قرآن اور سنت کے خلاف تھے آپ نے ان کی تردید فرمائی ، اس طرح بے شمار موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابوں کا عظیم ذخیرہ مسلمانوں کو عطا فرمایا ، بہرحال آپ نے باطل فرقوں کے رد میں اور عقائدو معمولات اہلسنت کی تائید میں جو عظیم خدمات انجام دین اس بنیاد پر آپ علمائے اہلسنت کی صف میں نمایاں ہوگئے ، اور عقائد اہلسنت کی زبردست وکالت کرنے کے سبب سے یہ عقائد امام احمد رضا کی ذات کی طرف منسوب ہونے لگے ، اور اب حال یہ ہے کہ آپ کی ذات اہلسنت کا ایک عظیم نشان کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی حجازی یا شامی و یمنی یا عراقی و مصری بھی مدینہ منورہ میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے تو نجدی اسے بریلوی کہتے ہیں*حالانکہ اس کا کوئی تعلق بریلی شہر سے نہیں ہوتا ، اسی طرح اگر کوئی اسئلک الشفاعۃ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرے تو چاہے وہ جزیرہ العرب ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو وہابی اسے بریلوی ہی کہتا ہے جبکہ بریلوی اسے کہنا چاہیے جو شہر بریلوی کا رہنے والا ہو لیکن اس کی وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلاف کے وہ عقائد ہیں جن کی امام احمد رضا قدس سرہ نے دلائل کے ذریعے شد و مد سے تائید فرمائی ہے اور ان عقائد کے ثبوت میں سب نمایاں خدمات انجام دی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ عقائد امام احمد رضا سے اس قدر منسوب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان اگر ان عقائد کا قائل ہو تو اسے آپ ہی کی طرف منسوب کرتے ہوئے بریلوی کہا جاتا ہے ۔
اب چونکہ برصغیر میں فرقوں کی ایک بھیڑ موجود ہے اس لئے اہلسنت وجماعت کی شناخت قائم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے اس لئے کہ دیوبندی فرقہ بھی اپنے آپ کو اہلسنت ہی ظاہر کرتا ہے جبکہ کے دیوبندیوں*کے عقائد بھی وہی ہیں*جو وہابیوں کے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی اپنے آپ کو اہل حدیث*کہتے ہیں*اور آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے اور دیوبندی تقلید تو کرتے ہیں لیکن وہابیوں*کے عقائد کو حق مانتے ہیں*اس لئے فرقوں سے ممتاز کرنے کے لئے مسلک اعلٰی حضرت کا استعمال مناسب سمجھا ، اس کا سب سے بڑا فائدہ کہ اب جو مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا سمجھا جائے گا اس کے بارے میں*خود بخود یہ تصدیق ہوجائے گی کہ یہ علم غیب ، حاضر و ناظر ، استعانت ، شفاعت وغیرہ کا قائل ہے اور معمولات اہلسنت عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قیام ، صلوۃ وسلام کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں*فقط اپنے آپ کو سنی کہنا کافی ہے تو میں*یہ کہوں گا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو سنی کہے آپ اسے کیا سمجھیں گے یہ کونسا سنی ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرتے ہوئے وہابی عقائد کو حق ماننے والا یا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والا۔ ظاہر ہے صرف سنی کہنے سے کوئی شخص پہچانا نہ جائے گا مگر کوئی اپنے آپ کو بریلوی سنی کہے تو فورا سمجھ میں آجائے گا کہ یہ حنفی بھی ہے اور سچا سنی ہے ، یا پھر اپنے آپ کو کوئی مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا کہے تو بھی اس مسلمان کے عقائد و نظریات کی پوری نشاندہی ہوجاتی ہے ، اہل ایمان کو ہر دور میں*شناخت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے دیکھیے مکہ کی وادیوں میں*جب اسلام کی دعوت عام ہوئی تو اس وقت ہر صاحب ایمان کو مسلمان کہا جاتا تھا اور جب بھی کوئی کہتا میں مسلمان ہوں*تو اس شخص کے بارے میں فورا یہ سمجھ آجاتا کہ یہ اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے لیکن ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اہل ایمان کو اپنی شناخت کے لئے ایک لفظ کے استعمال کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ لفظ سنی ہے وجہ یہ تھی کہ ایک فرقہ پیدا ہوا جس سے معاذاللہ حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرنا شروع کردیا اور اس میں حد سے تجاوز کرگیا ، لیکن وہ لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اس لئے اس دور میں*اہل سنت نے اپنے آپ کو سنی مسلمان کہا ، صرف مسلمان اگر کوئی اپنے آپ کو کہتا تو اس کے بارے میں*سوال پیدا ہوتا کہ یہ کون سا مسلمان ہے ؟*حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ماننے والا مسلمان ہے یا ان پر لعن طعن کرنے والا ، لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھ آجاتا کہ یہ خلفاء کو ماننے والا مسلمان ہے ، اس طرح خلفاء پر لعن طعن کرنے والے رافضیوں کے مقابلہ میں اہل سنت کی ایک الگ شناخت ہوگئی سنی مسلمان ۔
اس سلسلے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی یہ چار مسلک تو پہلے سے موجود ہیں پھر یہ پانچواں*مسلک مسلک اعلٰی حضرت کیوں کہا جاتا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلک اعلٰی حضرت یہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ چاروں مسلک حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حق ہیں اور کسی ایک کی تقلید واجب ہے اور یہی امر اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی کتب سے ثابت ہے اس لئے اگر کوئی شافعی یا حنبلی بھی اپنے آپ کو مسلک اعلٰی حضرت سے منسوب کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ فروعیات میں اپنے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ عقائد و معمولات اہل سنت کا بھی قائل ہے ۔ رہا یہ سوال کہ مخا لفین اس سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں*کہ یہ پانچواں*مسلک ہے تو ہم سارے وہابیوں ، دیوبندیوں کو چیلنچ کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ امام احمد رضا نے کسی عقیدہ کی تائید قرآن و سنت کی دلیل کے بغیر کی ہے ، کسی بھی موضوع آپ ان کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر عقیدہ کے ثبوت میں*انہوں نے قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ اور پھر اپنے مئوقف کی تائید میں*علماء امت کے اقوال پیش کیے ہیں*، حق کو سمجھنے کے لئے شرط یہ ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکر امام احمد رضا قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ، مطالعہ کے دوران آپ واضح محسوس کریں*گے کہ اعلٰی حضرت وہی کہہ رہے ہیں جو چودہ سو سالہ دور میں*علماء*و فقہاء کہتے رہے ہیں ۔ اب بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہوا ہو اور وہ مسلک کے لفظ کو اعلٰی حضرت کی طرف منسوب کرنے پر معترض ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ یہ ایک نیا مسلک ہے تو وہابی ، دیوبندی سنبھل جائیں*اور میرے ایک سوال کا جواب دیں*کہ مولوی محمد اکرم جو کہ دیوبندیوں*کے معتمد مئورخ*ہیں ، انہوں نے موج کوثر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عقائد و نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے باربار مسلک ولی اللہ کا لفظ استعمال کیا تو کیا چاروں مسلک سے علیحدہ یہ مسلک ولی اللہ کوئی پانچواں*اور نیا مسلک ہے ؟*جو آپ کا جواب ہوگا وہی ہمارا بھی۔
عقائد کی اسی معرکہ آرائی کے دور میں*بریلی کی سرزمین پر امام احمد رضا خان قدس سرہ پیدا ہوئے ، آپ زبردست عالم دین تھے اللہ تعالٰی نے آپ کو بے پناہ علمی صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا اور آپ تقریبا 100 سے زائد علوم میں مہارت رکھتے تھے خصوصا علم فقہ میں آپ کے دور میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا ، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مجدد و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی علمی صلاحیتوں*کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو آپ کے مخالف ہیں ، بہرحال آپ نے اپنے دور کے علمائے اہلسنت کو دیکھا کہ وہ باطل فرقوں کے اعتراضات کے جوابات دے کر عقائد اہلسنت کا دفاع کررہے ہیں*تو آپ نے بھی اس عظیم خدمت کے لئے قدم اٹھایا اور اہلسنت کے عقائد کے ثبوت میں دلائل و براہین کا انبار لگادیا ، ایک ایک عقیدے کے ثبوت میں کئی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ، ساتھ ہی ساتھ جو معمولات آپ کے زمانے میں رائج تھے ان میں سے جو قرآن و سنت کے مطابق تھے آپ نے ان کی تائید فرمائی اور جو قرآن اور سنت کے خلاف تھے آپ نے ان کی تردید فرمائی ، اس طرح بے شمار موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابوں کا عظیم ذخیرہ مسلمانوں کو عطا فرمایا ، بہرحال آپ نے باطل فرقوں کے رد میں اور عقائدو معمولات اہلسنت کی تائید میں جو عظیم خدمات انجام دین اس بنیاد پر آپ علمائے اہلسنت کی صف میں نمایاں ہوگئے ، اور عقائد اہلسنت کی زبردست وکالت کرنے کے سبب سے یہ عقائد امام احمد رضا کی ذات کی طرف منسوب ہونے لگے ، اور اب حال یہ ہے کہ آپ کی ذات اہلسنت کا ایک عظیم نشان کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی حجازی یا شامی و یمنی یا عراقی و مصری بھی مدینہ منورہ میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے تو نجدی اسے بریلوی کہتے ہیں*حالانکہ اس کا کوئی تعلق بریلی شہر سے نہیں ہوتا ، اسی طرح اگر کوئی اسئلک الشفاعۃ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرے تو چاہے وہ جزیرہ العرب ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو وہابی اسے بریلوی ہی کہتا ہے جبکہ بریلوی اسے کہنا چاہیے جو شہر بریلوی کا رہنے والا ہو لیکن اس کی وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلاف کے وہ عقائد ہیں جن کی امام احمد رضا قدس سرہ نے دلائل کے ذریعے شد و مد سے تائید فرمائی ہے اور ان عقائد کے ثبوت میں سب نمایاں خدمات انجام دی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ عقائد امام احمد رضا سے اس قدر منسوب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان اگر ان عقائد کا قائل ہو تو اسے آپ ہی کی طرف منسوب کرتے ہوئے بریلوی کہا جاتا ہے ۔
اب چونکہ برصغیر میں فرقوں کی ایک بھیڑ موجود ہے اس لئے اہلسنت وجماعت کی شناخت قائم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے اس لئے کہ دیوبندی فرقہ بھی اپنے آپ کو اہلسنت ہی ظاہر کرتا ہے جبکہ کے دیوبندیوں*کے عقائد بھی وہی ہیں*جو وہابیوں کے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی اپنے آپ کو اہل حدیث*کہتے ہیں*اور آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے اور دیوبندی تقلید تو کرتے ہیں لیکن وہابیوں*کے عقائد کو حق مانتے ہیں*اس لئے فرقوں سے ممتاز کرنے کے لئے مسلک اعلٰی حضرت کا استعمال مناسب سمجھا ، اس کا سب سے بڑا فائدہ کہ اب جو مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا سمجھا جائے گا اس کے بارے میں*خود بخود یہ تصدیق ہوجائے گی کہ یہ علم غیب ، حاضر و ناظر ، استعانت ، شفاعت وغیرہ کا قائل ہے اور معمولات اہلسنت عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قیام ، صلوۃ وسلام کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں*فقط اپنے آپ کو سنی کہنا کافی ہے تو میں*یہ کہوں گا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو سنی کہے آپ اسے کیا سمجھیں گے یہ کونسا سنی ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرتے ہوئے وہابی عقائد کو حق ماننے والا یا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے والا۔ ظاہر ہے صرف سنی کہنے سے کوئی شخص پہچانا نہ جائے گا مگر کوئی اپنے آپ کو بریلوی سنی کہے تو فورا سمجھ میں آجائے گا کہ یہ حنفی بھی ہے اور سچا سنی ہے ، یا پھر اپنے آپ کو کوئی مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا کہے تو بھی اس مسلمان کے عقائد و نظریات کی پوری نشاندہی ہوجاتی ہے ، اہل ایمان کو ہر دور میں*شناخت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے دیکھیے مکہ کی وادیوں میں*جب اسلام کی دعوت عام ہوئی تو اس وقت ہر صاحب ایمان کو مسلمان کہا جاتا تھا اور جب بھی کوئی کہتا میں مسلمان ہوں*تو اس شخص کے بارے میں فورا یہ سمجھ آجاتا کہ یہ اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے لیکن ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اہل ایمان کو اپنی شناخت کے لئے ایک لفظ کے استعمال کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ لفظ سنی ہے وجہ یہ تھی کہ ایک فرقہ پیدا ہوا جس سے معاذاللہ حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرنا شروع کردیا اور اس میں حد سے تجاوز کرگیا ، لیکن وہ لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اس لئے اس دور میں*اہل سنت نے اپنے آپ کو سنی مسلمان کہا ، صرف مسلمان اگر کوئی اپنے آپ کو کہتا تو اس کے بارے میں*سوال پیدا ہوتا کہ یہ کون سا مسلمان ہے ؟*حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ماننے والا مسلمان ہے یا ان پر لعن طعن کرنے والا ، لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھ آجاتا کہ یہ خلفاء کو ماننے والا مسلمان ہے ، اس طرح خلفاء پر لعن طعن کرنے والے رافضیوں کے مقابلہ میں اہل سنت کی ایک الگ شناخت ہوگئی سنی مسلمان ۔
اس سلسلے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی یہ چار مسلک تو پہلے سے موجود ہیں پھر یہ پانچواں*مسلک مسلک اعلٰی حضرت کیوں کہا جاتا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلک اعلٰی حضرت یہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ چاروں مسلک حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حق ہیں اور کسی ایک کی تقلید واجب ہے اور یہی امر اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی کتب سے ثابت ہے اس لئے اگر کوئی شافعی یا حنبلی بھی اپنے آپ کو مسلک اعلٰی حضرت سے منسوب کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ فروعیات میں اپنے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ عقائد و معمولات اہل سنت کا بھی قائل ہے ۔ رہا یہ سوال کہ مخا لفین اس سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں*کہ یہ پانچواں*مسلک ہے تو ہم سارے وہابیوں ، دیوبندیوں کو چیلنچ کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ امام احمد رضا نے کسی عقیدہ کی تائید قرآن و سنت کی دلیل کے بغیر کی ہے ، کسی بھی موضوع آپ ان کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر عقیدہ کے ثبوت میں*انہوں نے قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ اور پھر اپنے مئوقف کی تائید میں*علماء امت کے اقوال پیش کیے ہیں*، حق کو سمجھنے کے لئے شرط یہ ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکر امام احمد رضا قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ، مطالعہ کے دوران آپ واضح محسوس کریں*گے کہ اعلٰی حضرت وہی کہہ رہے ہیں جو چودہ سو سالہ دور میں*علماء*و فقہاء کہتے رہے ہیں ۔ اب بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہوا ہو اور وہ مسلک کے لفظ کو اعلٰی حضرت کی طرف منسوب کرنے پر معترض ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ یہ ایک نیا مسلک ہے تو وہابی ، دیوبندی سنبھل جائیں*اور میرے ایک سوال کا جواب دیں*کہ مولوی محمد اکرم جو کہ دیوبندیوں*کے معتمد مئورخ*ہیں ، انہوں نے موج کوثر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عقائد و نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے باربار مسلک ولی اللہ کا لفظ استعمال کیا تو کیا چاروں مسلک سے علیحدہ یہ مسلک ولی اللہ کوئی پانچواں*اور نیا مسلک ہے ؟*جو آپ کا جواب ہوگا وہی ہمارا بھی۔
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.