Friday, September 13, 2013

Azan se Pehley Drood Parhna - 2


فقہاء نے مندرجہ ذیل اوقات میں درود پڑھنے سے منع کیا ہے۔ خرید و فروخت کے وقت، جماع ، رفع حاجت ، ذبح ، چھینک ، تعجب یا ٹھو کر کے وقت ، تلاوت قرآن یا نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آنے پر اور کسی بڑے آدمی کی آمد کی خبر دیتے وقت۔ ان مواقع کے علاوہ جس وقت بھی درود و سلام پڑھا جائے، حکم الہی ( صلو علیہ و سلمو ) ۔ ( ان پر درود و سلام بھیجو ) کی تعمیل ہوتی ہے ۔ چونکہ جواز کے لیے حکم الہی موجود ہے ۔ لہٰذا ممانعت کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے ، بغیر دلیل کے کسی چیز کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیسان ہے ، ( جب تم موذن کی اذان سنو تو ا سی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ) ۔ ( مسلم ج ۱ ص ،۱۶۶ ) اس حدیث پاک میں درود شریف پڑھنے کا مطلق حکم ہے ۔ خواہ آہستہ پڑھا جائے یا بلند آواز سے ۔ نیز درود شریف پڑھنے کا حکم موذن اور سامعین دونوں کے لیے ہے ۔ ( رد المختار ، بہار شریعت )
شفا شریف جلد دوم صفحہ ۵۲ اور شامی جلد اول صفحہ ۴۸۳پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت، آپ کا نام مبارک سننے اور لکھنے کے وقت اور اذان کے وقت درود و سلام پرھنا مستحب بتایا گیا ہے۔ خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی ذکریا کاندھلوی صاحب نے فضائل درود کے صفحہ ۷۲ پر شامی کے حوالے سے لکھا کہ (جن اوقات میں (درود) پڑھ سکتا ہو پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو)۔ پھر انہوں نے تکبیر کے وقت اور اذان کے جواب کے بعد درود پڑھنا مستحب قرار دیا۔ (فضائل درود)
امام اہلسنت اعلی حضرت محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سے جب اس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا، (اذان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام عرض کرنا جیسا کہ ملک عرب و مصر و شام وغیرہا بلا د دار الاسلام بلکہ خاص مسجد الحرام و مسجد اقدس مدینہ طیبہ میں مغرب کے سوا معمول ہے ۔ اور پانچ سو برس سے زیادہ گزرے کہ ائمہ و علماء اس پر تقریر و تسلیم کرتے آئے، بیشک جائز و مقبول ہے۔ حضور پر نور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اقدس ہر وقت ہر آن ہر مسلمان کا ایمان، ایمان کی جان، جان کا چین ، چین کا سامان ہے …… حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، ( جو کسی چیز کو دوست رکھتا ہے اس کو بہت یاد کرتا ہے)۔ (ابو نعیم ، دیلمی)
پھر دلائل کے بعد فرماتے ہیں ، در مختار میں ہے کہ اذان کے بعد صلوہ و سلام عرض کرنا شب دو شنبہ نماز عشاء ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ھ میں شروع ہوا ، پھر جمعہ کے دن پھر دس برس بعد دو شنبہ نماز عشاء ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ ھ میں شروع ہوا ، پر جمعہ کے دن پھر دس برس بعد مغرب کے سوا سب نمازوں میں پھر دو دفعہ مغرب میں بھی ، یہ ان نئی باتوں میں سے ہے جو نیک و محمود ہیں ۔ امام محدث شمس الملتہ والدین سخاوی ( القول البدیع ) میں ، علامہ عمر بن نجیم ( نہر الفائق شرح کنز الدقائق ) میں ، پھر فاضل محقق امین الملتہ والدین شامی ( رد المختار علی الدر المختار ) میں فرماتے ہیں ، (حق بات یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے ) ۔
امام سخاوی رقمطراز ہیں،(موذن حضرات فجر اور جمعہ کی اذانوں اور دیگر اذانوں کے بعد جو (الصلوہ والسلام علیک یا رسول اللہ) پڑھتے ہیں اسکی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین ایوبی کے دور میں ان کے حکم سے ہوئی۔ اس سے پہلے لوگ اپنے خلفاء پر السلام علی الامام الظاہر وغیرہ کہہ کر سلام کہتے تھے جبکہ سلطان نے اس بدعت کو باطل کر کے اس کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوہ و سلام کا حکم جاری کیا، اسے اسکی جزائے خیر عطا ہو)۔ (القول البدیع ص ۱۹۲)
امام سخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) کے علاوہ امام شعرانی (م ۹۷۳ھ ) نے کشف الغمہ ص ۷۸، امام ابن حجر شافعی (۹۵۲ھ) نے فتاوی کبری ج ۱ص ۱۳۱، امام جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ) نے حسن المحاضرہ میں، محدث علی قاری (م ۱۰۱۴، ھ ) نے مرقاہ شرح مشوکہ جلد اول میں، علامہ حلبی (م ۱۰۴۴ھ) نے سیرت حلبہ میں اور علامہ شامی (م ۱۲۵۲ ھ) نے رد المختار میں اسے بدعت حسنہ قرار دیکر اس کی تعریف کی ہے۔
گویا سات سو سال سے ائمہ دین اور جلیل القدر علماء کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ اذان کے ساتھ صلوہ و سلام پڑھنا جائز و مستحب ہے، جبکہ اعلی حضرت محدث بریلوی ۱۲۷۲ھ میں پیدا ہوئے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اذان کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی ایجاد نہیں بلکہ یہ تو گذشتہ سات صدیوں سے امت مسلمہ کا معمول ہے لہذا اسے بدعت سیئہ کہنا ہی در اصل بدعت و گمراہی ہے۔
 ابو داؤد شریف میں حضرت عروہ بن زبیر ( رضی اللہ عنہ ) ایک خاتون سے روایت کرتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں میرا مکان بلند ترین مکانوں میں سے تھا ۔ حضرت بلال ( رضی اللہ عنہ ) اس مکان پر صبح صادق سے قبل چڑھ جاتے ، جو نہی صبح صادق ہوتی تو اذان سے قبل چند دعائیہ کلمات کہہ کر پھر اذان دیتے ۔ وہ کلمات یہ ہیں ۔ ( اللھم انی احمدک استعینک علی قریس ان یقیموا دینک ) ۔ ( اے اللہ ! میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہو ں اس بات پر کہ قریش تیرے دین کو قائم کریں ) ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے قبل بلند آواز سے قریش کے لیے دعا پڑھتے تھے ۔ درود و سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحمت کی دعا ہے تو جب اذان سے قبل قریش کے لیے دعا کرنا جائز ہے تو قریش کے سردار ، رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کرنا کیونکر نا جائز ہوگا؟

سلطان صلاح الدّین ایوبی نے 781ہجری میں حکومتی سطح پر اذان سے پہلے درود و سلام جاری کروایا۔


حضرت امام سخاوی ( 902 ہجری ) فرماتے ہیں "سلطان صلاح الدّین ایوبی کے 


دور میں اذان سے پہلے الصلوٰۃ و السّلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا جاتا"

 ( القول البدیہ صفحہ 192)

امّتِ مسلمہ کے ان چار عظیم محدّثین نے اس کو جائز لکھا ہے:

حضرت ملا علی قاری

امام شعرانی

امام ابن حجر شافعی


امام شامی


القول البدیع



امام شعرانی کشف الغمہ
علامہ شامی الرد المحتار


No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.